سوشل میڈیا کے بہت سے منفی پہلو ہیں اور اس پر تنقید کرنے والوں کی بھی کمی نہیں مگر اس کے بہت سے مثبت انداز و اطوار بھی ہیں جن کی بدولت ہمیں معاشرتی بگاڑ اور انسانی کردار کے گرتے ہوئے معیار سے مکمل آگاہی ملتی رہتی ہے اور پل بھر میں وہ بگڑتی ہوئی صورتِ حال وائرل ہو کر ملک کے طول و عرض میں پھیل جاتی ہے۔ اس سے یقینا ہم اپنا اجتماعی سماجی رویہ اور اصل چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں سوشل میڈیا اب مسلسل ہمیں آئینہ دکھاتا رہتا ہے۔ آج کل ایک ایسی ہی تصویر وائرل ہے جس پر ایک موٹر سائیکل کی عقبی لائٹ پر ''ایس ایچ او کا مالی‘‘ کی عبارت درج ہے۔ اگرچہ یہ تحریر کسی بھی طور اچھوتی نہیں اور نہ ہی پہلی مرتبہ کسی نے یہ طرزِ عمل اپنایا ہے‘ دورانِ سفر گلی، کوچہ و بازار سے لے کر بڑی شاہراہوں تک پر موٹر سائیکل سے لے کر بڑی گاڑیوں تک پر ایسی کئی منفرد عبارات جلی حروف میں ہم دیکھتے رہتے ہیں۔ کوئی ترازو کی تصویر بنا کر وکالت‘ عدالت اور انصاف کے شعبے سے اپنا تعلق ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کوئی صحافت کا علمبردار ہونے کا دعویدار نظر آتا ہے، کوئی اپنی نمبر پلیٹ کو نیلے اور سرخ رنگوں میں نمایاں کر کے قانون نافذ کرنے والے محکمے سے اپنا تعلق جوڑنے کی سعی میں مبتلا نظر آتا ہے تو کوئی سبز نمبر پلیٹ سے اپنا تعلق سرکار دربار سے جوڑتا ہے۔یہی حال مختلف سرکاری‘ نیم سرکاری اور پارلیمانی اداروں سے وابستہ اہلکاروں اور ملازمین کا بھی ہے۔ ایسے ایسے عہدے، دفاتر اور مراتب تخلیق کر کے اپنی نمبر پلیٹ پر نمایاں طور پر درج کیے جاتے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
گزشتہ دنوں سے ایسی متعدد تصاویر سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ کسی نے درج کر رکھا تھا ''بڑا بھائی ڈپٹی کمشنر‘‘۔ ایک نمبر پلیٹ پر لکھا تھا ''ماموں جان ڈی آئی جی‘‘۔ کسی گاڑی پر ''جھنڈے گاڑ کر‘‘ ان کو لیدر کے کور سے ڈھانپ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ موصوف کسی اعلیٰ ریاستی عہدے پر فائز ہیں اور اس وقت نجی دورے پر ہیں۔ کئی مرتبہ ناکے پر موجود اہلکار بھی اس بودوباش سے دھوکا کھا کر ایسی گاڑی میں موجود شخصیت کو سیلوٹ پیش کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح آپ مختلف سماجی تقاریب اور شادی بیاہ کے موقع پر کئی ایسی شخصیات کی آمد پر ورطۂ حیرت میں مبتلا ہو جاتے ہوں گے جنہیں مسلح سکیورٹی گارڈز نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہو گا۔ موصوف اتراتے ہوئے‘ اپنی مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے سٹیج کی جانب آہستہ آہستہ بڑھ رہے ہوں گے جہاں ان کی شان و شوکت کو چار چاند لگانے کی رسومات ادا کرنے کے لیے فوٹوگرافی کا سیشن ترتیب دیا جاتا ہے۔
یہی تصنع، بناوٹ، ریاکاری اور جھوٹی شان و شوکت لوگوں کی گفتگو میں بھی عام ملتی ہے۔ آپ کو آئے روز ایسے افراد سے واسطہ پڑتا ہو گا جنہوں نے ایک ہی سانس میں مختلف بڑی سیاسی شخصیات سے اپنی رشتہ داری، اعلیٰ عہدوں پر براجمان بیورو کریٹس سے تعلق داری اور ذاتی تعلقات کو ثابت کرنے کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملا کر اپنی خوش گفتاری اور چرب زبانی کا چورن بیچنا ہوتا ہے۔ اس قسم کے لوگ آپ سے ملتے ہی آپ کے کسی بیچ میٹ افسر کے کلاس فیلو، محلہ دار اور ذاتی دوست ہونے کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ فنکار سوشل میڈیا پر بھی اپنے کرتب دکھاتے ملتے ہیں۔ آئے روز بڑی بڑی سیاسی شخصیات، اعلیٰ عہدیداران کے ساتھ لی گئی سیلفیاں ان کے پروفائل پیچ پر پورے طمطراق سے نمایاں نظر آتی ہیں جس سے وہ لوگوں کو اپنے تعلقات کی ''گہرائی‘‘ اور ''چوڑائی‘‘ سے مرعوب کرنے کا جتن کرتے ملتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسے فنکاروں کی کمی نہیں۔ ہمارے معاشرے میں طاقتوروں میں سے ہونے کا زعم یا شوق بدرجہ اتم موجود ہے۔ کمزور ہونا یا کمزوروں کا دوست ہونا باعثِ ندامت گردانا جاتا ہے۔ آپ روزانہ کی بنیاد پر ایسی پوسٹ دیکھتے ہوں گے کہ ایک جانب کسی پروفیسر نے گریڈ 19سے 20میں اپنی پروموشن کی خبر اور اس کی تصدیق میں باقاعدہ حکومت کا نوٹیفیکیشن لگا رکھا ہو گا مگر اس پر کمنٹس کرنے والے چند احباب نے محض رسمی کارروائی کی ہو گی جبکہ اس کے مقابلے میں پولیس کانسٹیبل ترقی پا کر حوالدار بننے کی خبر لگا کر اپنے سینکڑوں ''مداحین‘‘ اور احباب سے مبارکبادیں اور داد و تحسین سمیٹ رہا ہو گا ۔پاور پلے کا اس سے مسلمہ مظاہرہ اور معتبر حوالہ نہیں مل سکتا، اور یہی ہمارے اجتماعی سماجی رویوں کی بہترین عکاسی بھی کرتا ہے۔
آئیے! اب ذرا غور کریں کہ یہ جعلسازی، جھوٹی شان و شوکت، ریاکاری اور نقلی بود و باش کے پیچھے کیا محرکات کارفرما ہو سکتے ہیں اور وہ کون سے عوامل ہیں جو مخصوص طرزِ عمل اختیار کرنے پر ان فنکارانہ صلاحیتوں سے مالامال افراد کو یہ سب کچھ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان کرداروں کو ہم تین مختلف اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ سب سے پہلی قسم کے وہ حضرات ہیں جنہیں آپ محض ''معصوم شوقین‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف بڑے سرکاری افسر و عہدیدار اور سیاسی و سماجی شخصیات سے قربت استوار کرنا اور اسے اپنی ذہنی تسکین کا ذریعہ بنانا ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے شاید کہیں نہ کہیں اُن کی اپنی ناکامیاں چھپی ہوتی ہیں جن کے ازالے کے لیے وہ ایسے تعلقات کے بل بوتے پر اپنے اہل وعیال اور سماجی روابط میں اپنا رعب داب ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ تاثر دینے میں لگے رہتے ہیں کہ وہ ''پہنچ‘‘ والے آدمی ہیں اور انہیں کسی طور پر بھی ''ہلکا‘‘ نہ لیا جائے بلکہ عام آدمی کی بجائے انہیں ''خاص ‘‘ سمجھا جائے۔ ایسی معصومانہ خواہش کی تکمیل اور تسکین میں کوئی حرج نہیں اور نہ ہی ایسے لوگ کسی کا نقصان کرتے ہیں بلکہ وہ اپنے من کا رانجھا راضی کرنے کی تگ و دو ہی میں مبتلا رہتے ہیں لہٰذا یہ عمل زیادہ قابلِ اعتراض نہیں ہے۔
دوسری قسم ان حضرات کی ہوتی ہے جنہیں باقاعدہ سیاسی اور سماجی مقام و مرتبہ کی تلاش ہوتی ہے اور ان تعلقات کی بنا پر وہ اپنے قد کاٹھ میں مسلسل اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ان تعلقات کے ذریعے اپنے کاروباری معاملات کو بھی تیزی سے آگے بڑھاتے رہتے ہیں اور اپنے آپ کو جلد ہی معاشی طور پر مستحکم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ وہ لوگوں کے کام کاج سرکاری دفاتر سے کرانے کی کوئی ''فیس‘‘ وصول نہیں کرتے بلکہ اسے ''کارِ خیر‘‘ سمجھ کر ادا کرتے ہیں اور اپنا سیاسی و سماجی مقام و مرتبہ استوار کرنا ان کا صل مقصد ہوتا ہے جسے وہ الیکشن لڑکر یونین کونسل سے لے کر صوبائی و قومی سیاست کے ایوانوں میں داخل ہونے تک منظم انداز سے آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔ عوامی خدمت کی آڑ میں یہ شاطر حضرات اپنی سیاست اور معیشت‘ دونوں کو مستحکم کرتے رہتے ہیں اور اپنے تعلقات کو ہوشیاری سے استعمال کر کے اپنے ''مطلوبہ مقاصد‘‘ حاصل کرنے میں مگن رہتے ہیں۔
تیسری قسم کے حضرات اپنے تعلقات کو ''مجرمانہ سرگرمیوں‘‘ میں بروئے کار لاتے ہیں وہ ان روابط کے ذریعے باقاعدہ ''دھندا‘‘ کرتے ہیں اور سادہ لوح اور ضرورت مندوں سے پیسے بٹورنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ تھانہ کچہری کے معاملات ہوں یا نوکری کا حصول، تبادلہ ، بحالی یا ترقی کا مسئلہ ہو یا بیرونِ ملک بھجوانے کا عمل، ان کے لیے سب کچھ بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ یہ اپنی خوش کلامی سے لوگوں کو شیشے میں اتار کر دراصل لوٹ کھسوٹ کے مکروہ دھندے میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ کبھی کبھار کسی ''بڑے صاحب‘‘ کی عنایت سے کوئی اکا دکا کام کرا کر اس تعلق کو مزید افراد سے رقم ہتھیانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جعلسازی اور جھوٹی شان کے درشن کے رسیا فنکاروں میں سب سے خطرناک یہی افراد ہیں۔ مگر اس سارے عمل میں ایک طبقہ اور بھی ہے جو درحقیقت ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت سے آشنا ہے اور اسے اس چیز کا احساس بھی ہے کہ عام آدمی کی حیثیت سے قدم قدم پر ہزیمت، رسوائی، بے عزتی اور ہر ناکے پر روک کر کاغذات اور ڈرائیونگ لائسنس کے نام پر ''مناسب فیس‘‘ کا مطالبہ کیا جائے گا جسے ادا کرنے کی اس میں مزید سکت نہیں رہی۔ لہٰذا ناکوں اور فاقوں کا درمیانی فاصلے طے کرنے کے لیے اس نے ایک حل یہ نکالا ہے کہ موٹر سائیکل کی بتی پر ''ایس ایچ او کا مالی‘‘ لکھوا کر اپنی رہی سہی عزت بچالی جائے اور جیب میں موجود چند سکے بھی۔