تقریباً دو دہائیوں سے زائد عرصہ پاکستان کی سول سروس سے وابستہ مختلف ذمہ داریاں نبھائیں، کئی محکموں میں خدمات سر انجام دیں اور سرکاری دفاتر کے اوقاتِ کار میں پبلک ڈیلنگ کے بے شمار تجربات حاصل کئے۔ وطنِ عزیز پاکستان میں دفتر ی اوقاتِ کار کا ایک بہت بڑا حصہ ملاقاتی حضرات سے میل جول میں صرف ہو جاتا ہے۔ کسی بھی محکمہ سے متعلق معاملہ ہو‘ جب تک سائل اپنی فائل کے تعاقب میں متعدد بار متعلقہ محکمے کی راہداریوں کا ''طواف‘‘ مکمل نہ کر لے اس کے کام ہونے یا مسئلہ حل ہونے کے امکانات بہت قلیل ہوا کرتے ہیں۔ لوگوں کو اپنے جائز معاملات میں بھی کئی طرح کی دشواریاں پیش آتی ہیں اور انہیں اپنا حق ثابت کرنے اور پھر اس کے حصول کو یقینی بنانے میں بے پناہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بسا اوقات اس میں ایک سے زیادہ نسلیں کھپ جاتی ہیں مگر پھر بھی انہیں اُن کا حق ملتا ہے اور نہ ہی نقصان کا ازالہ ممکن ہو پاتا ہے جو اس دوران ہو چکا ہوتا ہے۔ لہٰذا ان حالات میں ہر شخص سرکاری دفاتر کے چکر کاٹتا نظر آتا ہے۔ ہر چکر کی ''فیس‘‘ الگ سے ادا کرنا پڑتی ہے اور ہر جگہ معاملات کو سلجھانے والے سہولت کار بہ آسانی دستیاب ہو جاتے ہیں جو اپنی ''مناسب فیس‘‘ کا تعین کر کے مطلوبہ مقاصد یا نتائج کی یقین دہانی کرا دیتے ہیں۔ بیشتر مواقع پر یہ افراد بھی فراڈ کرتے ہیں اور ''فیس‘‘ لینے اور سادہ لوح اور ضرورت مندوں سے رقم بٹورنے کے باوجود حسبِ وعدہ کام نہیں کرا پاتے۔ اسی اضطراب اور بے چینی میں سائلین طرح طرح کی سفارشوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں، کہیں سے ٹیلیفون کراتے ہیں اور کہیں سے چٹھی لکھوا کر متعلقہ افسر سے ملاقات کرنے پہنچ جاتے ہیں۔
دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افسران کے قریبی عزیز، رشتہ دار، اہلِ علاقہ، کلاس فیلوز اور ذاتی جان پہچان والوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو ہمہ وقت افسرِ متعلقہ سے ملاقات کا سلسلہ جاری رکھتا ہے۔ اکثر ضرورت مند غریب ہونے کے باوجود قیمتی گاڑی کرائے پر حاصل کر کے گائوں کے ''چودھری صاحب‘‘ یا متعلقہ افسر کے کسی قریبی رشتہ دار بزرگ کو منت سماجت کر کے گاڑی میں بٹھا کر اس افسر تک لے آتے ہیں جہاں ان کا کام رکاوٹوں کی نذر ہو چکا ہوتا ہے۔ بات صرف جائز کام تک نہیں رکتی‘ زیادہ تر سفارشی حضرات کی آمد کا مقصد ناجائز کام کرانا ہوتا ہے اور سائلین ان سفارشی شخصیات کی موجودگی میں دیدہ دلیری سے یہ بات کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ''اگر جائز کام ہوتا تو پھر ان سفارشوں کی ضرورت ہی کیا تھی‘‘۔ اسی جذباتی گفتگو میں سفارشی بزرگان بھی جلال میں آ جاتے ہیں اور اپنے عزیز افسر سے ہر حال میں وہ کام کرانا اپنے لیے عزت اور بے عزتی کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ اب ایک طرف میرٹ اور قانونی پیچیدگیاں ہوتی ہیں تو دوسری طرف اپنے خاندان، گائوں یا برادری کے اس بزرگ کا دھمکی آمیز لب و لہجہ‘ جو اس افسر یا سرکاری اہلکار کے لیے زمین تنگ کر رہا ہوتا ہے۔ اگر وہ افسر کام کر دے تو وہی فائل اس کا پیچھا کرے گی، اس کا آڈٹ ہو گا اور اسی دفتر میں موجود مخالف لابی اس فائل کو اس کے خلاف استعمال میں لا کر اس کی نوکری اجیرن بنانے میں کوئی کسر باقی نہ اٹھا رکھے گی۔ اگر اس محکمہ کی یونین بھی درمیان میں کود پڑے تو وہ اسے بلیک میلنگ کے لیے ایک ہتھیار بنائے گی۔
دوسری طرف اگر وہ متعلقہ سرکاری افسر میرٹ اور قانون کی پاسداری کرے اور اپنے بیچ میٹ، دوست، رشتہ دار اور خاندان کے بزرگ کا لحاظ خاطر میں نہ لائے تو اس کا معاشرتی بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے۔ پورے علاقے اور برادری میں اس کا جینا حرام کر دیا جاتا ہے۔ اسے نکما، بزدل اور کمزور افسر کے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ اسے لوگ شادی بیاہ پر بلانا چھوڑ دیتے ہیں اور پورے علاقے میں اس کا سماجی مقاطعہ کر دیا جاتا ہے جو ذہنی طور پر اس پردبائو بڑھانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
میرے ذاتی مشاہدے میں ایسی اَن گنت کہانیاں موجود ہیں جہاں میرٹ کا بول بالا کرنے والے افسران کے لیے نامناسب کلمات سے لے کر‘ دروغ گوئی، طعنہ زنی، غیبت اور مغلظات پر مبنی غیر اخلاقی زبان کا استعمال کیا گیا، جبکہ دوسری طرف ان افسران کے لیے تعریفی و توصیفی کلمات پر مشتمل لچھے دار گفتگو اور قصیدہ گوئی ہوتی ہے جو ہر جائز و ناجائز کام بلاعذر کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ یہ افراد اپنے علاقے سے آنے والے دوست احبات اور عزیز رشتہ داروں کے قیام و طعام کا بندوبست بھی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ اپنے دفتر میں آنے والے ملاقاتی حضرات کی خوب خاطر مدارت کرتے ہیں اور پھر ان کے مسائل کے حل میں تمام جائز و ناجائز ذرائع استعمال عمل میں لاتے ہیں اور ان سفارشی حضرات کی خوشنودی کو یقینی بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس قسم کے افسر کو دفتری اصطلاح میں ''ہیرا افسر‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ ہمارے معاشرتی ڈھانچے اور سماجی اقدار کی ایک حقیقت پسندانہ تصویر ہے جس میں ہمارے سرکاری افسران، اہلکاران اور ملازمین دن رات کھٹن ''آزمائشوں‘‘ سے گزر کر کبھی نوکری دائو پر لگا کر اپنے عزیز و اقارب کو بچانا مقدم سمجھتے ہیں تو کبھی سماجی روابط کی زنجیرتوڑ کر ناجائز کام کرنے سے یکسر معذرت کو فوقیت دینا اپنے لیے اہم سمجھتے ہیں اور یوں خود کو اپنے سماجی حلقوں میں 'نکما افسر‘ قرار دیے جانے کا خود اہتمام کر لیتے ہیں۔
گزشتہ ماہ اسی تناظر میں مجھے پاکستان سے ایک دوست نے فون کر کے مشاورت طلب کی اور اپنی دکھ بھری داستان میرے سامنے رکھی۔ اس نے مجھے بڑے دلگیر لہجے میں بتایا کہ اس کے سگے ماموں اس کے پاس دو دنوں سے ایک ایسے کام کے سلسلے میں رہائش پذیر ہیں جو صریحاً خلافِ قانون ہے اور جس سے ایسے کئی لوگوں کی حق تلفی ہو سکتی ہے‘ جو اس غیر قانونی فیصلے کی زد میں آ سکتے ہیں۔ اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے میرے دوست نے یہ بھی بتایا کہ ماموں جان اس کے سسر بھی ہیں اور انہوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر یہ کام نہ ہوا تو وہ اپنی بیٹی کو خلع دلانے سے بھی باز نہیں آئیں گے۔ ان کی اس اَنا اور ضد کے پیچھے ایک ہی امر کارفرما تھا کہ اگر وہ کام کرائے بغیر واپس گئے تو اپنے علاقے والوں کو کیا منہ دکھائیں گے۔ یہ امر اپنی جگہ درست کہ ان ماموں ہی نے والد کے انتقال کے بعد میرے دوست کی تعلیم مکمل کرائی، اس پر پیسہ خرچ کیا، سی ایس ایس کے امتحان میں سرخرو ہونے تک اس کی مکمل سرپرستی اور ہر طرح سے معاونت کی۔ پھر اپنی بیٹی سے شادی کر کے اُسے اپنا داماد بھی بنا لیا اور جہیز میں لاہور میں قیمتی گھر اور قیمتی گاڑی بھی تحفے میں دی۔
اس ساری کہانی کے بیشتر حصے کا چونکہ میں چشم دید گواہ ہوں اس لیے میرے دوست نے مجھے کال کر کے مشورہ کرنا ضروری سمجھا کہ میں اسے اس ذہنی الجھن سے نکلنے میں راہ نمائی فراہم کروں۔ میں نے جب اپنے دوست کی ساری دکھ بھری داستان سنی تو اس سے یہ دریافت کیا کہ اگر ماموں جان واقعی طلاق کا فیصلہ کر بیٹھے ہیں تو اس کی اہلیہ کیا اپنے باپ کے اس فیصلے کی تائید کریں گی یا عقلمندی کا مظاہرہ کر کے آپ کے ساتھ ہی رہنا پسند کریں گی؟ اُسے پورا یقین تھا کہ اس کی اہلیہ ایک باشعور خاتون ہے اور ایسی ناجائز فرمائشی طلاق کے مطالبے کو ہرگز قبول نہیں کرے گی۔ اس پر میں نے اپنے دوست کی ہمت بندھائی اور مشورہ دیا کہ وہ اپنے ماموں جان کے تمام احسانات کا بدلہ چکانے کے لیے وہ صریحاً ناجائز کام کرنے کے بجائے اُن کے پائوں پکڑ کر معافی مانگ لے اور اس معافی میں اپنی اہلیہ کو بھی شامل کر لے‘ یہ سونے پہ سہاگا ہوگا۔ یہ سن کر میرے دوست کی جان میں جان آ گئی اور اس نے اپنے ماموں جان کو صاف انکار کر کے خود کو ایک 'نکما افسر‘ کہلوانا پسند کر لیا اور ناجائز کام کر کے ''ہیرا افسر‘‘ بننے کے آپشن کو مسترد کر دیا؛ البتہ اس قربانی میں اس نے اپنے ماموں جان کی عمر بھی کی ناراضی ضرور مول لے لی۔