افسران میں خودکشی کا رجحان کیوں؟ …(2)

بلال پاشا کی اندوہناک اور جواں عمری کی موت نے جہاں اس کے بوڑھے باپ، بدقسمت خاندان، سینکڑوں ذاتی دوست، احباب اور کورس میٹس کے علاوہ ہزاروں مداحین کو گہرے صدمے سے دو چار کیا ہے‘ وہاں سول سروس کے دشوار گزار عمل سے منتخب ہونے والے افسران کی ذاتی زندگی، پیشہ ورانہ استعدادِ کار، قوتِ فیصلہ، ذہنی و نفسیاتی خلفشار اور جذباتی انتشار سے متعلق کئی سنجیدہ سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔ گزشتہ دس دِنوں سے سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بھرپور بحث جاری ہے اور شاید کافی عرصہ تک اس ضمن میں نت نئے مفروضے پیش کرنے کا عمل جاری رہے۔ قبل اس کے کہ اس موضوع پر مزید بات کی جائے‘ لازم یہ ہے کہ چند بنیادی نکات کی وضاحت کر دی جائے اور پھر ٹھوس دلائل کے ساتھ گفتگو کو آگے بڑھایا جائے۔ سب سے پہلے اس بات پر متفق ہونا ضروری ہے کہ سول بیورو کریسی سے وابستہ خواتین و حضرات بھی دوسرے عام انسانوں کی طرح گوشت پوست سے بنے ہیں، وہ بھی احساسات و جذبات رکھتے ہیں، خوشی، غمی،محبت، نفرت، غصہ، حسد، پیار، ایثار، اخلاص، مہرووفا، صبر و رضا اور صدق و صفا کے اوصاف کے ساتھ ساتھ بشری کمزوریوں کے سب رنگوں سے بھی وہ واقف ہوتے ہیں۔ دوسری اہم بات جس کا ادراک کرنا ضروری ہے‘ وہ یہ کہ بظاہر پروٹوکول، سرکاری جاہ و حشم، مقام و مرتبہ اور رعب و دبدبہ کے پردوں میں لپٹے ہوئے یہ لوگ اندرونی طور پر مختلف مزاج، طبیعت اور عادات کے حامل ہوتے ہیں اور ہر شخص افسر ہونے کے باوجود بطور انسان اپنی مخصوص فطرت اور منفرد شخصیت کا مالک ہوتا ہے اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔ تیسرا اہم نکتہ جس کا ادراک بہت ضروری ہے‘ وہ یہ کہ کیا دنیاوی مقام و مرتبہ، سرکاری شان و شوکت، مال و دولت، شہرت، اور اختیارات حقیقی ذہنی سکون اور روحانی بالیدگی کی ضمانت نہیں دے سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں! اس بے پایاں نعمت کا تعلق کسی اور چیز میں مضمر ہے۔
اب ان نکات پر یکسوئی سے سوچنے کے بعد ان عوامل کی طرف آگے بڑھتے ہیں جو سرکاری افسران کے مخصوص حالات و واقعات اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی سے جڑے ہیں اور جنہیں سمجھنا ضروری ہے۔ سب سے اولین امر یہ جاننا لازم ہے کہ سول سروس کا انتخاب کرنے والے نوجوان عمومی طور پر زیادہ حساس، سوچ بچار کرنے والے، معاملات کی تہہ تک کا کھوج لگانے والے، عقلی دلائل سے منطقی نتائج اخذ کرنے والے اور کارِ جہاں میں پھیلی چہار سو ناہمواریوں پر مسلسل غور و فکر کرنے والی طبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔ اپنی اس فطری صلاحیت کے بل بوتے پر وہ زمانہ طالب علمی ہی سے معاشرے میں پائی جانے والی نا امیدی، بے بسی، بے کسی اور بد دلی کی خزاں رُت میں سنہرے خوابوں کے نگر میں امید و آرزو کا اک حسین جہاں آباد کر لیتے ہیں اور پھر ہر اندھیری سیاہ رات کی کوکھ سے اپنی اس تصوراتی دنیا میں چراغاں کرنے کے لیے اک نیا سورج تراش لاتے ہیں۔ وہ حالات سے سمجھوتا نہیں کرتے، وہ لڑتے ہیں، محنت کرتے ہیں اور بظاہر ناممکنات سے امکانات کے پہلو روشن کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا اس امتحان کے تمام مراحل سے لے کر پیشہ ورانہ تربیت اور عملی زندگی میں ذمہ داریوں کی انجام دہی تک وہ ہمہ وقت کٹھن حالات اور حوصلہ شکن مسائل سے نبردآزما رہتے ہیں۔ دورانِ تعلیم جہاں عام طلبہ و طالبات دن میں دو‘ چار گھنٹے پڑھ کر گزارا کر لیتے ہیں، سول سروس کے امتحان کے لیے بارہ سے چودہ گھنٹے تک روزانہ پڑھنا لازم ٹھہرتا ہے۔ اسی طرح بہت سے سرکاری دفاتر میں صرف صبح سویرے پہنچنے کا وقت مقرر ہوتا ہے جبکہ واپسی کا کوئی وقت نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ بہت سے سرکاری امور میں اور دورانِ ملازمت بے پناہ دبائو کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جن میں بسا اوقات طاقتور حلقے ایسے احکامات کی بجا آوری کو یقینی بنانا چاہتے ہیں جو خلافِ قانون و قواعد ہونے کے سبب ممکن نہیں مگر دوسری طرف سے دبائو بدستور برقرار رہتا ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
اس کے علاوہ دو اور عوامل ہیں جو سول سروس سے جڑے افراد کی ذاتی زندگی اور جذباتی ٹھہرائو کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ ایک تو اپنے خوابوں کی تعبیر میں یہ چنیدہ افراد اتنی دور نکل جاتے ہیں کہ ان کے بچپن کے دوست، ہم جماعت، یونیورسٹی اور خاندان کے ہم عمر احباب‘ سب سے کٹ کر رہ جاتے ہیں، ان سے دور ہو جاتے ہیں اور شاید کہیں نہ کہیں وہ کسی احساسِ کمتری کے سبب ان افسرانِ بالا سے اپنا تعلق برقرار نہیں رکھ سکتے اور نہ ہی ان ''افسرانِ بالا‘‘ کی اکثریت اس دیرینہ تعلق کو مزید آگے بڑھانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ سول سروس کا حصہ بننے کے ساتھ ہی ان کی ''کلاس‘‘ بدل جاتی ہے۔ عام سے خاندانی پسِ منظر اور بظاہر ایک سٹوڈنٹ لائف سے اچانک ''ایلیٹ کلاس‘‘ کارکن بننے پر یہ افسران خود کو ایک جہانِ حیرت میں گم پاتے ہیں جہاں ہر طرف پروٹوکول، بے پناہ اہمیت، بے شمار عزت اور ہر طرح کی سہولتیں ان کی زندگی میں آسودہ حالی لے آتی ہیں اور اکثر و بیشتر حضرات و خواتین اس مصنوعی روشنی میں آنکھیں چندھیا جانے کے سبب اپنے اردگرد منڈلانے والے مفاد پرستوں کے ایک غول میں شامل دوستی کا دعویٰ کرنے والے نام نہاد احباب کی اصلیت کو پہچان ہی نہیں پاتے بلکہ اپنے اصلی اور نسلی دوستوں کو پسِ پشت ڈال کر ان کی جگہ ان فصلی بٹیروں کو دے دیتے ہیں جو صرف اچھی پوسٹنگ اور اس سے وابستہ اختیارات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور جن سے مکمل استفادہ کرنے کے لیے وہ ان افسرانِ بالا کی ہر جائز و ناجائز خواہش پوری کرنا اپنے لیے فرض سمجھتے ہیں۔ اسی دوران کئی حضرات و خواتین اپنی کچھ ایسی کمزوریاں بھی عیاں کر بیٹھتے ہیں جنہیں یہ مفاد پرست عناصر بعد میں بلیک میلنگ کا ہتھیار بنا کر استعمال کرتے ہیں اور حساس طبیعت کے مالک ان افسران کو ذہنی اور نفسیاتی‘ ہر دو طرح کی کڑی آزمائشوں سے دو چار کرتے ہیں۔ مگر اس سارے عمل میں سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ یہ اپنے خالص دوستوں اور احباب سے میلوں دور‘ذاتی زندگی میں اکثر تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بہت سے ایسے مسائل اور معاملات کو بھی یہ محض اپنی ذات تک محدود کر لیتے ہیں جن کو مخلص اور سچے دوستوں کی مشاورت سے کافی حد تک یا تو سلجھایا جا سکتا ہے یا کم از کم وقتی طور پر دل ہلکا کیا جا سکتاہے۔
اسی طرح بہت سے افسران کی ذاتی زندگی ایسی شادیوں کی نذر ہو جاتی ہے جو سول سروس کی چکا چوند اور چمک کے باعث کی جاتی ہیں اور جن میں مرکزی مقام صرف ظاہر ی نمودو نمائش اور مال و دولت یا مقام و مرتبہ کا ہوتا ہے۔ لڑکی کے والدین اپنی مالی، سماجی اور معاشی طاقت کے مقابلے میں لڑکے کی سرکاری حیثیت کا سودا کرتے ہیں تو لڑکے کے والدین بھی اپنی پشتوں کی معاشی بدحالی کا خاتمہ ایسے خاندان سے رشتہ داری کے ذریعے کرنا چاہتے ہیں جہاں مال و دولت کی ریل پیل ہواور جہیز میں افسر بیٹے کو شاندار بنگلہ، بڑی گاڑی اور دیگر مالی آسودگیوں سے نوازا جائے تا کہ وہ ایلیٹ کلاس کے سوشل کلب کے جملہ تقاضوں کو بطریقِ احسن پورا کر سکے۔ یہ محض مفادات کی شادی ہوتی ہے نہ کہ دوایسے افراد کی شادی‘ جو ذہنی ہم آہنگی اور باہمی احترام کی مضبوط ڈوروں میں بندھے ہوں۔ یہ امر اس ساری کہانی کا ایک تلخ پہلو ہے۔ سول سروس کا خواب سجائے غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل یہ نوجوان اپنی خودی، خودداری اور خود اعتمادی کو اپنی طاقت بنا کر جب ایک نیا جہان آباد کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ کامیابی ان کی پیشہ ورانہ زندگی میں آنے والے حوصلہ شکن کڑے امتحانات اور ذاتی زندگی میں پیش آنے والی بہت سی ذہنی اور نفسیاتی الجھنوں کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہے اور کچھ بدقسمت اور تنہائی کے شکار افراد اپنے ہاتھوں سے ریت کے اس گھروندے کو گرانے کا فیصلہ کر لیتے ہیں جسے انہوں نے برسوں کی محنت اور بڑے شوق و ذوق سے تعمیر کیا تھا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں