بلاشبہ دنیا بھر میں پھیلے پاکستانی تارکینِ وطن ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں۔ گزشتہ سات دہائیوں میں انہوں نے اپنا خون پسینہ ایک کر کے نہ صرف مختلف ممالک میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے بلکہ ہمیشہ اپنا پیٹ کاٹ کر اپنی کمائی کا ایک بڑا حصہ وطنِ عزیز بھجواتے رہے ہیں جس سے پاکستانی زرِمبادلہ کے ذخائر میں کافی حد تک استحکام رہا ہے۔ یہ انہی جفاکش، محنتی اور خداداد صلاحیتوں سے مالامال پاکستانیوں کی شبانہ روز کاوشوں کا ثمر ہے کہ زرِ مبادلہ کی ترسیلات وصول کرنے والے ممالک کی فہرست میں بھارت، چین، میکسیکو اور فلپائن کے بعد پاکستان کا پانچواں نمبر ہے۔ یہ انہی نوے لاکھ پاکستانیوں کی اپنے وطن سے بے پناہ اور بے لوث محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ ہر سال تقریباً اٹھائیس سے تیس ارب ڈالر پاکستان بھجواتے ہیں جس سے نہ صرف پاکستانی معیشت کا پہیہ چلتا ہے بلکہ پاکستانی برآمدات کے مسلسل سکڑتے حجم کی بدولت زرِ مبادلہ پر بڑھنے والے دبائو میں خاطر خواہ کمی لانے کا راستہ بھی ہموار ہوتا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے بعد برطانیہ میں مقیم لگ بھگ سولہ لاکھ پاکستانی وطنِ عزیز میں ترسیلاتِ زر بھجوانے میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ لندن، مانچسٹر، بریڈ فورڈ اور برمنگھم میں پاکستانیوں اور کشمیری بھائیوں کی کثیر تعداد آباد ہے جس کا آغاز 1960ء کی دہائی میں اس وقت ہوا جب منگلا ڈیم کی تعمیر کے پیشِ نظر میر پور اور اس کے ملحقہ علاقوں کے متاثرہ افراد کے لیے صدر ایوب خان کی خصوصی کاوشوں سے ملکہ برطانیہ نے افرادی قوت کی پاکستان سے آسان منتقلی کو یقینی بنایا اور اس طرح پاکستانیوں کے لیے برطانیہ کے دروازے کھول دیے گئے۔ پیسے کی ریل پیل اور تعمیر و ترقی دیکھ کر میرپور کی ہمسایہ اضلاع‘ جن میں جہلم، گجرات، منڈی بہاء الدین وغیرہ شامل ہیں‘ کے لوگوں نے بھی برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک میں منتقلی کو ترجیح دی اور یوں یہ سلسلہ گوجرانوالہ، سیالکوٹ، فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لے کر بہاولنگر تک پھیل گیا۔ دوسری طرف جہلم کے قریبی اضلاع‘ جن میں راولپنڈی، چکوال، اٹک وغیرہ شامل ہیں‘ کو غیر ملکی کرنسی کی طلسماتی طاقت سے روشناس کروایا تو پھر اٹک سے نوشہرہ، صوابی، مردان اور پشاور تک یہ سلسلہ دراز ہونے لگا۔ اس طرح اب برطانیہ میں پاکستان بھر سے کم و بیش سولہ لاکھ افراد آباد ہیں اور یہاں زندگی کے مختلف شعبوں میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔
برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی وطنِ عزیز سے محبت کو میں نے گزشتہ دو دہائیوں میں بہت قریب سے دیکھا ہے۔ 2004ئمیں میری پوسٹنگ گجرات میں ہوئی تو ضلعی حکومت میں آئے روز بیرونِ ملک مقیم پاکستانی درپیش معاملات کے سلسلے میں مجھے دفتر ملنے آتے‘ جن میں کثیر تعداد برطانوی پاکستانیوں کی ہوتی تھی بلکہ ضلعی اسمبلی میں سب سے متحرک یونین کونسل ناظم نصیر زمان‘ جسے ہر وقت اپنے لوگوں کے مسائل کے حل کی فکر ضلعی دفاتر میں لے آتی‘ برطانیہ میں اپنے کامیاب کاروبار کی قربانی دے کر اپنی مٹی سے وفا کرنے پاکستان پہنچا تھا اور الیکشن لڑ کر یونین کونسل کا ناظم منتخب ہوا تھا۔ میں نے نصیر زمان کے ساتھ مل کر لنکا شائر کائونٹی کونسل اور ضلع گجرات کے درمیان اشتراکِ عمل کا منصوبہ آگے بڑھایا۔ وفود کا تبادلہ ہوا اور یوں یونیورسٹی آف گجرات اور یونیورسٹی آف سینٹرل لنکا شائر کے درمیان مفاہمتی یادداشتوں کا تبادلہ ہوا اور ایک دیر پا باہمی تعاون اور اشتراک پر مبنی دو طرفہ تعلقات کی داغ بیل پڑی جو آج تک کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس سلسلے میں میرا جب بھی برطانیہ آنا ہوتا تو سرکاری اخراجات کے بجائے یہاں کے انتظامات کی جملہ ذمہ داریاں نصیر زمان اور برنلے سے لارڈ واجد خان‘ جو اس وقت اسی یونیورسٹی میں تدریسی امور سے منسلک تھے‘ اپنے ذمہ لے لیا کرتے تھے۔ ان دونوں نے میری برٹش پاکستانیوں کی وطنِ عزیز سے پُر خلوص محبت اور اپنی مٹی سے وفا کے جذبات پر یقین کو پختہ بنایا جس میں آئے روز مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔
گزشتہ ماہ ہماری جان سے پیاری والدہ ماجدہ راہِ عدم کی مسافر ٹھہریں تو ان کی روح کے ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت کے لیے اولڈم کے یورپین اسلامک سنٹر کے روحِ رواں اور قابلِ احترام مولانا محمد اقبال نے ایک روح پرور محفل کا اہتمام کیا جس میں برادرم رضوان مختار نے انتظامی معاملات خود دیکھنے پر اصرار کیا۔ ہمدمِ دیرینہ چودھری عبد الغفور اور نجف محمود کے خاندان کے جملہ افراد نے اس دعائیہ تقریب میں شرکت کی۔ بھائیوں جیسے لارڈ واجد خان سمیت برطانیہ بھر سے لگ بھگ ڈیڑھ سو کے قریب دوست احباب موسم کی شدت کے باوجود اس تقریب میں شریک ہوئے اور غم کی اس کڑی آزمائش میں میرے ساتھ رہے، میر احوصلہ بڑھایا، قرآن خوانی کی اور والدہ مرحومہ مغفورہ کے لیے پورے خشوع و خضوع کے ساتھ اجتماعی دعا کی۔ خیر سگالی کا یہ انمول جذبہ یقینا پاکستانی برٹش کمیونٹی میں پائے جانے والے اس احساس کی غمازی کرتا ہے جو ہمیں دیارِ غیر میں ہونے کے باوجود اپنے پاکستانی تشخص پر نازاں رکھتا ہے اور وطنِ عزیز کی عزت و وقار کا علمبر دار بھی۔
مجھے پی ایچ ڈی کے لیے مسلسل قیام کرتے ہوئے یہاں تقریباً سوا سال ہو چکا ہے اور آئے روز مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں خدمات انجام دینے اور پاکستان کا نام فخر سے بلند کرنے والی کئی قد آور شخصیات سے ملاقات کے مواقع ملتے رہتے ہیں اور میں محوِ حیرت ہو جاتا ہوں کہ کس طرح ہمارے ان قابلِ قدر اور قابلِ فخر ہم وطنوں نے یہاں وطنِ عزیز کی بے لوث خدمت کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے۔ گزشتہ دنوں مجھے برمنگھم میں پاکستانی کمیونٹی کی سب سے توانا آواز اور سحر انگیز شخصیت کے مالک راجہ اشتیاق اور ان کے دیگر احباب سے نشست کا موقع ملا جس میں انہوں نے قائداعظم ٹرسٹ کے اغراض و مقاصد کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا کہ کس طرح وہ 1989ء سے اس پلیٹ فارم کو ایک تحریک کی شکل دے چکے ہیں جس کا واحد مقصد وطنِ عزیز پاکستان کی سا لمیت، سلامتی، خوشحالی اور اقوامِ عالم میں سربلندی کو یقینی بنانا ہے۔ اس تنظیم کے بانی خود راجہ صاحب ہیں‘ جس کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ اس کے فعال اور متحرک اراکین کا تعلق پاکستان کے چاروں صوبوں کے علاوہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے ہے اور یوں اس میں پاکستان کی تمام علاقائی اور صوبائی اکا ئیوں کی نمائندگی موجود ہے۔ یہ مکمل طور پر غیر سیاسی اور مذہبی منافرت سے پاک پلیٹ فارم ہے جو پاکستان میں کئی فلاحی منصوبوں پر کام کر رہا ہے جس کے لیے یہ کسی بھی قسم کی سرکاری یا انفرادی ڈونیشن یا امداد کے طلبگار نہیں بلکہ یہ قابلِ فخر پاکستانی اپنی ذاتی کمائی میں سے حصہ نکال کر رقم جمع کرتے ہیں اور پاکستان میں ضرورت مندوں کی بے لوث مدد کرنا اپنے لیے سعادت گردانتے ہیں۔ حال ہی میں قائد اعظم ٹرسٹ کا ایک وفد پاکستان میں کم و بیش اسی لاکھ کا امدادی سامان چیئر مین سینیٹ کے توسط سے چاغی میں اور گورنر پنجاب کے زیرِ نگرانی بہاولپور میں عطیہ کر کے آیا ہے۔ یہی ٹرسٹ گوجر خان میں ''تعلیم سب کے لیے‘‘ یقینی بنانے کا عزم لیے لگ بھگ دو دہائیوں سے مقامی نوجوانوں کو مفت تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہا ہے۔ قائد اعظم ٹرسٹ کو اس طرح متحرک رکھنے میں راجہ صاحب کو جن مخلص اور بے لوث پاکستانیوں کی ہمہ وقت دستیابی میسر رہتی ہے ان میں میں بیرسٹر شاہد کریم، ڈاکٹر فاروق خان، چودھری شاکر حسین اور بیرسٹر عمر بنیامین کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
قائد اعظم ٹرسٹ کی یہ قابلِ ستائش اور اخلاص سے سرشار خدمات کو دیکھ کر میرا یقین مزید پختہ ہوا ہے کہ کئی عشروں پہلے پاکستان سے نکلے ہوئے برٹش پاکستانیوں کے اندر سے پاکستان نہیں نکل پایا۔ تین نسلوں سے یہاں آباد پاکستانیوں کے دھیان میں ہر لمحہ پاکستان ہی رہتا ہے کیونکہ اتنے لمبے عرصہ سے گوروں کے دیس میں رہنے کے باوجود ان سب کا دل ہے پھر بھی پاکستانی۔