ربِ کریم نے قرآنِ حکیم میں ارشاد فرمارکھا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو دکھ، تکالیف اور ابتلا میں مبتلا کر کے آزماتا ہے، کڑے امتحانات سے گزار کر قربِ الٰہی کی نعمتِ بے پایاں سے سرفراز فرماتا ہے، مشکل اوقات میں صبر و رضا کا دامن نہ چھوڑنے والوں اور شکر بجا لانے والوں کو اپنے غیب کے خزانوں سے مالامال کر دیتا ہے۔ وہ مسندِ توقیر اُن کے نصیب میں لکھ کر انہیں دونوں جہانوں میں کامیابیوں سے ایسے نوازتا ہے کہ خود انسان ورطۂ حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہم بطور انسان ربِ ذو الجلال کی آزمائشوں کے مقابلے میں بہت نحیف‘ بے بس اور بے کس ہیں۔ اسی لیے ہم مسلسل ربِ کائنات سے اس کا فضل اور رحمت ہی طلب کرتے ہیں۔ مگر یہ حقیقت اپنی جگہ کہ جنہیں ربِ کائنات نے قربِ الٰہی اور خوشنودیِ خالق کے انعام و اکرام سے فیضیاب کرنا ہو‘ انہیں وہ سخت ترین ابتلائوں سے آزماتا ہے تاکہ پتا چلے کہ اس کے بندے مشکلات، درد و آلام اور اپنے پیاروں کے چھن جانے پر صبر و رضا اور شکرِ خدا کی عملی تصویر بن پاتے ہیں یا نہیں؟ یہی وہ لطیف نکتہ‘ وہ حساس مقام اور کڑا امتحان ہے کہ جو یہاں سے کامیابی سے گزر گیا وہ ربِ دو جہاں کے مقرب بندوں میں شمار کر لیا جاتا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہماری والدہ ماجدہ کا شمار بھی خدا کے کرم یافتہ بندوں میں کرنے کیلئے انہیں بہت بڑی آزمائشوں میں مبتلا کیا گیا۔ وہ محض پینتیس برس کی عمر میں بیوہ ہو گئیں اور ان کے سات بیٹوں کو اپنے عظیم باپ کے سایہ عاطفت سے محروم ہونا پڑا۔ ایک بیوہ عورت اور اُس کے سات یتیم بچوں سے کمزور، بے آسرا اور بے نوا بھلا اور کون ہو سکتا ہے؟ یہ یقینا بہت کڑا امتحان اور سخت آزمائش تھی مگر ہماری والدہ نے اپنے مرحوم شوہر کی جدائی کے صدمات کے گوہِ گراں کے سامنے پسپائی اختیار کرنے کے بجائے دلیری سے مقابلہ کرنے کا عزمِ صمیم کیا اور پھر مشکلات کے اَن گنت سلسلوں میں راضی برضائے خدا رہنے کو ترجیح دی، صبر و رضا کا دامن نہ چھوڑا اور ہمیشہ عبادت و ریاضت میں خود کو مصروف رکھا۔ ذکرِ الٰہی اور عشقِ مصطفیﷺ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ نمازِ پنجگانہ کی پابندی اور روزانہ تلاوتِ قرآن مجید کے علاوہ تہجد ان کے معمولات اور عبادات کا جزوِ لاینفک رہی۔دعائوں پر مشتمل کتابچے اُن کے قرآنِ مجید کے پاس رہتے جنہیں وہ باقاعدگی سے تلاوتِ قرآنِ کریم کے ساتھ اپنے ورد کا حصہ بناتیں۔ ہم نے انہیں ہمہ وقت ربِ کریم کی عبادات میں مشغول پایا۔ ہمارے زمانہ طالب علمی اور بعدازاں پیشہ ورانہ زندگی سے جڑے کٹھن مراحل میں کئی بار ان کی دعائوں کے سبب ہم نے بلائوں کو ٹلتے دیکھا۔ انہوں نے جب بھی اپنے لیے‘ ہمارے یا پھر ہمارے بچوں کیلئے جو کچھ مانگا‘ ربِ کریم نے اپنے غیب کے خزانوں سے ہمیشہ انہیں عطا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ یتیمی کے ان سینتیس سالوں سے ہم ہمیشہ ربِ کریم کے انعام و اکرام میں گھرے رہے اور ہمہ وقت خالقِ دو جہاں کے فضل و کرم کے حصار میں خود کو محفوظ پایا۔
نومبر2004ء میں انہیں گردوں کا عارضہ لاحق ہوا اور دونوں گردے ناکارہ ہو گئے۔ ٹرانسپلانٹ کرایا تو وہ گردہ بھی ناکام ہو گیا اور اس میں انفیکشن بڑھنے لگا، دوبارہ پیچیدہ آپریشن کی اذیت جھیلنا پڑی اور سرجری کے ذریعے نیا گردہ بھی نکالنا پڑا، یوں ایک بار پھر ڈائیلیسز کے تکلیف دہ عمل کا آغاز ہوا۔ وہ ربِ کریم سے ہمیشہ اپنے لیے صحت والی زندگی کی دعا مانگتی رہتیں۔ ہم نے ڈاکٹروں سے عمرہ کی ادائیگی کی اجازت طلب کی جسے انہوں نے یکسر رد بلکہ سختی سے منع کر دیا کہ ہر تیسرے روز ہونے والے ڈائیلیسز کے سبب نقاہت اور ہوائی سفر خطرات سے خالی نہ تھا۔ مگر میں نے امی جان کی سرکارِ مدینہﷺ سے والہانہ محبت کو اُن کے سامنے اُن کی کمزوری بنا کر ایسے پیش کیا کہ اگر مرنا ہی ہے تو پھر ڈائیلیسز کی مشین پہ مرنے کے بجائے شہرِ مصطفی میں جا کر مرا جائے تاکہ جنت البقیع کی مٹی نصیب ہو سکے کہ جہاں دفن ہونے والوں کے لیے شفاعتِ مصطفی کی بشارت ہے۔ میری اس دلیل پر والدہ ماجدہ نے فوراً آمادگی کا اظہار کر دیا اور ڈاکٹروں کی سخت ممانعت کے باوجود عمرہ کی سعادت کیلئے تیار ہو گئیں۔ میں نے وقت ضائع کیے بغیر جملہ انتظامات کو حتمی شکل دی‘ جن میں مکہ مکرمہ میں ڈائیلیسز کا اہتمام بھی شامل تھا کیونکہ ہر تیسرے دن اس تکلیف دہ عمل سے گزرنا لازم تھا۔ لہٰذا میں امی جان کو لے کر چھ دنوں کے لیے عمرہ پر حرمین شریفین روانہ ہو گیا۔پہلے شہرِ نبیﷺ میں تین روزہ قیام تھا‘ جہاں والدہ محترمہ نے جھولیاں پھیلا کر اپنی صحت مند زندگی کے ساتھ ساتھ ہمارے اور ہمارے بچوں کی سلامتی اور خوشحالی کیلئے بے پناہ دعائیں مانگیں، زیارات کی سعادت حاصل کی اور پھر ہم عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ روانہ ہو گئے۔ سب سے پہلے مکہ میں ڈائلیسز کیلئے ایک ہسپتال میں طے شدہ وقت پر پہنچ گئے اور اس کٹھن ابتلا سے گزرنے کے بعد ہم بیت اللہ جا پہنچے جہاں عمرہ کے مناسک ادا کیے، عبادات کیں اور ربِ دو جہاں کی بارگاہ میں امی جان نے دل کھول کر دعائیں مانگیں۔ وہیل چیئر کے سبب طوافِ کعبہ اور صفا و مروہ کے درمیان دوڑ دھوپ سے مجھے تھکتا دیکھ کر کئی بار مجھے کہا کہ میں انہیں کسی معاون کے حوالے کر دوں جو یہاں روزی کمانے کیلئے موجود ہیں اور بزرگوں، بچوں اور بیماروں کو اپنی مخصوص وہیل چیئر پر عمرہ کرانے کا بڑے جوش و خروش سے اہتمام کرتے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ میں بھلا وقتی تھکاوٹ کے باعث یہ سعادت کسی اور کو کیسے سونپ سکتا ہوں؟ یقینا والدہ محترمہ کو یہ سعادت مندی بہت پسند آئی اور انہوں نے میرے لیے بے پناہ دعائیں کیں۔
اب اُن کا واحد مطالبہ حجرِ اسود کو بوسہ دینا تھا جو وہیل چیئر پر اُن کی شدید نقاہت کے باعث ممکن نہ تھا۔ لہٰذا میں ہر نماز کی ادائیگی کے بعد اگلی نماز کا کہتا رہا حتیٰ کہ مکہ مکرمہ میں ہمارے قیام کا وقت ختم ہو نے کے قریب آن پہنچا ۔ایئر پورٹ روانگی سے قبل آخری نمازِ عصر کی ادائیگی کیلئے ہم بیت اللہ شریف گئے تو امی جان نے حجرِ اسود کو بوسہ دیے گئے بغیر واپس جانے سے انکار کردیا اور دھمکی دی کہ اگر میں نے انہیں اس سعادت سے محروم رکھا تو وہ مجھے کبھی معاف نہیں کریں گی۔ میرے لیے وہ لمحات بہت پریشان کن تھے۔ میں نے ربِ دو جہاں کے حضور اپنی پریشانی پیش کی اور والدہ کی اس آرزو کی تکمیل کی التجا کی، یقین مانیے کہ فوراً سے پیشتر مالکِ کائنات نے میری والدہ کیلئے خصوصی اہتمام فرمادیا۔ جب میرے ہاتھ دعا کیلئے بلند تھے تو امی جان نے میری توجہ حجرِ اسود کی طرف دلائی جو بالکل خالی پڑا تھا۔ میں نے وہیل چیئر برق رفتاری سے حجرِ اسود کی طرف دوڑائی اور قریب پہنچنے پر پولیس اہلکاروں نے وہیل چیئر اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر حجرِ اسود کے ساتھ لگا دی۔ امی جان نے جی بھر کے بوسے دیے اور یوں یہ خواہش بھی پوری ہو گئی۔ عمرہ سے واپسی پر ایک بار پھر گردوں کی پیوند کاری کا آغاز ہوا اور دسمبر 2006ء میں گردوں کے ٹرانسپلانٹ کا عمل کامیابی سے مکمل ہو گیا، حالانکہ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ اگر ایک مرتبہ ٹرانسپلانٹ ناکام ہو جائے تو دوبارہ اس کی کامیابی کے امکانات دس فیصد سے زائد نہیں ہوتے۔ دوبارہ پیوند کیا گیا گردہ تادمِ وفات درست حالت میں بخوبی کام سرانجام دیتا رہا اور سترہ برس کے دوران کبھی دوبارہ یہ مسئلہ نہیں ہوا۔ دو سال بعد ہم دوبارہ حرمین شریفین شکرانے کا عمرہ ادا کرنے پہنچے اور اُس وقت امی جان نے تمام مناسک خود ادا کیے۔ چند برس بعد میں نے ایک مرتبہ پھر عمرے کی ادائیگی کا کہا تو کہنے لگیں کہ اب میں نے حج کرنا ہے مگر حج چونکہ ایک مشکل عبادت ہے تو حجِ بیت اللہ اسی صورت آسانی سے کر پائوں گی کہ کسی بیٹے کی وہاں پوسٹنگ ہو جائے۔ ربِ کائنات نے اُن کی یہ خواہش بھی پوری کردی اور سیف بھائی مدینہ منورہ میں ڈپٹی ڈائریکٹر حج تعینات ہو گئے۔ امی جان کو حجِ اکبر کی سعادت نصیب ہوئی اور انہوں نے اُسی آسانی کے ساتھ حج کے تمام مناسک ادا کیے جس طرح اُن کی آرزو تھی۔ ربِ کریم اور نبی رحمتﷺ سے اُن کا عشقِ با کمال نہایت مضبوط بنیادوں پر استوار تھا جس کے ہم تمام اہلِ خانہ گواہ ہیں۔ ایسے بے شمار واقعات، معاملات اور ذاتی مشاہدات ہیں جنہیں وقت اور جگہ کی قلت کے باعث یہاں بیان کرنا ممکن نہیں۔ 15دسمبر بروز جمعہ ہم نے اپنی سب سے قیمتی چیز منوں مٹی کے سپرد کر دی اور ان کا جسدِ خاکی لحد میں اتارتے ہوئے پکارا:خدا حافظ ماں جی!
خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ ؍ ہم نے سونا سپردِ خاک کیا