خلیل جبران نے سچ ہی تو کہا تھا کہ انسانیت کے ہونٹوں سے ادا ہونے والا سب سے دلآویز لفظ ''ماں‘‘ ہے۔ ماں سے زیادہ سچا اور سُچا رشتہ کوئی دوسرا نہیں۔ ماں کی دُعا سے بڑی نعمت اور اس کی آغوشِ محبت سے زیادہ محفوظ جائے پناہ اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ ربِ کریم نے ماں کو محبت، ایثار، اخلاص اور سچائی کی مٹی سے گوندھ کر بنایا۔ وہ کڑکتی دھوپ میں ایک گھنے سایہ دار درخت کی مانند ہے جو اپنی اولاد کے لیے سورج کی تمازت میں خود جل کر انہیں گرم ہوا تک نہیں لگنے دیتی۔ ماں کی مامتا اس کو فطرت میں ودیعت کی گئی ہے اور انسانوں کے علاوہ‘ جانوروں اور پرندوں میں بھی ماں کے جذبات اپنی اولاد کے لیے ایک جیسے ہیں۔ پرندوں میں فاختہ امن کی علامت تصور کی جاتی ہے مگر وہ بھی اپنے گھونسلے میں موجود بچوں کی حفاظت کے لیے سانپ سے لڑنے تک کو تیار ہو جاتی ہے۔ ماں نہ صرف اولاد کو عالمِ ارواح سے اس عالمِ آب و گِل میں لانے کا ذریعہ ہے بلکہ اس کی پرورش، بلوغت اور تربیت میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ گھر میں ماں کی موجودگی باعثِ رحمت ہے اور اس کی دعا ردِ بلا ہے۔ وہ ہمہ وقت اپنی اولاد اور اُن کی اولاد کی فکر میں مبتلا رہتی ہے اور انہیں ہمیشہ کامیاب، خوش و خرم اور خوشحال دیکھنا چاہتی ہے۔ وہ اپنی اولاد کی بہترین وکیل بنی رہتی ہے اور لوگوں کے سامنے اپنے بچوں کی تعریف و ستائش کرتی ہے‘ اُن کی خامیاں اور کمزوریاں چھپائے رکھتی ہے۔ ہر ماں کے لیے اس کے بچے دنیا کے سب سے حسین چہرے ہیں۔ یہ بچے ہی اس کی آنکھوں کا نور ہیں اور دل کا سرور بھی۔
یہ ماں ہی ہے جو رات گئے بھی اپنے بچوں کی گھر واپسی تک منتظر رہتی ہے اور مضطرب بھی۔ وہ اُن کی لمحوں کی جدائی بھی برداشت نہیں کر پاتی اور انہیں ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا چاہتی ہے۔ ماں کبھی بوڑھی نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کی مامتا کمزور پڑتی ہے۔ اس کی دعائوں اور نیک تمنائوں کے سلسلے نہایت پُر اثر‘ ہمالیہ سے اونچے اور سات سمندروں سے زیادہ گہرے ہوا کرتے ہیں۔ ماں کی دعا جنت کی ہوا کی ضمانت بن جاتی ہے۔ یہ ماں کی دعا ہی تھی جس نے حضرت اویس قرنیؓ کو وہ ارفع مقام دلایا کہ جید صحابہ کرام بھی ان کے پاس دعا کے لیے گئے۔ ماں کی خدمت نے ہی ان کے دل میں عشقِ مصطفیﷺ کے چراغ روشن کیے تھے۔ ماں کی دعا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طاقت اور فرعون کے ظلم و استبداد کے سامنے ایک مضبوط ڈھال بنی رہی تھی۔ ماں کے دم ہی سے گھر کے آنگن میں خیر و برکت کے امکان روشن ہو تے ہیں اور انسان کی دین و دنیا میں کامیابی کے اسباب میسر ہوتے ہیں۔ ماں کا کوئی نعم البدل ہے اور نہ کوئی ہو سکتا ہے۔ وہ اپنی محبتوں، دعائوں اور اولاد کے لیے نیک تمنائوں میں یکتا تھی، ہے اور ہمیشہ رہے گی۔
دنیا کی سب مائیں اپنی اولاد کے لیے محبت کا استعارہ اور ایثار و قربانی کا پیکر ہیں مگر کچھ مائیں اپنی خداداد صلاحیتوں اور منفرد معروضی حالات کی وجہ سے دوسروں سے ممتاز نظر آتی ہیں۔ خالقِ کائنات بسا اوقات کچھ مائوں کو کڑی آزمائشوں‘ حوصلہ شکن امتحانات، دلگیر حادثات اور کٹھن معاملات سے دو چار کر دیتا ہے اور یوں اُن کا مقام و مرتبہ دوسروں سے الگ ہو جاتا ہے۔ ہماری والدہ بھی ایسی چنیدہ مائوں میں سے ایک تھیں جنہیں ربِ کریم نے کڑے امتحانات اور حوادثِ زمانہ کے لیے منتخب کیا مگر وہ توکل اور رضائے الٰہی کی سب آزمائشوں پر پورا اتریں اور اپنی اولاد کے لیے ہمہ وقت بارگاہِ الٰہی میں دست بدعا رہیں۔ آج سے قریب سینتیس سال قبل میرے والدِ گرامی پروفیسر محمد انور خان جپہ کی اچانک وفات سے وہ محض پینتیس برس کی عمر میں بیوہ ہو گئیں اور یوں سات بیٹوں کی واحد کفیل اور سرپرست ٹھہریں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ابا جان کے انتقال پُرملال کی وجہ سے ہمارے گھر پر قیامت کا سماں برپا تھا اور ملک بھر سے ان کے چاہنے والوں کا تعزیت کے لیے تانتا بندھا ہوا تھا۔ بہت کم عمری میں ہم یتیم ہوئے اور ہمارے سب سے چھوٹے بھائی نوید محض آٹھ ماہ کے تھے کہ جب باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا۔ جس دن ابا جان کی رسمِ چہلم ادا کی گئی اسی شام ہماری والدہ نے مجھے اور سیف بھائی کو ایک الگ کمرے میں بلا کر آئندہ کی زندگی کا ایک مربوط، مدلل اور ٹھوس پلان مرتب کیا۔ انہوں نے ہمیں ہمارے والد کی شخصیت و کردار، قد کاٹھ اور معاشرے میں مقام و مرتبے سے آگاہ کیا اورساتھ ہی ان کے خوابوں، ارمانوں اور ہمارے مستقبل سے جڑے تمام ارادوں اور منصوبوں سے بھی آگاہ کیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ ابا جان کی اچانک رحلت بلاشبہ ہماری زندگی میں صدمات کا ایک لامتناعی سلسلہ شروع کر چکی ہے مگر والد صاحب کی روح کی تسکین کا واحد ذریعہ ان کے اُن خوابوں کی تعبیر و تکمیل میں پوشیدہ ہے جو انہوں نے ہمارے تابناک مستقبل میں روشنیاں بھرنے کے لیے دیکھ رکھے تھے۔ ایک مدبر ٹیم لیڈر کے روپ میں ہماری ماں نے اس شام ہمیں زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے ایک قابلِ عمل پروگرام مرتب کر کے دیا۔ ایک عسکری کمانڈر کی طرح جو اگلے مورچوں پر لڑنے والے سپاہیوں کے حوصلے بلند کرنے کے لیے ان میں جوش و ولولہ اجاگر کرتا ہے اور انہیں دشمن کے سامنے سینہ سپر رہنے کی ترغیب دیتا ہے‘ بالکل اسی طرح ہماری والدہ نے اپنی گفتگو میں ہمیں جہدِ مسلسل، عملِ پیہم اور صبرو استقامت کا استعارہ بن کر کچھ بڑا کرنے کے لیے قائل کیا۔
امی جان نے ہم پر یہ واضح کیا کہ اب وہ صرف ہماری ماں نہیں بلکہ باپ بھی ہیں اور ہمیشہ یہ کردار خوش دلی، خوش اسلوبی اور دلیری سے نبھاتی نظر آئیں گی۔ انہوں نے ہمارے سامنے ابا جان کے تین بڑے خواب رکھے جن میں سب سے مقدم ہماری تعلیم تھی جس کے لیے ابا جان ہمیشہ گورنمنٹ کالج لاہور کو ترجیح دیتے تھے کہ اس عظیم درسگاہ کی ایک منفرد تاریخ تھی۔ دوسرا خواب تعلیم کے بعد سول سروس میں شمولیت کا تھا۔ لہٰذا امی جان نے یہ فیصلہ کیا کہ سیف انور بھائی گورنمنٹ کالج لاہور فرسٹ ایئر میں داخلہ لے کر پہلے خواب کی تعبیر کا سفر شروع کریں جبکہ میں میٹرک کے بعد گو رنمنٹ کالج جھنگ میں داخل ہو جائوں تا کہ زمیندارہ کے امور کے ساتھ ساتھ چھوٹے پانچ بھائیوں کی تعلیم و تربیت اور نگہداشت میں امی جان کا ہاتھ بٹا سکوں۔ امی جان کے حکم کی تعمیل میں سیف انور بھائی گورنمنٹ کالج لاہور کیا پہنچے‘ یکے بعد دیگرے مجھ سمیت چھ بھائی اس عظیم درسگاہ کے در و دیوار کی محبت کے اسیر ٹھہرے اور لگ بھگ بیس سال تک مسلسل ہم سب بھائی گورنمنٹ کالج لاہور میں زیرِ تعلیم رہے جو ایک ریکارڈ ہے۔
سول سروس کے لیے مقابلے کے امتحانات کی تیاری کا دور شروع ہوا تو اس میں بھی والدہ محترمہ کی خواہشات ہمارے لیے مشعلِ راہ بنی رہیں اور ان کی دعائیں ہی ہماری کامیابیوں کی ضامن بنیں۔ ہم پوری دیانت سے محنت کرتے رہے، آگے بڑھتے رہے اور امتحان در امتحان مکمل انہماک سے عازمِ سفر رہے۔ اللہ کریم نے اپنی شانِ کریمی سے ہمارے لیے کامیابیوں کا سلسلہ دراز کیا، ہمیں غیب کے خزانوں سے فیضیاب کیا۔ اس طرح پانچ بھائی سول سروس کا حصہ بنے اور ایک بھائی جو والدِ گرامی کی وفات کے وقت صرف آٹھ ماہ کا تھا‘ وہ پاکستان آرمی میں بطور میجر اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہے جبکہ ایک بھائی گزشتہ بیس سال سے فرانس میں مقیم ہے اور اپنے کاروبار کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔
امی جان کی قیادت میں ہم سات یتیم بھائیوں نے ملک کے بڑے تعلیمی اداروں کے علاوہ جرمنی، اٹلی، فرانس اور برطانیہ سے بھی مختلف مضامین میں اضافی اسناد حاصل کر رکھی ہیں جبکہ والدِ گرامی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے غریب اور نادار لوگوں کی خدمت کا سفر بھی جاری ہے۔ اپنے اپنے دائرہ عمل میں‘ سرکاری امور کی انجام دہی میں بلاتمیز و بلا امتیاز عوام تک بنیادی سہولتوں اور ان کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا اگر ہماری اولین ترجیح ہے تو اس میں بھی ہماری والدہ مرحومہ مغفورہ کی مثالی تربیت ہی کا عمل دخل ہے۔ (جاری)