"KNC" (space) message & send to 7575

تین چارہ گر

فیض صاحب کا کیا اچھا شعر ہے:
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے
اس وقت چارہ گر تین ہیں: نواز شریف صاحب‘ آصف زرداری صاحب اور عمران خان صاحب۔ تینوں چارہ گری کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ ان کا گریز قابلِ فہم تو ہے قابلِ قبول نہیں۔ قابلِ فہم اس لیے ہے کہ تینوں اپنے اپنے گروہی اور ذاتی مفادات کے تناظر میں سوچ رہے ہیں۔ یہ سوچ جس حکمتِ عملی کی طرف راہنمائی کرتی ہے‘ وہ اس پر کاربند ہیں۔ قابلِ قبول اس لیے نہیں کہ قوم انہیں گروہی اور شخصی مفادات سے بلند تر دیکھنا چاہتی ہے۔ اگر وہ ان کے اسیر رہے تو تاریخ کی عدالت میں سرخرو نہ ہو سکیں گے۔
نواز شریف صاحب کی سیاست پر اس وقت حجاب ہیں۔ ان کے عزائم سے کوئی باخبر نہیں۔ بظاہر ان کی دلچسپی پنجاب اور اپنی بیٹی کی سیاست تک محدود ہو گئی ہے۔ ان کا سیاسی مقام و مرتبہ ان سے کہیں بڑے کردار کا تقاضا کرتا ہے۔ وہ آج کے سب سے زیادہ تجربہ کار اور متین سیاستدان ہیں۔ 2014ء میں وہ پوری قوم کو دہشت گردی کے خلاف ایک محاذ اور ایک حکمتِ عملی پر کامیابی کے ساتھ جمع کر چکے ہیں۔ ان کا شمار ملک کے مقبول ترین راہنماؤں میں ہوتا ہے۔ (ن) لیگ سے باہر بھی ان کا احترام پایا جاتا ہے۔ وہ اگر اختر مینگل صاحب یا مولانا فضل الرحمن صاحب سے ملک کو درپیش بحران کے بارے میں کچھ کہنا چاہیں تو یہ ممکن نہیں کہ اسے سنا نہ جائے۔ ملک کے تمام صوبوں میں ان کو خوش آمدید کہا جائے گا۔
آصف زرداری صاحب اس وقت ایک اہم منصب پر ہیں۔ انہوں نے سندھ کو وفاق سے جوڑے رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ بھی ایک قومی جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ بطور صدرِ مملکت انہوں نے اپنے پہلے دور میں چھوٹے صوبوں بالخصوص بلوچستان کے بارے میں جو نقطہ نظر اختیارکیا‘ اس کو پذیرائی ملی۔ ان کا معاملہ بھی یہ ہے کہ وہ کسی سے بات کرنا چاہیں تو وہ انکار نہیں کرے گا۔ وہ جس منصب پر ہیں اس کا اپنا احترام ہے۔ نواز شریف صاحب کی طرح وہ بھی سخت بات کہنے سے گریز کرتے ہیں۔ ان کا یہ مزاج انہیں دوسروں کے لیے قابلِ قبول بناتا ہے۔ آج انہوں نے خود کو پیپلز پارٹی اور سندھ تک محدود کر دیا ہے جو کسی طور ان کے شایانِ شان نہیں۔
عمران خان صاحب بھی ایک مقبول راہنما ہیں۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ان سے محبت کرتی ہے۔ انہیں جو سیاسی عصبیت حاصل ہو چکی‘ اس کی وجہ سے انہیں نظر انداز کرنا آسان نہیں۔ اس سے ان کی ذمہ داری بھی بڑھ گئی ہے۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مزاجاً کسی ایسی اجتماعیت کا حصہ نہیں بن سکتے جس میں ان کی حیثیت ثانوی یا دوسروں کے مساوی ہو۔ نرگسیت نے انہیں اپنی ذات کا قیدی بنا دیا ہے۔ ان کی تمام زندگی گواہ ہے کہ ان کے لیے کل کائنات صرف ان کی ذات ہے۔ اسی وجہ سے بطور وزیراعظم وہ کسی کو ساتھ لے کر چل سکے اور نہ آج اس کے قائل ہیں۔
اگر نواز شریف صاحب اور آصف زرداری صاحب گروہی مفادات اور عمران خان صاحب ذات کے اسیر رہتے ہیں تو وہ درپیش بحران میں وہ کردار ادا نہیں کر سکیں گے جو انہیں کرنا چاہیے۔ وزیراعظم شہباز شریف صاحب نے بطور چیف ایگزیکٹو جو ذمہ داری اٹھائی ہے‘ اسے خوش اسلوبی سے نبھا رہے ہیں۔ ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ملک کی معیشت کو ایک بار پھر ہموار راستے پر ڈالنا تھا۔ وہ اس میں بڑی حد تک کامیاب رہے۔ اس حوالے سے ان کی سنجیدگی پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ کوئی ان پر تساہل یا غیر ذمہ داری کا الزام نہیں لگا سکتا۔ ان کی محنت کا اعتراف اب ان کے مخالفین کو بھی ہے۔ مسئلہ ان تین چارہ گروں کے ساتھ ہے جنہیں اس وقت سیاسی عصبیت حاصل ہے۔ اگر وہ کوئی پیش قدمی نہیں کرتے تو پھر ملک کو درپیش مسئلے کا کوئی پائیدار حل نہیں نکل سکتا۔
ماضی میں اہلِ سیاست کے علاوہ صحافی اور علما بھی بحرانوں میں اہم کر دار ادا کرتے رہے ہیں۔ مجید نظامی صاحب زندہ تھے تو انہیں یہ مقام حاصل تھا کہ کوئی سیاسی راہنما ان کی بات کو ٹال نہیں سکتا تھا۔ علما میں مولانا ظفر احمد انصاری مرحوم کو سب احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ بزم ہائے سیاست اور مجالسِ علم اب ایسے لوگوں سے خالی ہو چکیں۔ محترم مجیب الرحمن شامی صاحب اور مفتی تقی عثمانی صاحب کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن انہیں بھی چارہ گری سے گریز ہے۔ اصل ذمہ داری مگر اہلِ سیاست ہی کی ہے۔ سیاستدان بحرانوں میں قوم کو جمع کرتے ہیں۔
میرے نزدیک تین چارہ گروں میں نواز شریف صاحب اور آصف زرداری صاحب کا کردار زیادہ اہم ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک یہ ہے کہ وہ اقتدار میں ہیں۔ جو اقتدار میں ہوتا ہے‘ وہ کچھ دینے کی پوزیشن میں ہوتا ہے۔ اس کی یہ حیثیت متقاضی ہے کہ اس کا ظرف بڑا ہو۔ اگر یہ دونوں کسی بات پر متفق ہو جائیں تو عمران خان صاحب کو قومی سیاست کا حصہ بنانے کے لیے پیش قدمی کر سکتے ہیں۔ اگر عمران خان اس کا مثبت جواب نہ دیں تو پھر ان سے گلہ نہیں رہے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ دونوں زیادہ تجربہ کار اور سیاسی مزاج رکھتے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ سیاست بقائے باہمی کا تقاضا کرتی ہے اور اس کے لیے گروہی مفادات سے بلند ہونا پڑتا ہے۔ یہ جانتے ہیں کہ سیاست مصالحت اور مفاہمت کا نام ہے۔
عمران خان صاحب کو بھی اس بات کا ادارک کرنا ہوگا کہ انہوں نے ریاست کو اپنا حریف بنا لیا ہے جس میں ان کے مزاج کے ساتھ ان کی جماعت کے ناتراشیدہ سیاسی مہم جوؤں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ اہلِ سیاست کے ساتھ مخاصمت پہلے ہی عروج پر تھی۔ انہیں سمجھنا ہو گا کہ معاملہ ریاست کے ساتھ ہو تو پھر تصادم میں ہمیشہ نقصان ہوتا ہے۔ سیاست راستہ نکالنے کا نام ہے اور اس کے لیے اہلِ سیاست کے ساتھ ہم قدم ہونا پڑتا ہے۔ ان کے وجود کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت وہ ریاست اور اہلِ سیاست دونوں سے برسرِ پیکار ہیں۔ اس طرزِ عمل کو حکیمانہ نہیں کہا جا سکتا۔ اسے اصولی قرار دینا بھی مشکل ہے کہ اقتدار کی سیاست کبھی اس کی متحمل نہیں رہی۔ پہلی مرتبہ وزیراعظم بننے کے لیے اگر وہ ریاستی اداروں کے ساتھ معاونت‘ مصالحت اور مفاہمت کا رویہ اختیار کر سکتے ہیں تو دوسری بار کیوں نہیں؟
میری تجویز ہے کہ پہلے مرحلے میں نواز شریف صاحب اور آصف زرداری صاحب کی ملاقات ہو۔ دوسرے مرحلے میں مولانا فضل الرحمن اور دوسری قومی جماعتوں کو شریکِ مشاورت کیا جائے۔ تیسرے مرحلے میں یہ لوگ بلوچستان کی سیاسی قیادت سے ملیں۔ اسی طرح عمران خان صاحب سے بھی رابطہ کیا جائے۔ ان ملاقاتوں کا ایجنڈا ایک ہو اور وہ یہ ملک کو دہشت گردی اور عدم استحکام سے نجات دلانا ہے۔ آخری مرحلے میں ایک متفقہ لائحہ عمل کے لیے کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا جائے جس کے لیے موزوں جگہ ایوانِ صدر ہے۔ ان مراحل کے درمیان زیادہ وقفہ نہیں ہونا چاہیے۔ اہلِ سیاست جب مل بیٹھیں گے تو مسائل کا سیاسی حل نکلے گا۔ جو اس سیاسی عمل کا حصہ نہیں بنے گا وہ قوم کے سامنے اپنا وقار کھو دے گا۔
میں اس بات کو دہراتا ہوں کہ اس وقت سب سے زیادہ ذمہ داری نواز شریف صاحب اور آصف زرداری صاحب کی ہے۔ ان کو گروہی سیاست سے بلند تر ہو کر قوم کو دہشت گردی کے خلاف متحد کرنا اور ملکی سیاست میں استحکام لانا ہو گا۔ آج وہی چارہ گر ہیں۔ سچ یہ ہے کہ چارہ گروں کو گریز نہ ہو تو قوم کا دکھ لا دوا نہیں ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں