'ہر امیر آدمی لازم ہے کہ بددیانت ہوگا۔ یہاں دیانت داری کے ساتھ پیسہ کمانا ممکن نہیں‘۔
'ہر صاحبِ منصب لازم ہے کہ کسی ناجائز طریقے سے اس مقام تک پہنچا ہو گا۔ پاکستان میں ممکن نہیں کہ کسی کو میرٹ پر منصب ملے‘۔
'کسی صاحبِ حیثیت کی تعریف لازم ہے کہ ناجائز مراعات کیلئے کی گئی ہو گی۔ بلامقصد کون کسی کی مدح کرتا ہے‘۔
اَن گنت مغالطے ہمیں گھیرے رکھتے ہیں جو بالآخر ہماری سماجی نفسیات کو برباد کر دیتے ہیں۔ میں نے تین کا ذکر کیا ہے۔ یہ اس بات کا اعلانِ عام ہے کہ ہمارے سماج سے حسنِ ظن ختم ہو گیا ہے۔ کسی کو قیمتی گاڑی میں دیکھ کر ہمارا پہلا تبصرہ یہ ہوتا ہے کہ یہ ناجائز مال سے خریدی گئی ہے۔ ہم کسی کو ایک منصب پر فائز دیکھتے ہیں تو پہلا خیال یہ آتا ہے کہ اسے کسی خدمت کے صلے میں نوازا گیا ہے ‘ ورنہ اس میں یہ اہلیت کہاں تھی۔ اسی طرح ایک محتاط آدمی کسی صاحبِ منصب کی خوبی کے بیان میں بخل سے کام لیتا ہے کہ اس کو خوشامد سے تعبیر کیا جائے گا۔ لوگ خیال کریں گے کہ اس کو منصب بردار سے کوئی کام آن پڑا ہے۔
اس رویے کا ایک سبب ہے اور وہ ہے سوئے ظن کا غلبہ۔ اگر ہم بدگمانی کی عینک اتار کر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ بہت سے امرا وہ ہیں جنہوں نے جائز ذرائع سے پیسے جمع کیے ہیں۔ انہوں نے ایک ایسے کاروبار میں بروقت قدم رکھا جو نسبتاً زیادہ منافع بخش تھا اور ان کے وارے نیارے ہو گئے۔ ایسا ہی ایک کاروبار زمین اور جائداد کی خریدو فروخت کا ہے۔ تین چار برس پہلے تک‘ جس زمین کی قیمت کوڑیوں میں تھی‘ وہ لاکھوں میں ہو چکی تھی۔ جنہوں نے صحیح وقت پر اس کاروبار کا انتخاب کیا‘ ان کے دن پھر گئے۔ اس کی بے شمار مثالیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ لوگوں نے سستی زمین خریدی‘ اسے ایک منظم ہاؤسنگ سوسائٹی میں بدلا اور بہت پیسے کمائے۔
ایسا ہی ایک کاروبار کھانے پینے سے متعلق ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ پلاؤ بیچنے والی ایک دکان‘ دیکھتے ہی دیکھتے متعدد ریستورانوں کی ایک لڑی بن گئی۔ دو تین ہفتے پہلے میں نے خبر پڑھی کہ گوجر خان میں اس کی ایک نئی شاخ کا افتتاح ہوا تو پہلے دن ہی 51 لاکھ کی بکری ہوئی۔ گاہک قطار بنائے کھڑے تھے مگر کھانا ختم ہو چکا تھا۔ ان کی شہرت کبھی بری نہیں رہی۔ میں نے لوگوں سے سنا کہ یہ انفاق کرنے والوں میں سے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو گردو نواح میں ایسی بہت سی مثالیں تلاش کر سکتے ہیں کہ لوگوں نے محنت کی اور درست وقت پر صحیح فیصلے کیے تو ان کے کاروبار کو غیرمعمولی فروغ ملا۔ ایک مثال میڈیا بھی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کا آنا تو ابلاغ کی دنیا میں ایک انقلاب تھا۔ صحافت اب سو فیصد کاروبار ہے اور ایک اچھا اینکر اس کاروبارکا روحِ رواں ہے۔ نتیجتاً اسے اتنی تنخواہ ملنے لگی کہ کسی صحافی نے کبھی سوچا بھی نہ ہو گا۔ اس کا ناگزیر نتیجہ آسودہ زندگی ہے۔ یہی معاملہ بعض سروسز کا بھی ہے۔ جیسے ڈاکٹر‘ جیسے وکلا‘ یہ چند مثالیں ہیں جو دلیل ہیں کہ جائز طریقے سے بھی پیسہ کمایا جا سکتا ہے۔ ہر وہ آمدن جائز ہے جو قانون کے مطابق اور اس کی نظر میں ہے۔
بڑے منصب تک پہنچنے کے بھی جائز ذرائع موجود ہیں۔ مثال کے طور پر سی ایس ایس کا امتحان ہے۔ لوگ اس میں کامیاب ہوتے اور بیوروکریسی کے اعلیٰ ترین مناصب تک جا پہنچتے ہیں۔ اسی طرح فوج میں بھی میرٹ کی بنیاد پر ترقی ہوتی ہے۔ پھر کچھ اَن دیکھے اسباب بھی ہوتے ہیں۔ غلام اسحاق خان مرحوم کی شہرت ایک دیانتدار آدمی کی تھی۔ حالات نے انہیں منصبِ صدارت تک پہنچا دیا۔ سیاسی حکمرانوں نے بھی بعض اچھے افراد کا انتخاب کیا۔ فواد حسن فواد بیورو کریسی کے سب سے بڑے منصب پر رہے۔ میں نے ان کے بارے میں کوئی منفی بات نہیں سنی۔ خواجہ ظہیر صاحب بھی بیورو کریٹ تھے جو وزیراعظم نواز شریف صاحب کے بہت قریب رہے۔ لوگ ان کی تعریف ہی کرتے پائے گئے۔ یہ لازم نہیں کہ سیاسی حکمرانوں کا ہر انتخاب خوشامد یا کسی ناجائز خدمت کا نتیجہ ہو۔
اگر اعلیٰ مناصب پر بیٹھنے والوں میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں تو ان کی کسی خوبی کا ذکر کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ یہ سمجھنا کوئی لازم ہے کہ کسی ایسی تعریف کا مقصد کوئی مفاد ہی ہو سکتا ہے؟ ہمارے ہاں یہ خیال اتنا پختہ ہے کہ اچھے لوگ کسی وزیر مشیر کی تعریف کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ پڑھنے یا سننے والا اسے خوشامد ہی سمجھے گا۔ سماجی دباؤ کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں حکمرانوں کی تعریف ان پر تنقید سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ تنقید اور مذمت سے لوگ آپ کو بطلِ حریت سمجھتے ہیں اور تعریف سے خوشامدی۔ اس سماجی دباؤ سے آزاد ہونا آسان نہیں۔ اگر مداح کا کوئی براہِ راست مفاد وابستہ نہیں تو پھر یہ تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ ممدوح میں فی الواقعہ مبینہ خوبی پائی جاتی ہے۔ اور خوبی ہے تو اس کا ذکر بھی ہونا چاہیے۔
یہ سوئے ظن کیوں ہے؟ اس کا سبب بددیانتی کا وہ کلچر ہے جس کا پہلا ہدف حسنِ ظن ہوتا ہے۔ جب کوئی وبا پھیل جائے تو اس سے استثنا پر یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کورونا کے دنوں میں‘ اگر کسی اور بیماری سے جسم میں درد ہوتا تو پہلا خیال یہی ہوتا تھا کہ یہ کوروناکی وجہ سے ہے۔ جب مناصب کی تقسیم ذاتی مفاد اور خوشامد کی بنیاد پر ہونے لگے تو یہ باور کرنا آسان نہیں ہوتا کہ کوئی انتخاب خالص میرٹ کی بنیاد پر بھی ہو سکتا ہے۔ جب ناجائز ذرائع کی بنیاد پر دولت کمانے والوں کی کثرت ہو تو ہر دولت مند مشکوک دکھائی دیتا ہے۔ خوشامد عام ہو جائے توکوئی یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتا کہ کسی صاحبِ منصب کی تعریف‘ کسی مفاد کے بغیر بھی کی جا سکتی ہے۔ لوگ چند مشاہدات کو عموم کا رنگ دے دیتے ہیں۔ پھر 'یہاں تو ہر آدمی کرپٹ ہے‘ جیسے جملے بکثرت سنائی دیتے ہیں۔ باہمی تعلقات کی فضا بداعتمادی اور منافقت سے بھر جاتی ہے۔
سماجی روابط گمان کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں۔ ہم دوسروں کی نیکی یا گناہ کے عینی شاہد نہیں ہوتے۔ ہماری رائے اکثر گمان پر مبنی ہوتی ہے۔ اچھا معاشرہ وہی ہوتا ہے جہاں تاثر کا آغاز حسنِ ظن سے ہو۔ ہم دوسرے کو اچھا سمجھیں الّا یہ کہ مختلف رائے کیلئے کوئی شہادت ہمارے پاس موجود ہو۔ یہ قیاس کسی طور مناسب نہیں کہ یہاں سب ایک جیسے ہیں۔ جو لوگ اخلاقی شعور رکھتے اور یہ چاہتے ہیں کہ سماج میں خیر کا غلبہ ہو‘ انہیں آگے بڑھ کر اس طرزِ احساس کی عملی مخالفت کرنا چاہیے۔ اگر وہ جانتے ہیں کہ کوئی منصب آرا اچھا آدمی ہے تو اس کی تعریف کریں۔ کسی صاحبِ حیثیت کو دیکھیں تو ان کا پہلا تبصرہ یہ ہونا چاہیے کہ یہ حلال ذرائع کا حاصل ہے۔ بچوں کی بطورِ خاص یہ تربیت کرنی چاہیے کہ جائز طریقے سے بھی ترقی ممکن ہے۔ جب ہم ان کے سامنے دوسروں کے بارے میں ہمیشہ سوئے ظن کا اظہارکرتے ہیں تو بالواسطہ انہیں یہ بتاتے ہیں کہ جائز طریقے سے ترقی ممکن نہیں۔ لہٰذا تم بھی کوئی دوسرا راستہ تلاش کرو۔ ہمارا مذہب ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر سماج میں نیکی کا زیادہ ذکر ہو گا تو نیکی پھیلے گی۔ برائی ہر وقت زیرِ بحث رہے گی تو برائی ہی کو فروغ ملے گا۔ رائے سازوں سے توقع ہوتی ہے کہ ان کا اخلاقی شعور دوسروں سے بہتر ہو گا۔ وہ اگر اس کا خیال رکھیں تو ہم ایک ایسے سماج کی طرف پیش قدمی کر سکتے ہیں جو سوئے ظن کے بجائے حسنِ ظن پر کھڑا ہو۔