"KNC" (space) message & send to 7575

قانونِ دیت اور صلح

ایک صاحبِ ثروت یا صاحبِ حیثیت‘ لاپروائی سے گاڑی چلاتے ہوئے ایک‘ دو یا زیادہ افراد کی جان لے لیتا ہے۔ وہ دولت یا حیثیت کے بل بوتے پر مقتول کے ورثا سے صلح کر لیتا ہے۔ عدالت اسے باعزت بری کرنے کا حکم صادر کر دیتی ہے۔ چند دن بعد پھر یہ 'حادثہ‘ پیش آتا ہے۔ اب معلوم ہوتا ہے کہ ڈرائیور تو قانوناً گاڑی چلانے کا استحقاق ہی نہیں رکھتا تھا۔ چار دن بعد خبر ملتی ہے کہ اس کی بھی مقتولین کے ورثا سے صلح ہو گئی ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ ایسے واقعات معاشرے کا روزمرہ بن جاتے ہیں۔ سرمایے اور اختیار والے عام شہریوں کو کچلتے ہیں‘ صلح ہوتی ہے اور غافلین و مجرمین کے ہاتھ میں عدالت بے گناہی کا پروانہ تھما دیتی ہے۔ کیا اس قانون کا منشا یہی ہے؟ کیا ریاست کا کردار محض اتنا ہے کہ وہ ظالم اور مظلوم کے مابین سہولت کاری کا فریضہ ادا کرے؟ کیا عدالت اس لیے ہوتی ہے کہ ملزموں کیلئے شک کے فوائد تلاش کرے؟ کیا اسلام کے قانونِ دیت کا مقصود بھی یہ ہے کہ ظالموں کے ہاتھ میں ایک ہتھیار تھما دیا جائے کہ وہ قاتل ہونے کے باوجود اس کی مدد سے اپنی جان بچا لیں؟ کیا جان کا تحفظ مقاصدِ شریعت میں شامل نہیں؟
ان میں سے کسی سوال کا جواب اثبات میں نہیں ہے۔ قانون کا منشا یہ ہے کہ سماج کو جرائم سے پاک کیا جائے۔ اس کیلئے لازم ہے کہ مجرم اپنے انجام کو پہنچیں۔ ریاست کے وجود کا تو جواز ہی یہ ہے کہ عام شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کرے اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ریاست اسے اپنا مقصدِ وجود سمجھے۔ اگر ریاست یہ نہیں کر سکتی تو وہ شہریوں سے سمع و طاعت کی بیعت بھی نہیں لے سکتی۔ عدالت کا کام مجرموں کو بچانے کے مواقع تلاش کرنا نہیں‘ لوگوں کو انصاف فراہم کرنا ہے۔ اس کا فطری جھکاؤ مظلوم کی طرف ہونا چاہیے نہ کہ ظالم کی طرف۔ اسلام اس سے پاک ہے کہ وہ ظالم کی حمایت میں کھڑا ہو۔ وہ تو قصاص میں زندگی کا تصور دیتا ہے۔ مقاصدِ شریعت میں پہلا مقصد تحفظِ جان ہے۔ اسلامی شریعت اس کا سب سے زیادہ اہتمام کرتی ہے اور اس باب میں کسی امتیاز کو روا نہیں رکھتی۔
اس کا بدیہی نتیجہ یہ ہے کہ جو قانون عام آدمی کے جان و مال کی حفاطت نہیں کرتا‘ وہ غلط ہے۔ جو ریاست شہریوں کے جان و مال اور عزت و آبروکا تحفظ نہیں کرتی‘ وہ اپنا جواز کھو دیتی ہے۔ جب عدالت ایسے ہر واقعے میں مجرم کے ساتھ کھڑی دکھائی دے تویہ نظامِ عدل میں کسی بڑے سقم کا اعلان ہے۔ اگر اسلام کے کسی قانون کی ایسی تعبیر کی جائے جس میں قانون مظلوم کے بجائے ظالم کے سر پر اپنا دستِ شفقت رکھ دے توایسی تعبیر فاسد ہے۔ اللہ کا دین اس سے پاک ہے کہ اس پر یہ تہمت دھری جائے۔ اگر مظلوم کی داد رسی کے بغیر کوئی ریاست یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہاں شریعت کا حکم نافذ ہے تو وہ مقاصدِ شریعت سے لاعلمی کا افسوس ناک مظاہرہ کرتی ہے۔
تواتر کے ساتھ ملک میں ایسے واقعات ہو رہے جو یہ بتا رہے ہیں کہ اس ملک میں مظلوم کے ساتھ کوئی نہیں ہے۔ نہ حکومت نہ عدالت۔ نہ قانون نہ شارحینِ مذہب۔ شدید تر مسائل ریاست اور قانون کو درپیش ہیں اور ان کے اتباع میں عدالتوں کو بھی۔ دو بچیاں اسلام آباد کی ایک شاہراہ پر قتل ہو گئیں اور محض چار دن میں قانون‘ عدالت‘ انتظامیہ اور اہلِ مذہب‘ سب نے اس حادثے کو قصۂ پارینہ بنا دیا‘ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ مجھے گلہ سول سوسائٹی سے بھی ہے۔ نور مقدم کے قاتل کو شاید عدالت شک کا فائدہ دے دیتی اگر سول سوسائٹی اس کی پشت پر کھڑی نہ ہوتی۔ میں اس کردار پر سول سوسائٹی کے نمائندوں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ میرا سوال مگر یہ ہے کہ یہ لوگ ثمرین اور تابندہ کے معاملے میں کیوں متحرک دکھائی نہیں دیے؟ کیا اس لیے کہ نور مقدم کا تعلق اشرافیہ کے طبقے اور ایک خاص کلچر سے تھا اور ثمرین و تابندہ اس بے نوا طبقے سے تھیں جسے عوام کہتے ہیں؟ رانی پور کی فاطمہ کا معاملہ بھی یہی تھا کہ اسے بھلا دیا گیا۔ میرا سوال مذہبی سیاسی جماعتوں سے بھی ہے۔ وہ عافیہ صدیقی صاحبہ کیلئے ملک گیر مہم اٹھاتی ہیں اور اچھا کرتی ہیں مگر ان مظلوم بیٹیوں کیلئے کوئی جلوس برآمد نہیں ہوتا جو اس ملک کے جاگیردارانہ نظام کے ظلم کا شکار ہیں یا عدالتی نظام کی کمزوری کا۔ ان جماعتوں کی قیادت کو شاید یہ معلوم ہی نہ ہو کہ رانی پور کی فاطمہ کے ساتھ کیا ہوا؟
ضروری ہے کہ ان مسائل پر ملکی سطح پر بات ہو۔ ظلم وہی نہیں ہوتا جس سے کوئی سیاسی مفاد وابستہ ہو۔ ظلم تو گلی بازار‘ ایوانِ انصاف و اقتدار‘ ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔ اس کا تعلق مذہبی علم سے ہے اور قانون کے نفاذ سے بھی۔ سماجی رویوں سے ہے اور رسم و رواج سے بھی۔ ہماری مذہبی تعبیرات سے ہے اور اندازِ حکمرانی سے بھی۔ ہر کسی کو اپنے اپنے دائرے میں اس ظلم کے خلاف بروئے کار آ نا ہے۔ سماجی تبدیلی اس کے بغیر نہیں آ سکتی۔ اقتدار کی سیاست اہم ہے لیکن سماجی اقدار کی حفاظت اہم تر۔ سیاسی آنکھ کو صرف وہ ظلم دکھائی دیتا ہے جس کا ہدف کوئی سیاسی گروہ ہو۔ شب کی تنہائی میں مزدوری کرتی غریب کی بیٹیوں کو کچل دینا اورکسی قیدی سے ملاقات کی اجازت نہ دینا ایک جیسے ظلم نہیں ہو سکتے۔ ہر طرح کے ظلم کے خلاف اس کی شدت کے مطابق ردِعمل دینا سماج کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
دنیا میں کوئی کام بے مقصد نہیں ہوتا۔ انسانی عقل کوئی فیصلہ صادر کرے یا آسمان سے کوئی حکم نازل ہو‘ سب کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ پاکستان میں اگرصلح اور دیت کا کوئی قانون ہے تو اس کا مقصد ہونا چاہیے۔ ظلم کی تائید تو ظاہر ہے کہ مقصد نہیں ہو سکتا۔ یہ قانون اس لیے نہیں بنا تھا۔ اگر اس کا مسلسل ایک ہی نتیجہ سامنے آئے تو لازم ہو جاتا ہے کہ اس پر نظر ثانی ہو۔ اگر انسانوں نے بنایا ہے تو پھر انہیں اپنے قانونی نتائجِ فکر پر نئے سرے سے غور کرنا چاہیے۔ اگرانہیں شرعی قرار دیا جا رہا ہے تو بھی لازم ہے کہ سماج اس مذہبی تعبیر پر غور کرے جس کا یہ قانون نتیجہ ہے۔ جب خدا کی مشیت اور قانون کی روح انصاف ہے تو کیسے ممکن ہے کہ ان کا نتیجہ ناانصافی ہو؟
زندہ معاشرے اسی طرح زندگی کا ثبوت دیتے ہیں کہ وہ اپنے احوال پر غور کرتے رہتے ہیں۔ اس غور کے نتیجے میں فکری ارتقا کا عمل آگے بڑھتا ہے۔ ظلم کو سیاسی یا مذہبی حوالوں سے طبقاتی نہیں بنانا چاہیے۔ انصاف ایک قدر ہے اور اقدار کی حفاظت سماج کا کام ہے جو کھڑا ہی نظامِ اقدار پر ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں عدالتوں اور قانون کو بھی سیاسی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ عام آدمی ان کے ہاتھوں جس ظلم کا شکار ہوتا ہے‘ اربابِ اختیار نے اس پر غور کیا نہ سماجی راہنماؤں نے۔ جو سماج انسانی جان کی حرمت کے بارے میں حساس نہ ہو‘ اس کا مستقبل مخدوش ہو جاتا ہے۔ قتل کو ہمارے ہاں کوئی مسئلہ ہی نہیں سمجھا جاتا‘ چاہے وہ کسی عنوان سے ہو۔ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرمت عطا کی‘ اگر انسان اس کو پامال کر دے تو اس کے نتائج نکلتے ہیں اور وہ سنگین ہوتے ہیں۔ سماج میں اس پر بحث لازم ہے کہ ہمارے قانونِ دیت و صلح نے انسانی جان کی حرمت کو قائم کیا ہے یا اس نے قتل کو سہل بنا دیا ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں