"KNC" (space) message & send to 7575

بلوچستان: خدشات اور امکانات

کوئٹہ ویسا نہیں ہے جیسے میں نے خیال کیا تھا۔ اس کا اندازہ مجھے وہاں دو دن گزارنے کے بعد ہوا۔
میرا خیال تھا وہاں سردی اسلام آباد سے زیادہ ہے۔ چمکیلی دھوپ‘ مگر دن بھر اس طرح برستی رہی کہ اس سے پناہ کیلئے سائبان کی ضرورت محسوس ہوئی۔ رات ٹھنڈی تھی مگر یہاں سے کچھ ہی زیادہ۔ ایسی کہ برداشت ہو سکے‘ بس اتنی کہ ایک سویٹر اس پر قابو پا لے۔ پتا چلا کہ سردی میں شدت تو آتی ہے مگر قدرے تاخیر کے ساتھ۔ اس دفعہ توقع کی جا رہی ہے کہ دسمبر کے آخری ہفتے میں اس کی دستک سنائی دے گی۔
میرا خیال یہ بھی تھا کہ شام ہوتے ہی شہر کی سڑکیں ویران ہو جاتی ہوں گی۔ اندھیرا اور دہشت گردی ایک ساتھ یلغارکرتے ہوں گے اور لوگ دبک کے بیٹھ جاتے ہوں گے۔ اس خیال کو پہلی ضرب اُس وقت لگی جب چند احباب نے مجھے رات کے کھانے پر مدعو کیا اور اس کیلئے ساڑھے آٹھ بجے کا وقت رکھا۔ کوئٹہ میں ان دنوں مغرب ساڑھے پانچ بجے کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ گویا یہ غروبِ آفتاب کے تین گھنٹے بعد کا وقت تھا۔ رات گیارہ بجے کے قریب جب میں لوٹ رہا تھا تو بازار میں چہل پہل تھی۔ دکانیں کھلی تھیں۔ یہ میرے خیالات کیلئے دوسری ضرب تھی۔ میں نے اپنے ہم سفر سے پوچھا تو اس نے اسے یہاں کا معمول قرار دیا۔ جس شہر میں آدھی رات تک زندگی رواں دواں رہتی ہو وہاں دہشت کا غلبہ نہیں ہو سکتا۔
میں کوئٹہ پر سارے بلوچستان کو قیاس نہیں کر رہا۔ میرا مشاہدہ چونکہ شہر تک تھا اس لیے میں یہاں کے چشم دید احوال سنا رہا ہوں۔ تاہم یہاں مجھے بلوچستان بھر سے آئے ہوئے یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبہ وطالبات کے ساتھ طویل مکالمے کا موقع ملا۔ اس معلومات افروز مکالمے سے میں نے بہت کچھ جانا۔ اس کا اہتمام بلوچستان کی حکومت اور مرکز نے مل کر کیا تھا۔ نوجوان دل کی بات کر رہے تھے۔ ریاست نے انہیں یہ موقع فراہم کیا تھا کہ وہ بے تکلفی کے ساتھ اپنی بات کریں۔ یہ طالب علم ملک کے دوسرے حصوں میں بھی جائیں گے۔ یہ میل جول کا ایک مستقل پروگرام ہے جس کے اٹھارہ ادوار ہو چکے ہیں۔ ہر دور میں شرکا کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہوتی ہے۔ ان سے مل کر بلوچستان کے دوسرے علاقوں کا کچھ حال معلوم ہوا۔ یہ بھی جانا کہ وہاں کی زندگی کیسی ہے؟ وہاں کا نوجوان کیا سوچ رہا ہے؟
کسی تفصیل میں جائے بغیر‘ میں اپنے اس تاثر میں آپ کو شریک کر سکتا ہوں کہ ریاست کو مجرموں کیلئے خوف اور عام شہریوں کیلئے حفاظت کی علامت ہونا چاہیے۔ امن ایک فطری خواہش ہے۔ عام آدمی امن چاہتا ہے۔ لوگ فطرتاً فساد اور مفسدین کو پسند نہیں کرتے۔ وہ ریاست کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے جان ومال محفوظ رہیں۔ ریاستی نظام کے اندر بھی کوئی اتنا طاقتور نہ ہو جائے کہ قانون اس کے سامنے بے بس دکھائی دے۔ عام شہری کو ریاست سے شکایت ہو سکتی ہے لیکن وہ ریاستی نظام سے بغاوت نہیں کرنا چاہتا۔ ریاست اگر مکالمے کا موقع دے اور جائز شکایات کا ازالہ کرتی رہے تو کوئی بغاوت کبھی پنپ نہیں سکتی۔ اس مکالمے میں شرکت سے مجھے اندازہ ہوا کہ ریاست اس بات کی اہمیت کو سمجھ رہی ہے اور بلوچستان کے عوام کے ساتھ مکالمہ کر رہی ہے۔ ان شاء اللہ اس کا اچھا نتیجہ نکلے گا۔
بلوچستان کے دو روزہ قیام کا ایک اور خوشگوار تجربہ رحمۃ للعالمین یوتھ کلب کے نوجوانوں سے ملاقات تھا۔ قومی رحمۃ للعالمین وخاتم النبیین اتھارٹی نے نئی نسل میں سیرتِ پیغمبرﷺ کے ساتھ شعوری اور عملی وابستگی پیدا کرنے کیلئے تعلیمی ا داروں میں یوتھ کلبز کی بنیاد رکھی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد مطالعۂ سیرت کا شوق پیدا کرنا اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا ہے۔ اس ادارے کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد‘ جب میں نے اس کا آغاز کیا تو میرا خیال تھا کہ سب سے زیادہ مشکل بلوچستان میں پیش آئے گی۔ بلوچستان میں مگر یہ پروگرام جس گرمجوشی کے ساتھ آگے بڑھا اس نے مجھے حیران کر دیا۔ اگر میں یہ کہوں کہ یہ دیگر صوبوں سے آگے نکل گیا تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہو گا۔ چند ماہ پہلے بلوچستان کے سیکرٹری اعلیٰ تعلیم میرے دفتر تشریف لائے۔ مجھے ان کی دینداری اور دیانت کا تو علم تھا لیکن قوتِ عمل کا اندازہ نہیں تھا۔ ان سے جب اس پر بات ہوئی تو انہوں نے اتنی سرعت کے ساتھ اس کو آگے بڑھایا کہ حیرت کا ایک باب کھل گیا۔ ہم نے بلوچستان حکومت کے ساتھ مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے جس میں وہاں کی تمام جامعات اور کالجوں میں یوتھ کلب کا قیام شامل تھا۔
ابتدا ایک فلاحی ادارے کے زیر اہتمام بننے والے تعلیمی اداروں سے ہوئی۔ کم وبیش نصف صدی پہلے فضلِ حق میر مرحوم جیسے کچھ مخلص لوگوں نے اس ادارے کی بنیاد رکھی اور آج اس کے گیارہ عظیم الشان ادارے موجود ہیں۔ اس کے ذمہ داران نے اتھارٹی اور کلبز کیلئے اپنے سب دروازے وا کر دیے۔ نومبرمیں رحمۃ للعالمین یوتھ کلبز نے اقبال اکیڈمی کے ساتھ مل کر تین دن کی عظیم الشان بین الاقوامی اقبال کانفرنس کا اہتمام کیا۔ اس میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر سے ماہرینِ اقبال شریک ہوئے۔ بنگلہ دیش سے آنے والے مہمانوں کا جس طرح استقبال ہوا اس سے معلوم ہوا کہ اقبال کے تصورِ پاکستان کو زوال نہیں۔ یہ سب پروگرام تعمیرِ نو کے ایڈیٹوریم میں ہوئے اور مہمان نوازی کا فریضہ بھی ٹرسٹ اور رحمۃ للعالمین یوتھ کلبز کے ذمہ داران نے ادا کیا۔ میں محمد نسیم صاحب اور ٹرسٹ کے دیگر ذمہ داران سے ملا۔ جس گرمجوشی کے ساتھ وہ نوجوانوں میں نبی کریمﷺ اور پاکستان کے ساتھ وابستگی پیدا کر رہے ہیں‘ اس کا اندازہ نوجوانوں سے مل کر ہوا۔ میں جس تقریب میں شریک تھا یہ کئی یوتھ کلبز کے ممبران کی حلف برداری کیلئے تھی۔ اس کا دائرہ اب دوسرے تعلیمی اداروں تک پھیل رہا ہے اور بلوچستان کے سیکرٹری اعلیٰ تعلیم کی صلاحیت اور جذبے سے پوری امید ہے کہ رحمۃ للعالمین یوتھ کلب بہت جلد یہاں کے نوجوانوں کا ایک مؤثر اور متحرک فورم بن جائے گا۔
یہ سب کچھ بھی میرے اندازے کے خلاف تھا۔ بلوچستان اور کوئٹہ کے بارے میں یہ تاثر پھیلایا جاتا ہے کہ جیسے وہاں سب علیحدگی کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ تعمیرِ نو ٹرسٹ‘ رحمۃ للعالمین یوتھ کلب اور بلوچستان کے سیکرٹری اعلیٰ تعلیم جیسے افسروں کا وجود بتا رہا ہے کہ اسلام اور پاکستان سے محبت رکھنے والے بھی پوری طرح متحرک ہیں اور ملک کے دوسرے حصوں کی طرح بلوچستان بھی پاکستان سے جڑا ہوا ہے۔ دہشت گردی ہے مگر اسے عوامی تائید حاصل نہیں۔ رحمۃ للعالمین اٹھارٹی کا پیغام 'رحمت سب کیلئے‘ بلوچستان میں پھیل رہا ہے۔ پاکستان اللہ کی رحمت ہے اور یہ رحمت مراعات اور سہولتوں کی صورت میں بلوچستان کے ہر حصے تک پہنچے گی۔
میرا قیام طویل نہیں تھا مگر بھرپور ضرور تھا۔ بلوچستان میں اگر کچھ علیحدگی پسند اور دہشت گرد متحرک ہیں تو اس کے ساتھ ریاستی اور سماجی سطح پر وہ قوتیں بھی اس کا بھرپور جواب دے رہی ہیں جو اسلام اور پاکستان کی بات کرتی ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلے۔ اگر مثبت اندازِ نظر کی اشاعت کے ساتھ نوجوانوں اور ریاست کے مابین یہ مکالمہ جاری رہا توان شاء اللہ پاکستان کا ہر حصہ امن کا گہوارہ بنے گا۔ جو لوگ ریاست کے خلاف بغاوت کریں اور ہتھیار اٹھائیں ان سے نمٹنے کیلئے ریاست طاقت کے استعمال کا حق رکھتی ہے۔ رہا بیانیہ تو اس کا جواب بیانیے سے دینا ہوگا۔ درست شکایات کا ازالہ کرنا ہو گا اور پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہوگا۔ یہ کام فکری اور سماجی سطح پر ہوگا۔ ہمیں دونوں محاذوں پر متحرک ہونا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں