"KNC" (space) message & send to 7575

فاتح کون؟

وہی ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ دکھ ہے‘ افسوس ہے‘ تشویش ہے مگر حیرت نہیں۔
یہ سب نوشتۂ دیوار تھا۔ ہیجان تھا اور روز افزوں تھا۔ غصہ تھا اور بے قابو تھا۔ صبر کا پیمانہ کسی وقت چھلک سکتا تھا۔ کم ظرفوں کا پیمانہ بہت پہلے چھلک اٹھا تھا ۔جن کا ظرف بڑا تھا‘ انہوں نے دیر کی۔ یہاں تک کہ وہ دن آ پہنچا جس کی آمد پر ہم کفِ افسوس مل رہے ہیں۔ تاریخ شرمندہ ہے کہ ہمیں کچھ سکھا نہیں سکی۔ عقل ودانش انگشت بدنداں ہیں کہ کوئی ایک سوراخ سے اتنی بار کیسے ڈسا جا سکتا ہے۔
دوسروں کو مسخر کر نے کی خواہش ہو تو پہلے خود کو تسخیر کرنا پڑتا ہے۔ جو حریمِ ذات کو فتح نہ کر سکے‘ وہ دوسرے کا قلعہ کیسے مسمار کرے گا؟ اگر یہ انہونی ہو بھی جائے تو وہ تعمیرِ نو کا جذبہ کہاں سے لائے گا۔ یوں وہ بربادی کی علامت تو بن سکتا ہے‘ آبادی کی نہیں۔ عہدے‘ منصب‘ مقبولیت‘ عصبیت‘ ان کی بڑی اہمیت ہے مگر ان سے کہیں زیادہ اس آزمائش کا احساس ہے جو اِن سے جڑا ہوا ہے۔ اسی لیے بڑے مناصب تک پہنچنے کے لیے بڑی تربیت اور ریاضت سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایک مسلمان کے لیے سب سے بڑا احساس خدا کے حضور میں جوابدہی ہے۔ یہ احساس مسلسل تذکیر کرتا ہے کہ ہر نعمت اور ہر منصب آزمائش ہے۔ اس آزمائش پر وہی پورا اتر سکتا ہے جو اپنی ذات سے بلند ہو کر مقامِ عبدیت پر فائز ہو جاتا ہے۔ وہی مقام ہے جس کے لیے اقبال شانِ خداوندی کو بھی قربان کرنے پر آمادہ ہیں۔
یہ وہ مقام ہے جہاں خود پسندی‘ خود غرضی اور نرگسیت کا گزر نہیں ہوتا۔ جہاں انسان کا شعور اتنا بلند ہو جاتا ہے کہ وہ اصول اور مصلحت‘ عزتِ نفس اور انا‘ بہادری اور حماقت‘ ایثار اور خود غرضی‘ تکبر اور خودی کا فرق جان لیتا ہے۔ اس مقام پر طاقت عاجزی میں ڈھل جاتی ہے۔ اختیار پر ذمہ داری کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق گہرا ہو جاتا ہے۔ شب بیداری معمول اور خود احتسابی چلن بن جاتی ہے۔ جو اس کا خوگر بن جائے‘ وہ ملک وقوم اور دوسروں کے جان ومال کو شخصی مفاد یا ذاتی انا کی بھینٹ نہیں چڑھاتا۔ عمرؓ ابن خطاب کو اسی لیے اپنوں اور بیگانوں نے عظیم حکمران مانا ہے کہ انہوں نے دنیا کو فتح کرنے سے پہلے ذات کے قلعے کو فتح کیا تھا۔ وہ قصرِ خلافت میں بھی اُن دنوں کو یاد کرتے تھے جب وہ بکریاں چرایا کرتے تھے اور ان کے باپ کی لاٹھی ان کی پیٹھ سے جڑی رہتی تھی۔ وہ اپنی کامیابیوں کو شخصی کمال کے بجائے خدا کا کرم سمجھتے تھے۔
سیاست کے کچھ آداب ہیں۔ یہ آداب صدیوں کے تجربات کا حاصل ہیں۔ سیاست میں مکالمہ ہوتا ہے۔ دوسروں کے وجود کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ خود کو ایک الگ اور برترمخلوق سمجھنا ان جمہوری اقدار کے بھی منافی ہے‘ سیاستِ دوراں جن کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ مسلمان کے لیے تو یہ معاملہ مزید نازک ہے۔ ختمِ نبوت کے بعد کسی فرد یا گروہ کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ وہ مامور من اللہ یا زمین پر حق کی تنہا علامت ہے‘ اپنے ایمان کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ ترجیح کا حق ہم رکھتے ہیں لیکن اس کی بنیاد بھی ہمارا گمان ہے۔ گمان کی بنیاد پر حق وباطل کے فیصلے نہیں ہوتے۔ سیاست کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ پہلے سیاست کے آداب سیکھیں۔ اہلِ سیاست سے مکالمہ کریں۔ آپ اکثریت میں ہو سکتے ہیں لیکن سماج کے تنہا نمائندہ نہیں ہو سکتے۔ دوسرے موجود ہیں اور آپ کو ان کے وجود کو تسلیم کرنا ہو گا۔
اختیار واقتدار کے بھی کچھ آداب ہیں۔ اختیار زیادہ ذمہ داربناتا ہے۔ دوسروں کے بارے میں آپ زیادہ حساس ہو جاتے ہیں۔ آپ ہر لمحہ سوچتے ہیں کہ اختیارات کا ناجائز استعمال تو نہیں کر رہے۔ کسی پر ظلم کے مرتکب تو نہیں ہو رہے۔ اختیار والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے لیے عمرؓ ابن خطاب جیسے لوگ ایسی مثالیں چھوڑ گئے ہیں کہ آپ کے لیے اقتدار واختیار کانٹوں کی سیج ہے۔ آپ کے پاس اختیار ہے تو پھر دوسروں کو نصیحت کرنے سے پہلے اپنے آپ کو نصیحت کریں۔ ہر گھڑی خبردار رہیں کہ قانون کا اطلاق کرتے وقت آپ کسی ناانصافی کے مرتکب تو نہیں ہو رہے۔
اہلِ اقتدار کو سیاسی بصیرت کی ضرورت دوسروں سے زیادہ ہے۔ انہیں یہ بنیادی بات معلوم ہونی چاہیے کہ جب کسی گروہ یا فرد کو سیاسی عصبیت حاصل ہو جاتی ہے تو پھر اس کے خلاف ریاست کی طاقت کا استعمال خود ریاست کے مفاد میں نہیں ہوتا۔ ہم نہیں جانتے کہ اس معاشرے میں منافق کون ہے۔ اللہ کے آخری رسولﷺ کو مگر بتا دیا گیا تھا کہ مدینہ میں منافق کون ہیں۔ صحابہ ان کی حرکتوں کے باعث انہیں پہچانتے تھے اور ان کے سردار کو بھی۔ اس کی شرارتوں نے نبیﷺ کو شدید پریشان کر رکھا تھا۔ اس کی جسارت کی یہ انتہا تھی کہ اس نے اپنا ناپاک ہاتھ ام المومنین کی چادرِ عصمت کی طرف بڑھایا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کی مذمت کی۔ ریاستِ مدینہ کے والیؐ نے مگر اس کے خلاف ریاست کی طاقت استعمال نہیں کی۔ سبب یہ تھا کہ اسے سیاسی عصبیت حاصل تھی اور اس کے خلاف طاقت کا استعمال ریاست کے استحکام کو خطرے میں ڈال سکتا تھا۔
اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے اہلِ سیاست کو اس کا ادراک سب سے زیادہ ہونا چاہیے۔ میں ان کے مخمصے کو سمجھ سکتا ہوں۔ ان کا سامنا ایک ایسے ذہن سے ہے جو غیر سیاسی اور نرگسیت کا مارا ہے۔ اس نے ایک کلٹ کی صورت اختیار کر لی ہے۔ کوئی دلیل کلٹ پر کارگر نہیں۔ اس نے مکالمے کا ہر دروازہ بند کر رکھا ہے۔ وہ اپنی ذات کے قلعے میں محصور ہے۔ ایسے آدمی کو سیاسی عمل کا حصہ بنانا آسان نہیں۔ اہلِ اقتدار کا امتحان مگر یہی ہے۔ انہیں اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ اور سیدنا عمرؓ کی سیرت کا خصوصی مطالعہ کرنا چاہیے۔ اگر توفیق اور فرصت ملے تو وہ دنیا کے دوسرے کامیاب حکمرانوں کی سوانح عمری ضرور پڑھیں۔ دنیا کا کامیاب حکمران وہی تھا جس نے اپنے غصے پر قابو پایا‘ اپنے مخالفین کی نفسیات کو سمجھا اور انہیں اپنا ہمنوا بنایا۔
دوسروں کے وجود کو مٹانے کی خواہش غیر فطری ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سکیم کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بتایا ہے کہ اس نے لوگوں کو سوچنے اور رائے قائم کرنے کا حق دیا ہے۔ یہ حق ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ وہ دنیا میں کسی گروہ کو اتنا مضبوط نہیں ہونے دیتا کہ وہ دوسروں کو ختم کر سکے۔ بدقسمتی سے آج اقتدار کی کشمکش میں دوسروں کے وجود کو مٹانے کی خواہش کا غلبہ ہے۔ غصہ ہے اور ہیجان ہے۔ نفسیات کے ماہرین کا اصرار ہے کہ غصے میں کیے گئے فیصلے درست نہیں ہوتے۔ امریکہ میں 'سکس سیکنڈ‘ کے نام سے ایک ادارہ ہے جو جذباتی ذہانت سے متعلق ہے۔ اس کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ غصہ آ جائے تو چھ سیکنڈ تک کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ ملک اورعوام کے مستقبل کے فیصلے ہیجان اور غصے میں نہیں کیے جا سکتے۔ غصے میں غلطی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
عمرؓ ابن خطاب کی کہانیاں سنانا آسان ہے‘ ان کے نقشِ قدم پر چلنا مشکل ہے۔ نیلسن منڈیلا کا نام لینا آسان ہے‘ بن کر دکھانا مشکل ہے۔ اس کے لیے اپنی ذات سے بلند ہونا ضروری ہے۔ بہادر وہی ہے جو اپنی ذات کا قلعہ فتح کر لے۔ جو اپنے غصے پر قابو پا لے۔ امام غزالی کا فرمان ہے کہ جو لوگ اپنے غصے کو قابو میں رکھتے ہیں‘ ان کی صورت صالحین اور علما سے ملتی ہے۔ امام نے 'احیاء العلوم‘ میں سیدنا سلیمان بن داؤد علیہما السلام کی بیٹے کو نصیحت نقل کی ہے کہ 'غصہ بردباد آدمی کو ہلکا کر دیتا ہے‘۔ یہ اہلِ سیاست ہوں یا اہلِ اقتدار‘ سب کو درپیش اصل چیلنج یہی ہے کہ وہ ذات کی گرفت سے کیسے نکلتے ہیں۔ مقابلہ یہ نہیں ہے دوسروں کو زیر کون کرتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ خود کو زیر کون کرتا ہے۔ اس معرکے کا اصل فاتح وہی ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں