"RBC" (space) message & send to 7575

نئے سال کی آمد

گردشِ چرخ کبھی رُکی ہے نہ رکے گی۔ یہ دن رات کا حساب‘ طلوعِ آفتاب‘ رات کو ستاروں کی چمک اور پھر ماہِ تمام کا آہستگی سے شفق رنگ کی چادر سے باہر جھانکنا‘ سب وقت کی قید میں ہے۔ ہم بھی اس سے آزاد نہیں۔ مگر اس کا ادراک زندگی کی رونقوں‘ خرابیوں‘ خوشیوں اور غموں میں ہمیں رہتا نہیں۔ دن‘ ہفتے اور ماہ وسال یونہی گزرتے جاتے ہیں۔ زندگی کا سب سے بڑا راز وقت ہے‘ اور ابھی تک اس کا بھید کوئی نہیں پا سکا۔ اگرچہ دعوؤں کی اس بارے میں کمی نہیں۔ وقت اور زندگی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جب زندگی نہ رہے تو وقت اسی وقت‘ سانس رکتے ہی‘ ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے تو کچھ سیانے کہتے ہیں وقت کو روک لو‘ اس میں زندہ رہو۔ پھر اس کیلئے وقتِ موجود کا شعور بھی تو لازمی ہے۔ بعض اوقات یہ نظریہ بھی کھوکھلا محسوس ہوتا ہے‘ جب تک زندگی کی مقصدیت کو اس میں شامل نہ کیا جائے۔ اب ایک مقصد تو نہیں ہو سکتا۔ انسان اپنی خواہشات‘ آرزوئوں اور عزائم کا بندہ ہے۔ جتنا دانشوروں‘ لکھاریوں اور خوش باش زندگی گزارنے کے گروئوں نے جدید معاشروں میں کمایا ہے‘ شاید ہی کسی اور صنف کے قلمکاروں نے ایسا کیا ہو۔ ذاتی طور پر میری آگاہی اس علمی دھارے سے اوائلِ زندگی میں ہوئی جب میں نویں جماعت میں تھا۔ ڈیل کارنیگی کی کتاب‘ جو اُس زمانے میں لاکھوں میں بک چکی تھی‘ اور اس کا ترجمہ اردو میں ملا: ''پریشان ہونا چھوڑیے‘ زندہ رہنا شروع کیجیے‘‘۔ اب اس موضوع پر کتابوں کا ایک ذخیرہ ہے اور ہر نئی کتاب آنے پر خریدنے کو جی کرتا ہے۔ کمال یہ ہے کہ نکتہ ایک ہی‘ مگر ہر ایک کا اندازِ بیاں اور زندگی گزارنے کے فن کی حکمتِ عملی بالکل مختلف ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ کامیاب زندگی کا آخر گُر یا جوہر کیا ہے؟ ایک نکتے کی بات کی جائے تو وہ ہے اطمینان‘ سکون‘ اپنے آپ سے صلح نامہ۔ خوشی اور دائمی خوشی کے چشمے اسی صلح نامے سے پھوٹتے ہیں۔
اب بات آتی ہے کہ یہ راضی نامہ کیسے مرتب ہو گا‘ کیونکر ممکن ہو سکے گا جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس تیز رفتار صنعتی دور میں‘ اور ہمارے جیسے ملکوں میں مسائل کے انبار میں نفسا نفسی کا عالم ہے۔ بے چینی ہے اور مسابقت کا میدان سجا ہوا ہے۔ ایک طرف سماجی اور قومی ماحول کا جبر‘ دوسری طرف ذہنی سکون کی خواہش‘ یہ بھلا کیسے ممکن ہو گی۔ جواب سادہ سا ہے۔ عاجزی! ہمیں وہ کچھ کرنا چاہیے جو ہم کر سکتے ہیں‘ اور وہی پیشہ اختیار کرنا چاہیے جو ہمارا دل کرتا ہے۔ یہ جو ہمارے زمانے کے والدین بچوں پر جبر کرتے ہیں کہ یہ بننا ہے اور یہ نہیں بننا‘ اور کچھ بنانے کیلئے وہ ذرائع استعمال کریں جو زندگی بھر پورے خاندان کیلئے احساسِ جرم میں بدل جائے تو سکون اور اطمینان کہاں سے آئے گا۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ آدمی کا ضمیر کب مردہ ہو جاتا ہے‘ اگر ایسا ممکن ہے‘ میرے خیال میں یہ انسان کے ساتھ اس کی روح تک قائم رہتا ہے‘ اس لیے ضروری ہے کہ اس کی آواز سنی جائے۔ اسے دبانا اپنے آپ کو ختم کرنے کے مترادف ہو گا۔ آپ کو الٹی سیدھی باتوں میں پھنسانا مقصود نہیں‘ نہ ہی ادق فلسفوں میں الجھانے کی نیت ہے۔ بات سیدھی ہے! آپ اور میں ایک وقت‘ تہذیب اور سماج کی پیداوار ہیں۔ اس کے اندر ہی ہم رہتے ہیں اور ان کی حدود وقیود سے آزاد نہیں۔ اس سے بغاوت بھی اصولوں اور نظریوں کے حوالے ہی سے ممکن ہے۔ ایک نئی‘ یکسر مختلف اخلاقیات پیدا کرنے کی کاوش کو ہم نے وقت کے کوڑے دان ہی میں گرتے دیکھا ہے۔ جائزیت اور عدم جائزیت کا تصور مذہب اور تہذیب میں موجود ہے۔ اگر دونوں کی قید سے نکل کر کوئی اور راستہ اختیار کرتا ہے تو وہ جانیں اور ان کا کام۔ ہمیں ان کے شخصی رجحانات کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے کا اخلاقی حق نہیں۔ ہمارے معاشرے کے کئی بڑے المیوں میں سے ایک‘ جو سب سے بڑا مجھے نظر آتا ہے‘ وہ دوسروں کے طرزِ زندگی کے بارے میں فیصلے اور فتوے جاری کرنے کی روش ہے۔ کبھی کبھار تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ آدمی دوسرے کو جج کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھائی! اپنے کام سے کام رکھیں۔ دوسروں کے کاموں‘ ناموں اور کارناموں میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔
کبھی حکیم لقمان کے بیٹے کے حوالے سے آٹھ باتیں لکھی تھیں‘ جو سید بابر علی کی طرف سے مجھے تحفے میں ملیں‘ اور دیوار پر سجائے رکھی ہیں۔ ان میں ایک یہ ہے کہ دوسرے گھروں میں جائیں تو اپنی نظر کو نیچے رکھیں۔ مطلب یہ ہے کہ دوسروں کے گھروں میں پڑی چیزوں‘ چمک دمک‘ فراوانی اور امارت نہ آپ کو مرعوب کرے‘ اور نہ ہی آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو کہ آپ کیلئے بھی یہ سب کچھ حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس دیکھا دیکھی‘ نمائشی زندگی اور دولت کے سہارے دوسروں کو نیچا دکھانے کی نئی ثقافت جلدی تبدیل ہوتے معاشروں میں پیدا ہو چکی ہے۔ سچا اور پکا آدمی تو وہ ہے جو کچھ اس کے پاس ہے اس پر خوش ہے‘ جو کر سکتا ہے اس پر راضی ہے‘ جو زندگی میں بن سکا ہے اس پر مطمئن ہے۔ اگر یہ نہیں تو بیشک آپ ارب اور کھرب پتی بن جائیں‘ آپ کی نظر دوسروں کی پلیٹ پر ہو گی‘ اپنے پاس سب کچھ راکھ ہی معلوم ہو گا۔ میں نے بڑے بڑے دولتمند لوگوں کو بے سکون اور شکایتیں کرتے‘ اور مالی لحاظ سے مفلوک الحال درویشوں کو پُرسکون‘ خوش اور بھرپور زندگی گزارتے دیکھا ہے۔ مقابلہ بازی جہاں بھی نمایاں نظر آئے‘ ہمارا جی وہاں سے فوراً ڈرپوک پرندے کی طرح اُڑ کر کہیں دور‘ کسی اور پیڑ پر بیٹھنے کی خواہش کرتا ہے۔ یہ رجحان ہم نے سیاست اور مذہب کی گفتگو میں بھی دیکھا ہے۔ ہر ایک افلاطون اور مجتہد بن کر دوسرے کو اکھاڑنے‘ پچھاڑنے میں مصروفِ عمل ہے۔ یہ دو ایسے موضوع ہیں جن کے بارے میں محفلوں میں بحث کر کے آپ آسانی سے اپنا ذہنی سکون برباد کر سکتے ہیں۔ یہ سب بیکار لوگوں کی بیکار باتیں ہیں۔
نام تو یاد نہیں آ رہا کہ وہ کون سا ماہرِ نفسیات تھا جس نے کہا تھا کہ کامیاب اور خوشگوار زندگی گزارنے کیلئے علم‘ کام اور محبت ضروری ہے۔ ان میں کوئی تخصیص نہیں کہ کون سا علم‘ کون سا کام اور کون سی محبت۔ محبت تو جنگلوں‘ صحرائوں‘ بیابانوں‘ دریائوں اور قدرتی مناظر سے بھی ہے۔ کام زندگی کی منصوبہ بندی سے بھی۔ ہر روز کی‘ ہر سال کی اور ہر ہفتے کی۔ اگر یہ ترتیب نہیں‘ اور اس کے پیچھے کوئی مقصد نہیں‘ تو پھر بے شعور مخلوقات کے سال بھی گزر جاتے ہیں۔ حقیقی خوشی تو اپنا طے شدہ کام روزانہ کے معمولات کے مطابق انجام دینا ہے۔ اگر بے سمتی ہے تو پھر کچھ پتا نہیں کہ کھانا کب ہے‘ سونا اور آرام کرنا کب ہے‘ اور ملنا جلنا کب۔ اب پرانے دوستوں سے فون کرنا بھی ممکن نہیں رہا کہ کیا پتا وہ سو رہے ہوں‘ مصروف ہوں۔ کھانے پینے اور سونے اٹھنے کے ہمارے پرانے طور طریقے آج کل کے لوگوں سے میل نہیں کھاتے۔ میں نے دنیا ایک عام پاکستانی کی نسبت کہیں زیادہ دیکھی ہے۔ خوش‘ صحتمند اور کامیاب لوگ وہ نظر آئے جن کی زندگی میں نظم وضبط تھا‘ قناعت تھی‘ اپنے آپ سے خوش تھے۔ کبھی منہ پر شکایت نہ تھی۔ نہ وہ کسی غیر موجود شخص کے بارے میں بات کرتے تھے اور نہ ہی کسی موجود شخص پر سبکی‘ تنقید اور رائے زنی کے وار کرتے تھے۔ ایسے دوست نجانے ہم دنیا کے کس حصے میں چھوڑ آئے۔ اب کہیں بھاگ بھی نہیں سکتے۔ سن لیتے ہیں بہت کچھ‘ مگر پھر ایک اور بات بھی زمانے نے سکھا دی ہے کہ برداشت کریں‘ نظر انداز کریں‘ اور اس طرح آپ اپنے آپ کو دوسروں کی تیر اندازی سے آزاد کر لیں۔ باتیں تو آج بہت کرنے کو جی چاہتا ہے کہ یہ سال کے آخری ایام ہیں‘ نئے سال کی آمد آمد ہے۔ میں اب جاتے سال کے آخری دن کی شام سورج کو ڈھلتے دیکھتا ہوں۔ وقت اور فطرت اپنی رفتار اور رعنائیوں کے ساتھ کئی اشاروں سے ہمیں ہم آہنگ ہونے کے دعوت نامے روزانہ بھیجتے ہیں۔ آپ کیلئے خواہش اور دعا ہے کہ آپ انہیں نئے سال کی آمد سے پہلے وصول کر لیں......نیا سال مبارک!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں