دنیا کے بیشترممالک میں قومی اداروں کی نیلامی کو ریاستی ناکامی سمجھا جاتا ہے کیونکہ ریاست کسی آدمی کا نام تو ہوتا نہیں کہ جس کے لش پش سوٹ‘ بھاری پروٹوکول‘ ادائوں اور گفتگو کو دیکھ کر فیصلہ کیا جائے کہ ریاست کامیاب ہے یا ناکام۔ آبرومند ریاست قومی اثاثوں کے نیلام کو اجتماعی شرمندگی کی علامت سمجھتی ہے۔ پی آئی اے جیسے لینڈ مارک اداروں کو بچانے کے لیے حکومتیں‘ اگر وہ نمائندہ ہوں تو اپنے سیاسی سرمائے اور عوامی حمایت کو دائو پر لگانے سے دریغ نہیں کرتیں۔ پاکستان دنیا کا شاید اکلوتا ایسا ملک ہے جہاں قومی اثاثے بیچنے کو ٹرافی بنا کر اشتہارات کے ذریعے اس سودے بازی پر فخر کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کیا پی آئی اے کی سودے بازی قوم کے لیے ایک ''دلکش پیکیج‘‘ ہے؟ اسے سمجھنے کے لیے آئیے پچھلے چند مہینوں پہ نظر ڈالتے ہیں۔
پی آئی اے سیل کی تیسری حقیقت: قوم گئی کھوہ کھاتے‘ محض حکومتی معیشت کو دھکا لگانے کیلئے اپریل کے آخر تک‘ فارم 47 حکومت نے 66 ہزار ارب روپے کا اضافی قرض لیا۔ اکانومی اور قرض کے بلیک ہول کا اندازہ لگانے کے لیے سرکاری دستاویز گواہی دیتی ہیں کہ محض 31 دن میں یہ قرض بڑھ کر 67 ہزار 816 ارب روپے سے بھی اوپر اُٹھ گیا۔ ہائبرڈ رجیم نے ایک ماہ کے کم ترین عرصے میں ایک ہزار 733 ارب روپے قرض لینے کا نیا ریکارڈ قائم کیا۔ اس حساب سے یہ رجیم روزانہ 56 ارب روپے سے زیادہ قرضہ لیتا پایا گیا۔ ایسے میں کوئی پوچھنے والا ادارہ یا نظام نہیں جو یہ سوال کر سکے کہ اتنا بڑا قرضہ کیوں لیا جا رہا ہے۔ یہ بھی کہ قرض کے پیسے آخر جا کہاں رہے ہیں۔ پی آئی اے کی لیبر تنظیموں کے عہدیداروں کا دعویٰ ہے کہ اس ادارے نے 13 جہازوں کے ساتھ پچھلے سال 26 ارب روپے کا منافع کمایا۔ PIA سیل کی تیسری حقیقت جاننے کے لیے ہمیں سال 2006ء میں واپس جانا ہوگا‘ تب کراچی میں کامیابی سے چلنے والی جاودان سیمنٹ پلانٹ نامی ایک سرکاری کمپنی اسی طرح سے فروخت کی گئی تھی جس طرح آج PIA کی لوٹ سیل ہوئی ہے۔
اسے آپ محض اتفاق کہہ لیں کہ تب کے سیمنٹ کمپنی کے بڑے خریدار آج کی پی آئی اے کے خریدار تھے۔ دستاویزات بتاتی ہیں کہ سیمنٹ فیکٹری 4.315 ارب روپے میں پرائیویٹائز کر کے بیچی گئی۔ اس میں ایک ہزار ٹن سیمنٹ روزانہ بنتا تھا۔ سیمنٹ فیکٹری کی ملکیت میں کل رقبہ 1200 ایکڑ تھا۔ اس کے علاوہ فیکٹری سے ملحقہ سندھ صوبائی حکومت کی ملکیت زمین کا 3188 ایکڑ رقبہ لائم سٹون مائننگ کے لیے فیکٹری کے پاس لمبی لیز پر تھا۔ 2006ء میں سیمنٹ فیکٹری کے پرائیویٹ مالکان نے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد تین سال کے اندر سیمنٹ کی پروڈکشن بند کر دی جس کے دو‘ ڈھائی سال بعد 2012ء میں سیمنٹ فیکٹری کے مقام پر ایک ہائوسنگ سکیم کا اعلان ہوا جس میں درج بالا دونوں رقبے شامل کر کے 4388 ایکڑ پر ہائوسنگ سکیم قائم کر دی گئی۔ سادہ تقسیم کے مطابق اس سکیم میں کنال کے 35 ہزار 104 پلاٹ بنے۔ یہاں ایک دلچسپ ٹوِسٹ تب آیا جب سندھ حکومت نے ناظم آباد کے ڈپٹی کمشنر کے ذریعے 3188 ایکڑ رقبے پر قبضہ واگزار کروانے کی کوشش کی‘ جس پر ہائیکورٹ نے سٹے آرڈر جاری کر دیا۔ ہمارے شفاف نظام کا شکریہ! سٹے آرڈر اور ہائوسنگ سکیم کی ڈویلپمنٹ‘ دونوں ساتھ ساتھ چلتے رہے اور سکیم اب مکمل ہو چکی ہے۔
اندازہ لگائیے کہ خریدار نے کراچی شہر کے بیچوں بیچ 116 ایکڑ مزید رقبے پر ملکیت کا دعویٰ دائر کر کے اُس پر بھی سٹے آرڈر لے لیا۔ یوں سیمنٹ فیکٹری کے خریدار نے 4504 ایکڑ رقبہ کل 413 کروڑ روپے میں حاصل کر لیا۔ اربوں روپے کی مشینری کی پھکی بھی حکومتِ پاکستان کو پڑی۔ اُس وقت کے میڈیا آرکائیو بتاتے ہیں کہ سیمنٹ فیکٹری بیچنے کے بعد یہی نعرہ لگایا گیا تھا کہ یہ پاکستان کی جیت ہے۔ پی آئی اے میں کیش ری سائیکلنگ کے بعد پھر سے 'یہ پاکستان کی جیت ہے‘ کا نعرہ بلند ہوا ہے۔ ان دو نعروں نے ولیم شیکسپیئر یاد کروا دیے‘ جن کا کہنا ہے ''ہمارے ستارے بدقسمتی کی نشانی نہیں، بدبختی کو دعوت ہم خود دیتے ہیں‘‘۔
ان حالات میں بہت ضروری ہے کہ پرائیویٹائزیشن ڈویژن آگے بڑھے اور سودے کی تفصیلات پبلک کرے۔ صرف سٹیٹ مشینری سے پروپیگنڈا کے ذریعے اسے پاکستان کی فتح بنا کر نہ پیش کرے۔ ہمارا سابقہ T&T کی پرائیویٹائزیشن کا تجربہ ابھی تک ہمارا منہ چڑا رہا ہے۔ یو اے ای نے T&T کو پرائیویٹائزیشن سے خریدا اور اس کی سیل سے حاصل ہونے والے 2.1 ارب ڈالر ابھی تک پاکستان کو وصول نہیں ہو سکے۔ اس عدم وصولی کی واحد وجہ یہی سمجھ آتی ہے کہ پاکستانی فیصلہ سازوں کی بلیک منی سے دبئی میں انویسٹمنٹ ہے۔ اگر کوئی وصولی کے لیے زور لگائے تو اگلے دن اس کی جائیدادیں پبلک ہو سکتی ہیں۔ خوف کے اس بت نے پاکستان کے ہاتھوں میں کشکول تھما دیا بلکہ ملک کو اس قابل بھی نہیں چھوڑا کہ کسی معاہدے کی بقایا رقم ہی مانگ سکے‘ جو سو فیصد درست اقدام ہوگا۔
پی آئی اے سیل کی چوتھی حقیقت: پرائیویٹائزیشن کے نام پر قومی اداروں کی لوٹ سیل کا طریقہ اپنانے کی وجہ آئی ایم ایف کا پریشر بتایا گیا ہے۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کیا آئی ایم ایف نے کہا تھا کہ اتنا بڑا قومی ثاثہ محض 10 ارب روپے کے Cash inflow کے لیے پھونک ڈالو۔ سوال یہ بھی ہے‘ کیا چار ارب روپے فیس والے کنسلٹنٹس بھی آئی ایم ایف نے بھیجے تھے؟ ایسا ہرگز نہیں! جس طرح سے پی آئی اے اٹھا کر پھینکی گئی ہے اسے آئی ایم ایف کی ریفارم بالکل نہیں کہا جا سکتا‘ بلکہ معیشت کی زبان میں ہم اسے مارکیٹ ڈسپلن بھی نہیں کہہ سکتے۔ یقینا اسے پاکستان کے ایلیٹ مافیا اور قومی وسائل پر قابض گروہ کیلئے تخلیق کی گئی نئی Rulebook کہا جائے گا۔ ایک ایسی رُول بک جو حکومتِ پاکستان کی بین الوزارتی گورننس چلانے کے لیے رولز آف بزنس سے ماورا ہے اور پبلک کے لیے نامعلوم بھی۔ اس کی ایک اور تازہ مثال اسحاق ڈار کی پریس کانفرنس سے دو دن پہلے ہی سامنے آئی‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دستور اور دستوری قوانین کے بجائے پاکستان اکڑ بکڑ کے اصول پر چلایا جا رہا ہے۔ نامعلوم قانون کے تحت بنائے گئے نائب وزیراعظم کا پرائیویٹائزیشن سے دور دور تک کا بھی کوئی تعلق واسطہ نہیں‘ اس کے باوجود موصوف نے کہا ہے کہ ہم یو اے ای کو ایک ارب ڈالر کا قرض واپس کرنے کے بجائے فوجی فرٹیلائزر کے 20 فیصد شیئرز آفر کر رہے ہیں۔ اس طرح کی ماورائے دستور پالیسی سے ملک کے لیے بڑے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس سے قبل پنجاب کے سیاست کاروں کی شوگر ملوں میں بھارت کے کاریگروں کی خبریں آتی رہی ہیں۔ مڈل ایسٹ کے کچھ ممالک نے اسرائیل تسلیم کیا ہوا ہے۔ سمجھ میں آنے والے بات یہ ہے کہ عرب شیوخ نے آکر ان اداروں میں نہیں بیٹھنا۔ اُن کے ملازم آئیں گے جو بظاہر گورے ہوں گے اور ہمارے پاس اُن کی نیشنلیٹی پوچھنے کی ہمت کہاں۔
ہائبرڈ سسٹم مشینی نظام کا نام ہے۔ بقول شاعر:
لعنتیں یوں تو مشینوں کی بہت ہیں لیکن
لعنتیں صرف مشینوں سے نہیں اُگتی ہیں
ان میںاس ملک کا بھی ہاتھ ہوا کرتا ہے
جس میں کچھ لوگ خود اپنی ہی بقا کی خاطر
دوسرے لوگوں کے انفاس چرا لیتے ہیں
اور اس دوڑ کی رفتار میں اندھے ہو کر
قحط پڑتا ہے تو کھلیان جلا دیتے ہیں