کیسے کیسے لوگ!!!

تھامس ہارڈی (Thomas Hardy) ایک مشہور برطانوی شاعر اور ناول نگار تھا۔ اس نے چند شہرہ آفاق نظمیں بھی لکھیں مگر اس کی اصل وجۂ شہرت اس کے ناولز ہیں جن کی وجہ سے اسے کمالِ فن کی اوجِ ثریا نصیب ہوئی۔ اس نے زندگی کو اپنے زاویے سے جانچا۔ وہ عمومی طور پر زندگی میں سکھ کے بجائے دکھ، راحت و آرام کی جگہ درد و آلام اور خوشی سے زیادہ غموں کو دیکھتا تھا۔ اس کے نزدیک زندگی کے عمومی ڈرامے کا مرکزی موضوع غم ہے جس میں کوئی اِکا دکا قسط خوشی کی بھی چل جاتی ہے۔ یہ جذبات اور خیالات محض تھامس ہارڈی تک محدود نہیں بلکہ انسانی زندگی کے بارے مختلف بلکہ یکسر متضاد نظریات پائے جاتے ہیں اور ہر نقطۂ نظر اور تصور کے ماننے اور پرچار کرنے والے موجود ہیں۔ بہت سے لوگ زندگی کو غموں، آزمائشوں، امتحانوں اور آلام سے عبارت سمجھتے ہیں جس میں قدم قدم پر نئے دکھ، نئی تکالیف اور کڑی آزمائشیں ہماری منتظر ہیں۔ پل بھر ہنستے بستے خاندان اور مسکراتے چہرے یکسر بدل جاتے‘ اجڑ جاتے ہیں اور اسی طرح سرسبز و شاداب کھیت کھلیان کھنڈرات کا روپ دھار لیتے ہیں، حسین و جمیل وادیاں اور ان کی ساری رعنائیاں آسیب زدہ لگنے لگتی ہیں اور یوں لمحات میں سارے کا سارا منظر بدل جاتا ہے۔ منظر نامے کی یہ اچانک اور یکسر تبدیلی جہاں ان حوادثِ زمانہ کے درپیش مسائل ومصائب سے متاثرہ افراد کی زندگی پر گہرے اور انمٹ نقوش چھوڑتی ہے وہاں یہ غم، یہ حادثات اور بدلتے حالات ہمارے ارد گرد لوگوں کے ہجوم کی پہچان بھی کرا دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر زندگی میں دکھ، درد، تکالیف، تنگ دستی اور حادثات نہ ہوتے تو ہم اپنے گرد و پیش میں موجود دوست احباب، رشتہ داروں، محبت کا دم بھرنے والے بیشمار دعویداروں اور طلبگاروں کی ایک لمبی فہرست میں سے یہ کبھی نہ جان پاتے کہ ان میں سے کھوٹے سکے کون ہیں اور کھرے کون سے ہیں، مخلص اور قابلِ اعتبار کون ہیں اور محض رسمی کارروائی پر یقین رکھنے والے اور ریا کار کون سے اداکار ہیں۔ دکھ کی گھڑیاں اور حوادثِ زمانہ شاید ہمارے سماجی تعلقات اور اپنے اور پرائے میں فرق کو واضح کرنے کا سبب بنتے ہیں اور ان کے سبب بہت سے چہروں سے نقاب اتر جاتا ہے۔ دکھ کے لمحات بانٹنے والے ہمیشہ یاد رہتے ہیں اور آزمائش کی گھڑی میں تنہا چھوڑ جانے والے کبھی بھولتے نہیں۔ مگر یہاں بات اس سے بھی آگے کی ہے۔
گزشتہ ماہ ہماری جان سے پیاری والدہ ماجدہ‘ جنہوں نے ہمیں لگ بھگ چار دہائیوں سے تنِ تنہا پالا، بڑا کیا، تعلیم و تربیت کے قیمتی زیورات سے آراستہ کیا ،اچانک راہِ فنا کی مسافر ٹھہریں اور پل بھر میں ہمیں ایک مرتبہ پھر یتیم کرتے ہوئے اُس جہان میں جا بسیں جہاں سے آج تک کوئی بھی واپس نہیں آ سکا۔ ان کی رحلت نے والد کی جدائی سے لگنے والے گھائو پھر سے تازہ کر دیے اور یوں جذبات کے الائو میں بھڑکتے ہوئے شعلے ایک مرتبہ پھر آتش فشاں بننے لگے۔ والدہ ماجدہ کے انتقالِ پُرملال کی خبر مجھے برطانیہ میں ملی اور میں نے اپنی زندگی کا سب سے اندوہناک اور تکلیف دہ ہوائی سفر‘ جس کا ایک ایک پل قیامت کی گھڑی جیسا تھا‘ شدید اضطراب اور جذباتی ہیجان میں کیا۔ اس طرح میں امی جان کے آخری دیدار اور تجہیز و تکفین میں شمولیت کے قابل ٹھہرا۔ پردیس میں بسنے والوں پر ایسی خبریں غم کے پہاڑ بن کر ٹوٹتی ہیں اس کا اندازہ پہلی بار ہوا۔ حضرت سلطان باہوؒ نے صدیوں پہلے لکھا تھا ''شالا کوئی مسافر نہ تھیوے، ککھ جنہاں توں بھاری ہو‘‘، اس کے صحیح معانی و مفاہیم کا ادراک بھی پہلی مرتبہ ہوا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاز اپنی پوری طاقت اور رفتار پر اڑتے ہوئے بھی آہستہ چلتا محسوس ہو سکتا ہے۔ پوری آب و تاب سے آگے بڑھتا ہوا وقت تھم سا جاتا ہے اور اس جہانِ رنگ و بو کے سارے کے سارے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں اور آپ انسانوں کے ہجوم میں اکیلے رہ جاتے ہیں۔ آپ کی اندر کی دنیا میں جو کہرام برپا ہو چکا ہوتا ہے وہ آنسوئوں میں ڈھل بھی جائے تو اس کی اذیت اور شدت کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔انہی دکھوں کو کاٹنے اور پانٹنے کے لیے ہمیں مخلص دوست، قابلِ اعتبار غم خوار درکار ہوتے ہیں، احساسِ مروت سے سرشار رشتہ دار چاہئے ہوتے ہیں جن کے کندھے پر سر رکھ کر رو لیا جائے، جن سے دو چار باتیں کر کے اور جن کی باتیں سن کے دل کا بوجھ ہلکا کر لیا جائے، جن کے ساتھ گزرے لمحات آپ کو غم سے دور لے جاتے ہیں اور جن کے خوبصورت الفاظ آپ کی ڈھارس بندھاتے ہیں‘ تسلی دیتے ہیں اور دلاسے کا کاسہ بھر دیتے ہیں۔
والدہ ماجدہ کا پہلا جنازہ راولپنڈی میں صبح نو بجے پڑھا گیا، دوسرا جنازہ چنیوٹ میں ہمارے آبائی گائوں میں ادا ہوا، اس دوران ہمارے پیاروں، دلداروں، رفقائے کار، سینئرز اور دوست و احباب کے علاوہ قریبی رشتہ داروں کا ایک جمِ غفیر ہمارے آس پاس موجود رہا۔ آخری رسومات کی ادائیگی سے لے کر رسمِ قل اور پھر ساتویں کی دعا تک‘ ہزاروں افراد نے وطنِ عزیز کے کونے کونے سے سفر کر کے آبائی گائوں میں آ کر ہمارا غم بانٹا، ہمیں دلاسے دیے، تسلیاں دیں، اپنے پیاروں کے بچھڑ جانے کے دلگیر قصے سنائے اور یوں ہماری ڈھارس بندھانے کی حتی المقدور کوشش کی۔ ہمارے گائوں میں موجود ہمارے قریبی رشتہ دار اور احباب رات گئے تک ہمارے پاس بیٹھتے اور ہمیں والدہ ماجدہ کی دلآویز شخصیت اور قابلِ تقلید کردار سے جڑے واقعات اور ذاتی تجربات بتاتے رہتے، یوں ہمارا دل بہل جاتا اور وہ قیامت خیز گھڑیاں گزر جانے کے اسباب و امکانات پیدا ہو جاتے۔
مگر اس داستانِ غم کا سب سے اہم حصہ ابھی باقی ہے اور وہ ہے اس مشکل ترین گھڑی میں اپنے اور پرائے کی پہچان، کھوٹے اور کھرے میں فرق اور خون اور پانی کی تفریق اور تمیز، کئی کردار اور بے شمار چہرے اس دوران عیاں ہوئے‘ بے نقاب ہوئے۔ موسم کی شدت، دُھند اور ہمارے دور افتادہ گائوں تک کے فاصلوں نے بھی مخلص دوست احباب اور رفقائے کار کے راستوں میں رکاوٹ نہیں ڈالی اور وہ ہم تک آن پہنچے جبکہ کئی ایسے ہیں جو آج تک بے خبر ہیں‘ غافل ہیں یا تجاہلِ عارفانہ کا مظاہرہ کر رہے ہیں، واللہ اعلم! یقینا اس دوران کچھ ایسے مہربان بھی مجھے ملنے آئے جنہیں زندگی میں پہلے کبھی نہیں ملا اور نہ ہی انہیں کبھی مجھ سے کوئی ذاتی یا سرکاری کام پڑا۔ کئی قارئینِ کرام بھی سفر کی تکالیف اٹھا کر گائوں پہنچے اور تعزیت کی مگر دوسری طرف چند ایسے افراد جو بہت قریبی یا رشتہ دار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں‘فاصلوں کے نہ ہونے کے باوجود دلاسے کے دو لفظ بھی ادا نہ کر سکے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ چند کردار ایسے بھی نظر آئے جو تعزیت کے روپ میں اپنے ذاتی اور سرکاری معاملات میں سفارش کے لیے سرگرداں تھے۔ یہ سب نرالے روپ غم کی اس کڑی آزمائش ہی میں دیکھنے کو نصیب ہوئے۔ یہی زندگی ہے اور ان کڑے امتحانات سے گزر کر ہمیں پتا چلتا ہے کہ کیسے کیسے لوگ ہمارے ارد گرد موجود ہوتے ہیں مگر ہم ان کی اصلیت سے بے خبر رہتے ہیں تاوقتیکہ ہم کسی مصیبت یا حادثے سے دو چار ہو جائیں۔ ہاں مجھے تہِ دل سے شکریہ ادا کرنا ہے ان تمام رشتہ داروں ، احباب، رفقائے کار، سینئرز، قارئین کرام اور سوشل میڈیا پر موجود دوستوں کا جو غم کی اس گھڑی میں مجھ تک یا میرے بھائیوں تک پہنچ پائے۔ اللہ رب العزت سب کو اپنے خاص فضل و کرم کے سائے میں رکھے۔ آمین! شاید اسی طرح کی صورتِ حال کو مزید اجاگر کرنے کے لیے احمد فرازؔ نے کہا تھا:
یونہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں