اورنگزیب عالمگیر کی قبر کے بارے میں جو ہنگامہ بھارت میں بپا ہے اور جو حالیہ فسادات ناگپور میں ہوئے ہیں‘ان کے بارے میں دو تین باتیں ذہن نشیں کرلیں۔ یہ باتیں ہندوانتہا پسندوں اور حکمران بی جے پی کی ذہنیت جاننے والوں کے ذہن میں پہلے سے محفوظ ہیں۔پہلی تو یہ کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے مشترکہ ہیرو ہیں ہی نہیں۔ ایک کا ہیرو دوسرے کا وِلن ہے۔ اور یہ بات خود دو قومی نظریے کی ایک بڑی دلیل ہے۔یہ ایک قوم کیسے کہلاسکتے تھے جبکہ ایک حصہ کسی شخص کو ہیرو اور دوسرا اسی کو وِلن مانتا ہو۔ شہاب الدین غوری یا پرتھوی راج ہوں‘اورنگزیب اور شیوا جی ہوں یا کوئی اور‘ یہی صورتحال ہے۔ دوسری بات یہ کہ مسلم حکمرانوں‘ خاص طو رپر اورنگزیب کے بارے میں یہ حالیہ شور و غوغا اتفاقی نہیں۔ یہ آگ بہت پہلے جلائی گئی تھی اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق ہر کچھ مدت کے بعد اس پر تیل ڈالا جاتا ہے۔تیسری بات یہ کہ اورنگزیب کی آڑ میں ایک ایک کرکے ان تمام مشاہیر کی یادگاروں کو مٹانا مقصود ہے جو مسلمانوں کے ہیرو ہیں۔ ہرایسے تازہ واقعے سے مسلمانوں کو اس حد کی طرف لے جانا مقصد ہے جہاں وہ ہر ظلم اور زیادتی کو بے بسی کے ساتھ دیکھتے رہیں اور احتجاج کرنے کے بھی قابل نہ رہیں۔ تین سو سال پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے قول و فعل کے ذمہ دارآج کے لوگ نہیں ہوسکتے لیکن ہندو انتہاپسندوںکا انصاف یہی کہتا ہے۔
آپ نے گڑے مردے اکھاڑنا کا محاورہ سنا ہے ؟اس کا مطلب جاننے کیلئے آج کل بھارتی میڈیا کا شور و ہنگامہ دیکھ لیجیے۔ 317 سال پہلے خلدآباد ‘اورنگ آباد‘ مہاراشٹر کی ایک درگاہ میں مغل شہنشاہ اورنگزیب کی قبر شیخ زین الدین کی درگاہ کے ایک گوشے میں سادگی سے بنائی گئی تھی۔یہ آسمان تلے سادہ سی مٹی کی قبر ہر اس روایتی شان و شوکت سے دور رکھی گئی تھی جو مغل شہنشاہوں کی روایت تھی۔مغل خانوادے کے بانی بابر کی قبرکابل میں کھلے آسمان تلے بنائی گئی تھی۔بعد کے شہنشاہان نے بعد از مرگ بھی اپنی شان و شوکت کا اظہار ضروری سمجھا۔سب سے بڑی اور پورے پاک وہند اور افغانستان پر محیط سلطنت صرف اورنگزیب عالمگیر کے حصے میں آئی لیکن اس نے اپنی قبر کواسی سادگی کے ساتھ اختیار کیا۔ بیشتر متعصب مورخین نے کبھی اس کے مضبوط عقیدے اور طرزِ زندگی کو معاف نہیں کیا۔ اس پر ایسے ایسے بے بنیاد الزامات لگائے گئے جو کسی اور مغل بادشاہ کیلئے نہیں تھے۔ان الزامات کے تحقیقی جوابات صرف مسلم مؤرخین نے نہیں‘ بلکہ غیر متعصب ہندو تاریخ دانوں نے بھی دیے ہیں اورمغل دورِ حکومت پر تحقیق کرنے والے عالمی مورخوں نے بھی ۔ لیکن اورنگزیب کا جرم ہندوتوا کے علمبرداروں نے کبھی معاف نہیں کیا۔
حال ہی میں ایک فلم بنائی گئی جس میں اورنگزیب کا کردار نہایت منفی انداز میں پیش کیا گیا۔ اس کے مقابل اس کے مرہٹہ حریف سمبھاجی بھونسلے کو ہیرو بنا کر دکھایا گیا۔ یہ فلم بذاتِ خود مذہبی بنیادوں پرآگ لگانے کی ایک کارروائی تھی۔اصولاًاس فلم کو یا بننے ہی نہیں دینا چاہیے تھا یا روک دینا چاہیے تھا‘لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔یہ ان فلموں کے سلسلے کی ایک کڑی تھی جس میں ہندو انتہا پسند جذبات کو ہوا دی جاتی ہے اور تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس فلم کے بنانے کا مقصد پورا ہوا‘ ہندو انتہا پسندوں خاص طور پر ویشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دَل کی طرف سے مظاہرے کیے گئے اور اعلان کیا گیا کہ اورنگزیب کی قبر کو مسمار کیا جائے گا اور اس جگہ مرہٹہ رہنماؤں کی یادگار قائم کی جائے گی۔ ایک صوبائی وزیر نے کہا ''ہم منصوبہ بنا چکے اور فیصلہ کرچکے ہیں کہ قبر کو کب مسمار کیا جائے گا ‘‘۔ اسی دوران یہ خبر یا افواہ پھیل گئی کہ درگاہ کے احاطے میں قرآن کریم کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ مسلمان اس قبر کے معاملے پر پہلے ہی زخم کھائے ہوئے تھے ‘اس نئی بات سے ہنگامہ پھیل گیا اور ایک بار پھر مسلم ہندو فسادات شروع ہوگئے۔ ناگپور قبر سے 450 کلو میٹر دور ہے‘وہاں یہ فسادات اس لیے ہوئے کہ وہ آر ایس ایس کا ہیڈکوارٹر ہے۔مہاراشٹر کے بی جے پی رہنماؤں نے مسلمانوں کو نہ صرف موردِ الزام ٹھہرایا بلکہ وزیر اعلیٰ دیوندرا فدنویس نے کہا کہ اورنگزیب کو ہیرو بنانے کی کوشش کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے گا۔ بے جی پی کے وزیر اعلیٰ یوپی یوگی ادتیہ ناتھ نے بیان دیا کہ غیر ملکی حملہ آوروں کو ہیرو بنانے کی کوشش غداری کے مترادف ہے۔غیر ملکی سے اس کی مراد مغل ہیں‘حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مغل سلطنت کا بانی بابر تو فرغانہ میں پیدا ہوا تھا لیکن بعد کے سارے مغل بادشاہ‘ جن میں اورنگزیب بھی شامل ہے ‘آخری فرمانروا بہادر شاہ ظفر تک سب ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے‘ یہیں ان کی شادیاں ہوئیں جن میں بڑی تعداد مقامی عورتوں کی تھی۔ یہیں اولادیں پیدا ہوئیں اور یہیں دفن ہوئیں۔ تین سو سال سے زائد کے ان فرمانرواؤں کو غیر ملکی حملہ آور وں سے تعبیر کرنا بہت عجیب ہے۔اس میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اکبر اعظم اور دارا شکوہ ہندو ؤں کے پسندیدہ ہیں۔انہیں غیر ملکی حملہ آور وں میں شمار کیا جائے گا یا نہیں؟ یہ لفظ اورنگزیب وغیرہ ہی کیلئے کیوں بولے جاتے ہیں جبکہ سلسلہ اور تاریخ ایک ہے۔
مغل زمانے سے اس درگاہ کے سارے علاقے کا نام اورنگزیب کے نام پر اورنگ آباد چلاآتا تھا ‘2023ء میں یہ نام بدل کر ''چترا پتی سمبھاجی نگر‘‘ رکھا گیا۔ سمبھا جی بھونسلے مرہٹہ حکومت کے بانی شیوا جی کا بیٹا اور اس کا جانشین مرہٹہ سردار تھا۔ان باپ بیٹے کی اورنگزیب سے سخت لڑائیاں رہیں۔ ان لڑائیوں پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ یہ مذہبی جنگیں ہرگز نہیں تھیں۔ یہ دو سلطنتوں کی لڑائیوں سے زیادہ کچھ نہیں۔ بابراورابراہیم لودھی کی جنگ کی طرح یا دکن میں بیجاپور کی سلطنت جہاں مسلم عادل شاہی خانوادے کی حکومت تھی اور جسے تسخیر کرکے اورنگزیب نے اپنی سلطنت میں ضم کرلیا تھا یا گولکنڈہ کی قطب شاہی سلطنت‘جو مغل سلطنت میں شامل کرلی گئی تھی۔جس طرح انہیں مذہبی لڑائیاں نہیں کہا جاسکتاٹھیک اسی طرح مغلوں اور مرہٹوں کی جنگوں کا معاملہ ہے جو مذہبی جنگیں ہرگز نہیں تھیں۔
ایک نظر شیوا جی اور سمبھا جی کی تاریخ پر ڈال لیں۔ ان باپ بیٹوں نے بار بار معاہدے توڑے۔ کئی مرتبہ مغل امرااور ان کے گھرانوں کو بدترین تشدد کے بعد قتل کیا۔ پھرمعافی نامے بھیج کر تائب ہوئے اور اورنگزیب کی فوج میں شامل ہوکر اس کے ساتھ جنگی مہمات میں شریک ہوئے۔مغلوں کے ساتھ مل کر ہندو راجاؤں کے خلاف بھی لڑے‘ پھر بغاوت کی‘ اور یہ سلسلہ جاری رہا۔ شیوا جی کا انتقال کسی جنگ میں نہیں ‘بیماری سے اپنے قلعے میں ہوا۔ اپنے انتقال تک اس نے ایک برہمن لڑکی کی عصمت دری کی سزا میں اپنے بیٹے سمبھاجی کو پنہالہ قلعے میں نظر بند کر رکھا تھا۔تاریخ کی یہ ستم ظریفی بھی ملاحظہ فرمائیے کہ ایک زمانے میں سمبھا جی اورنگزیب کی فوجوں کے ساتھ مل کر اپنے باپ کے خلاف لڑا۔ شیوا جی کے انتقال کے بعد اس کی بیوی سویارا بائی نے شیوا جی کے دس سالہ بیٹے راج رام کو 21 اپریل 1680ء کو تخت پر بٹھایا۔سمبھا جی اپنی قید سے فرارہوا‘ اپنی سوتیلی ماں سویارابائی اور دیگر افراد کو تہ تیغ کیا اور یوں مرہٹہ ریاست سنبھالی۔ بالآخر گرفتار ہوکر اورنگزیب کے سامنے لایا گیا۔ مغل حکام اور امیروں کے قتل اور بار بار بغاوت کے جرم میں اس کے ساتھ وہی سلوک کیاگیا جو باغی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ باغی کے ساتھ کیا سلوک ہوتا تھا اس کے لیے جہانگیر کے سگے بیٹے خسرو کی تاریخ پڑھ لیں۔
خلاصہ یہ کہ اس پوری تاریخ میں کہیں مذہب کا عمل دخل نہیں ہے۔ 317 سال کے بعد اسے ہندو مسلم مذہبی تنازع بنا لینا بذاتِ خود تاریخی ناواقفیت کی دلیل ہے۔ اورنگزیب عالمگیر کو بحیثیت انسان اور فرمانروا کوئی معصوم تصور نہیں کرتا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ سب سے بڑا یہ مغل شہنشاہ اس تاریخ کا مظلوم ترین کردار بھی ہے۔