پاکستان کرکٹ ٹیم چیمپئنز ٹرافی سے باہر ہو چکی ہے‘ دفاعی چیمپئن اور میزبان ہوتے ہوئے بھی۔ بھارت سے مایوس کن شکست کے بعد سے تو میڈیا اور سوشل میڈیا پر وڈیوز‘ تبصروں‘ تجزیوں کا سیلاب امڈ آیا ہے۔ بنگلہ د یش کے ساتھ میچ کا نتیجہ جو بھی رہے‘ فرق نہیں پڑتا۔ اگرچہ ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے کہ جیت کے سہرے کے ہزار دعویدار نکل آیا کرتے ہیں اور شکست کا کوئی باپ نہیں ہوتا لیکن اس بری کارکردگی کا صدمہ اس لیے زیادہ محسوس ہوا کہ ٹورنامنٹ شروع ہونے کے بعد صرف چار پانچ دن میں میزبان اور ٹرافی کی دفاعی ٹیم‘ پاکستان کیلئے یہ ختم بھی ہو گیا۔ اب قوم کی دلچسپی باقی میچوں میں آدھی سے بھی کم رہ جائے گی۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہوگا کہ سٹیڈیم جو بڑے چائو سے آراستہ کیے گئے تھے اور زیادہ تماشائیوں کیلئے گنجائش پیدا کی گئی تھی‘ باقی میچوں میں خالی رہیں گے۔ ایک تو اپنی ٹیم کا نہ ہونا‘ پھر رمضان کا مہینہ۔ یہ دونوں عوامل مل کر آئی سی سی‘ خاص طور پر پی سی بی کیلئے ایک نیا جھٹکا بن سکتے ہیں۔ وہ جو ٹکٹوں کی فروخت سے کافی آمدنی کی توقع کر رہے تھے‘ کیا وہ پوری ہو سکے گی؟
پہلا سوال تو یہی ہے کہ ان مہینوں میں ٹورنامنٹ پاکستان میں منعقد کراتے ہوئے یہ ملحوظ کیوں نہیں رکھا گیا کہ ٹرافی میچز کا بڑا حصہ رمضان المبارک میں آئے گا؟ یہ درست ہے کہ اس سے پہلے بھی آئی سی سی ٹورنامنٹ رمضان میں ہوتے رہے ہیں لیکن یہ پاکستانی میدانوں پر نہیں ہوئے تھے۔ مہینوں کے انتخاب میں اگرچہ بہت سے عوامل ہوتے ہیں‘ جن میں خوشگوار موسم‘ برسات سے گریز‘ باقی ٹیموں کی دستیابی اور شریک ممالک کی مقامی کرکٹ کی مصروفیات وغیرہ سب شامل ہوتی ہیں‘ نیز آئی سی سی کے فیصلوں میں پاکستان کا حصہ کم ہوا کرتا ہے اور پاکستان ایک بین الاقوامی ٹورنامنٹ ملک میں منعقد کرانے کی شدید ضرورت محسوس کرتا تھا۔ عالمی کرکٹ ٹیموں کو دوبارہ ملکی میدانوں میں لانے کیلئے یہ بہت اہم تھا۔ یہ سب اپنی جگہ بجا‘ لیکن اس بار صورتحال پاکستان کے میزبان ہونے کی وجہ سے مختلف تھی۔ پاکستان اپنے کئی فیصلے منوا سکتا تھا اور منوانے چاہیے تھے۔ بظاہر اس پر نہ سوچا گیا نہ یہ مسئلہ آئی سی سی کے سامنے رکھا گیا۔ چنانچہ اس کے نتائج پی سی بی کو بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔
دل کی ایک بات کہہ دینی چاہیے۔ کرکٹ کے معاملے میں برصغیر یعنی پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش کے لوگوں کا شوق ابنارمل حد تک پہنچا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ کرکٹ کے بہترین ممالک جنہوں نے ہمیشہ خود کو سرفہرست ٹیموں میں رکھا؛ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ انگلینڈ‘ جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز ہیں۔ ویسٹ انڈیز اب کافی کمزور پڑ چکی ہے لیکن اس کالی آندھی نے کرکٹ کے میدانوں میں ایک زمانے تک راج کیا ہے۔ اس کے علاوہ باقی ٹیمیں بہت حد تک ایک ہموار تسلسل کے ساتھ کرکٹ میں سرفہرست رہی ہیں اور اکثر جیت کا تاج انہی کے سر سجتا رہا ہے۔ کیا ان ممالک میں عوام کا جوش وخروش اور کرکٹ کا جنون ویسا ہی ہے جیسا برصغیر میں رہا ہے‘ مثلاً آسٹریلیا اور انگلینڈ کرکٹ میں روایتی حریف ہیں اور ان کے میچوں میں سٹیڈیم بھرے رہتے ہیں۔ اپنی ٹیم کی شکست پر لوگوں کو صدمہ بھی ہوتا ہے لیکن ایک نارمل حد سے باہر کبھی نہیں دیکھا گیا۔ لیکن برصغیر میں لوگوں کا ایک ہی کام رہ گیا ہے۔ ہر کام چھوڑ کر میچ دیکھنا اور جذباتی تبصرے کرنا۔ برصغیر میں میچ ہارنے پر ٹی وی توڑنے کی روایت بھی رہی ہے اور شکست خوردہ کھلاڑیوں پر رکیک حملے کرنے اور آوازے کسنے کی بھی۔ کیا اسے ایک نارمل شوق کہا جا سکتا ہے؟ اس پورے خطے کے شوق کی جڑوں میں اپنی ٹیم اور کرکٹ کی محبت سے زیادہ مخالف ملک سے نفرت بیٹھی ہوتی ہے۔ صرف پاکستان بھارت میچ میں نہیں‘ اب بنگلہ دیش اور افغانستان کے معاملے میں بھی۔ یہاں کھیل نہیں ہوتا‘ جنگ ہوتی ہے۔
نیوزی لینڈ اور بھارت سے میچوں میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی کمزوریاں کھل کر سامنے آ چکیں۔ اگرچہ ٹیم کی سلیکشن کے بعد ہی سے اس انتخاب پر کڑی تنقید شروع ہو چکی تھی۔ ہما شما اور غیر ماہرانہ تبصروں کی تو اہمیت نہیں‘ بہت سے پرانے کھلاڑیوں نے بھی اپنے اپنے حساب چکانے کی کوشش کی لیکن کرکٹ کے عمدہ ماہرین کے تبصروں میں بھی شروع سے نکتہ چینی کی جاتی رہی ہے۔ صائم ایوب اور بعد میں فخر زمان کے باہر ہو جانے سے پہلے بھی بائولنگ کے شعبے خاص طور پر صر ف ایک باقاعدہ سپنر کو شامل کرنے پر اعتراضات کیے جاتے رہے۔ برصغیر کی وکٹوں پر سپنرز کو بڑی اہمیت حاصل ہے اس لیے اب یہ بات درست لگتی ہے کہ ایک ریگولر سپنر ٹیم کیلئے ناکافی تھا۔ تیز بائولرز میں شاہین آفریدی اور حارث رئوف کی حالیہ کار کردگی پر سوالیہ نشان تھے۔ خاص طور پر ان کے مہنگے بائولر ہونے کے ریکارڈ کی وجہ سے۔ نسیم شاہ بہتر بائولر ہے لیکن اس کے حصے میں بہرحال وکٹیں کم آتی رہی ہیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ اگر ان تینوں کو بدلا جائے تو متبادل کون ہوں جن کا ریکارڈ بھی بہتر ہو‘ بڑے میچوں کا تجربہ بھی ہو اور قریب 150کی رفتار سے بائولنگ بھی کر سکتے ہوں۔ سچ یہ ہے کہ یہ متبادل کوئی نہیں تھا اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ باصلاحیت لڑکے تو موجود ہیں لیکن انہیں تیار نہیں کیا جاتا رہا۔ اس لیے اور کوئی آپشن نہیں تھا۔ تاہم ماہرین کے خیال میں کسی ایک مثلا ًحارث رئوف کی جگہ کسی ایک ریگولر سپنر کو ڈالنا بہتر ہوتا۔ حال ہی میں کپتان محمد رضوان نے پانچ بائولرز کے ساتھ ٹیم بنانے کے خیال کو مسترد کر دیا اور کہا کہ یہ ون ڈے کرکٹ میں عملاً ممکن نہیں تھا۔ ان کا خیال تھا کہ سپنرز کی کمی سلمان آغا اور خوش دل پوری کر سکتے ہیں جو آل رائونڈر ہیں۔ لیکن دونوں میچوں میں یہ کمزوری کھل کر سامنے آئی اور تیز بائولرز‘ جن پر دار ومدار تھا‘ بری طرح پٹتے رہے۔ بڑا انحصار بیٹنگ پر کیا جا رہا تھا لیکن صائم ایوب کے زخمی ہو جانے سے خواب بکھرنے لگا۔ ایک منٹ کیلئے فرض کیجیے کہ صائم ٹیم میں شامل رہتے تو کیا ان کے موجودہ تجربے اور صلاحیت کے ساتھ بڑے میچوں میں بڑے سکور کی توقع کی جا سکتی تھی؟ میرے خیال میں نہیں! اس لیے صائم کا ہونا یا ہونا زیادہ معنی نہیں رکھتا۔ فخر زمان آزمودہ بیٹر ہیں اور تجربہ کار بھی۔ یہ توقع ان سے کی جا سکتی تھی لیکن بدقسمتی سے وہ ٹرافی میچز سے ذرا پہلے زخمی ہو کر باہر ہو گئے۔ بابر اعظم ایک مدت سے فارم میں نہیں‘ اگرچہ ان کے کریڈٹ پر کافی کارکردگی موجود ہے لیکن حالیہ دنوں میں انہوں نے بھی مایوس کیا۔ مڈل آرڈر بیٹنگ ہمیشہ سے رد وبدل کا شکار رہی اور اس بار بھی ہر جگہ ناکام رہی۔ اوپننگ‘ مڈل آرڈر اور بائولنگ‘ تینوں شعبوں کا یہ حال تھا تو پھر رہ کون گیا۔ میرے خیال میں رضوان کی کارکردگی بیٹرز میں سب سے بہتر رہی لیکن پوری ٹیم کا بوجھ اکیلے اٹھانا بہت دشوار تھا۔
غیر ماہرین کی بات چھوڑ دیجیے‘ انضمام الحق کہتے ہیں کہ یہ پہلا بڑا ٹورنامنٹ نہیں جس میں ٹیم نے بری کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہو۔ ایشیا کپ‘ ورلڈ کپ اور ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ‘ ہر جگہ ٹیم کا یہی حال رہا ہے۔ جب کبھی دبائو پڑتا ہے‘ ٹیم ڈھیر ہو جاتی ہے۔ ابرار احمد کے ساتھ ایک باقاعدہ سپنر کی سخت کمی تھی اور یہ غلطی نہیں بہت بڑی حماقت ہے کہ برصغیرکی وکٹوں پر سپنر کو نظر انداز کیا جائے۔ بابر سے اوپننگ کرانا بھی بڑی غلطی تھی۔ اوپنرز کا کوئی متبادل رکھا ہی نہیں گیا تھا۔ بابر ورلڈ کلاس بیٹر ہے اور اس کی پوزیشن بدلنے کی ایسی غلطی سلیکشن کمیٹی ہی کر سکتی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان سب سے زیادہ سنگین بات وہ ہے جس پر کئی سابقہ کرکٹرز نے بات کی ہے اور وہ ہے ڈریسنگ روم میں کھلاڑیوں میں گروپنگ اور ہم آہنگی نہ ہونا۔ کارکردگی کے بجائے اپنے منظورِ نظر کو شامل کرنا۔ اگر یہ سچ ہے تو ایسے میں 11 کھلاڑی جو بٹے ہوئے ہوں‘ مل کر ایک ٹیم کی طرح کیسے لڑ سکتے تھے؟ میرٹ کے بجائے دوستی اور گروپنگ کی بنیادوں پر ٹیم منتخب کی جائے تو آپ اور کسی نتیجے کی توقع کر سکتے ہیں؟