"RBC" (space) message & send to 7575

دیوانوں کے خواب

مغرب کا صنعتی انقلاب‘ ترقی‘ خوشحالی اور استعماریت ہم نے دیکھنے اور محسوس کرنے سے پہلے تاریخ کی کتابوں میں پڑھے۔ اس بارے درسگاہوں میں مباحثے میں شریک ہوئے اور نظریاتی تناؤ کے تناظر میں اخباروں اور رسائل سے آگاہی ہوئی۔ ایک زمانے تک کتابوں پر کتابیں لکھی گئیں اور مقالوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں کہ صنعتی انقلاب یورپ کے شمال میں سرد علاقوں اور پروٹسٹنٹ معاشروں میں پہلے کیوں نمودار ہوا۔ آج اپنے ملک کی 79سالہ تاریخ اور ہر نوع کے جمود کی طرف گامزن گلیوں‘ پارکوں اور بازاروں میں پھرتے نظر اٹھتی ہے تو سوچوں میں ڈوب جانا معمول کی بات ہے کہ آخر ہم وہ زرخیز مٹی کیوں نہ بن سکے جس کو اس نم کی ضرورت تھی۔ اصل چیز‘ وہ نم ہے ورنہ بہترین مٹی کی قدرتی زرخیزی کی اہمیت دشت وصحرا اور خاک کے باریک اڑتے بھٹکتے ذروں سے زیادہ نہیں ہوتی۔
یہ بھی بہت دلچسپ مکالمہ ہے کہ یورپ کے صدیوں سے خوابیدہ‘ کمزور اور آپس میں برسر پیکار معاشرے کیسے اس دور سے نکلے جسے وہ آج بھی تاریک دور سے یاد کرتے ہیں۔ ایک وقت کے روم کے مرکز سے کلیسا کا طوطی ہر جگہ بولتا تھا‘ مجال ہے کہ کوئی اس کی حکم عدولی کر کے زندہ رہ سکے۔ تاریخ کا اصول وہاں بھی ہم نے تاریخ کو خود نافذ کرتے دیکھا۔ جب مذہب کے نام پر حکومت نے پارسائی کا لباس پہن کر اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کا گلا دبانا شروع کیا تو احتجاجاً اس مذہب کے اندر اس کے خلاف تحریک اٹھی اور آج کم از کم دو دھارے‘ کلیسائے روم اور پروٹسٹنٹ فرقوں کی صورت میں موجود ہیں‘ جو مغرب کے معاشروں اور ریاستوں کی پہچان بن چکے ہیں۔ یہاں دو باتیں کرنا ضروری ہیں؛ ایک حکومت کی عوام کے ذہنوں میں جائزیت کا جبر بٹھانے کے لیے مذہب‘ قوم پرستی یا کوئی اور سہارا ضروری رہا ہے‘ اور اگر مذہب اور قوم پرستی کا کوئی مغلوبہ بن جائے تو تاریخ میں اس سے مہلک اس معاشرے کے لیے کوئی اور چیز نہیں دیکھی۔
مغرب کا جمود اور تاریک دور سے اخراج پروٹسٹنٹ فرقے کا کرشمہ ہے۔ یہاں معتبر تاریخی حوالے دے کر آپ کو الجھانا مقصود نہیں‘ صرف بات اس مذہبِ اقدار کی ہے جس میں وقت کی پابندی‘ کام کو بطور مذہبی فریضہ انجام دینے کی اخلاقیات‘ غفلت اور آرام پسندی کو گناہ سمجھنا‘ بچیوں کی تعلیم کو اولیت دینا اور بچت شامل ہیں۔ ان اقدار ہی سے قومیں آگے بڑھتی ہیں۔ اکثر مغربی مفکرین اور تاریخ نویسوں کا خیال ہے کہ بغیر ایسی اخلاقی اقدار کے نہ سرمایہ داری نظام اور نہ صنعتی دور ممکن تھے۔ آج بھی جو قوم آگے بڑھتی ہے اس نے ایسی ہی ایک اقدار کو‘ اگر اخلاقیات کا نہیں تو‘ قانون کا حصہ بنا کر اپنی قسمت کو بدلا ہے۔ اقدار کو اخلاق کے دائرے میں رکھنے کی اہمیت یہ ہے کہ یہ شخصی عادت اور ذہنی رویوں کی شکل دھارتی ہے اور ایک ایسی منظم‘ مربوط اور خوشحال زندگی گزارنے کی طرف فرد کو راغب رکھتی ہے۔ کہنے کو ہماری بھی کچھ تہذیبی اقدار ہیں مگر ان کا ذکر ذرا بعد میں آئے گا۔ چلیں ہم یورپ اور مغرب اور اس تہذیب کی باتیں چھوڑتے ہیں کہ ہمارے بڑے مفکرین اور کچھ مسلم اس کے اثرات سے بہت خائف تھے اور اپنی تہذیب کو بچانے کی فکر میں تھے۔ آج بھی ایسے رویے ہمارے ہاں غالب ہیں۔ ہمیں اس بات سے سروکار نہیں کہ وہ اقدار کہاں سے آئیں جن سے حکومتی ملازمین وقت پر اپنی ڈیوٹی پر پہنچیں‘ وقت ختم ہونے تک دفتروں یا دیگر جگہوں پہ‘ جہاں وہ کام کرتے ہیں‘ ایمانداری سے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں‘ ناجائز فائدہ کسی کو دینے میں رشوت نہ بٹوریں‘ اور ان کی شخصیت میں خدمت اور ترقی کے جذبے موجزن ہوں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ اقدار ہیں یا نہیں‘ اگر مفقود ہیں تو معاشرے اندھیروں کے مسافر رہتے ہیں‘ بٹ جاتے ہیں۔ یہ دھڑے ٹوٹتے بنتے رہتے ہیں۔ مایوسی کے سائے ایک کو گھیر لیتے ہیں اور توانائیاں ایک دوسرے کی مار دھاڑ میں ضائع ہو جاتی ہیں۔
مشرقی ایشیا‘ جاپان اور اب چین نے جو بے پناہ ترقی کی ہے اس میں قیادت اور پارٹی کے علاوہ معاشرتی اقدار بھی ہیں جو اب کمیونزم کے بعد کنفیوشس کے فلسفے کے احیا کی صورت میں دنیا میں پیش کر رہے ہیں۔ چین کی پرانی اخلاقی اقدار ہوں یا جاپان کی‘ ان میں شخصی ذمہ داری‘ محنت کی اہمیت‘ کام کی فضیلت‘ خاندان سے وابستگی‘ ایمانداری اور تسلیمِ حاکمیت شامل ہیں۔ آخری ذکر کردہ قدر کے احترام ہی سے معاشروں میں نظم ونسق پیدا ہوتا ہے۔ ذرا غور فرمائیں تو دنیا کا کوئی مذہب یا تہذیب نہیں جو ان اقدار کے منافی ہو یا جن میں ان کی اخلاقی اور اکثر میں قانونی یا روحانی افادیت کو اجاگر نہ کیا گیا ہو۔ تسلیمِ حاکمیت کسی وجہ سے کمزور پڑ جائے‘ لوگ منحرف ہو جائیں‘ بغاوتوں پر اتر آئیں‘ ہتھیار اٹھا لیں تو خون خرابے میں کون سی ترقی‘ استحکام یا خوشحالی آئے گی۔ مشرق وسطیٰ اور افریقہ کی مثال ہو یا اپنے ہی پڑوس میں افغانستان کی‘ حاکمیت کے بارے میں جب لڑائیاں شروع ہو جائیں تو کچھ بھی نہیں بچتا۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ہم اور ہمارا ملک ترقی اور استحکام کی اقدار کے حوالے سے کہاں کھڑا ہے۔ اس کا اندازہ آپ خود ہی لگا سکتے ہیں۔ کسی دن‘ کسی بھی سرکاری دفتر کھلنے کے اوقات میں صبح آٹھ بجے تشریف لے جائیں‘ آپ کو علم ہو جائے گا۔ برسوں ہم مغرب کے جن ملکوں میں رہے‘ صبح کے وقت لوگوں کو بسوں‘ ٹرینوں‘ زمین دوز میٹروز اور اپنی گاڑیوں میں جس طرح سے سفر کرتے دیکھا‘ لگتا تھا کہ وہ دیوانے ہیں۔ ہر کوئی اپنے وقت پر اپنے دفتر میں اور شام کو پانچ بجے گھروں کو روانگی۔ کبھی جاپان‘ چین اور سنگاپور جا کر بھی آپ یہ مناظر دیکھ سکتے ہیں۔
ہمیں جس بھی سرکاری ادارے میں جانا پڑے تو 'صاحب ابھی نہیں آئے، آپ کو انتظار کرنا ہو گا‘ سننا پڑتا ہے۔ باقی اہلکاروں کو کاہے کی جلدی ہو گی۔ دیانتداری اور دیگر رویوں کے بارے میں کیا کہیں اور کیا لکھیں۔ آخر وجہ کیا ہے کہ ہم اس تہذیب کے باوجود جس پر سب فخر کرتے ہیں‘ اس کی اخلاقیات کو اپنی زندگیوں کا حصہ نہ بنا سکے۔ میرا جواب سیدھا اور سادہ ہے کہ ذہن وعظ ونصیحت سے نہیں‘ عملی کرداروں سے بدلتے ہیں۔ کون سا موضوع ہے جس پر دن رات اٹھتے بیٹھتے ہم نصائح نہیں سنتے۔ جھوٹ نہ بولنے سے لے کر حلال کی روٹی‘ دوسروں کا احترام اور صفائی نصف ایمان کی تلقین تک۔ گھر سے باہر نکلتے ہی پہلی نظر جس پر پڑتی ہے وہ دوسرے گھروں سے گاڑیوں کی دھلائی کا سڑک پر پھیلا گندا پانی‘ پارک کے ساتھ گندگی کے ڈھیر‘ وہاں کئی دنوں اور ہفتوں سے اہلکاروں کی غیر حاضری‘ بے ہنگم ٹریفک اور بازاروں میں تجاوزات اور ہر طرف گندگی کے مناظر ہیں۔ یہ معمولی باتیں نہیں‘ یہ اساسی رویے ہیں‘ جن سے قومیں بنتی اور بگڑتی ہیں۔ ہمارے تضادات ایسے ہیں کہ لگتا ہے کہ جہاں ہم رکے ہوئے ہیں یہ بھی غنیمت ہے کہ مزید پیچھے گرنے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آ رہی۔ بڑوں کی پریس کانفرنسوں‘ تقاریر‘ پیغامات اور ترقی کے منصوبوں کی داستانیں سنتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جہاں دیگر ملک پہنچ چکے ہیں ہم ان سے زیادہ فاصلے پر نہیں۔ جونہی کسی فٹ پاتھ پر قدم رکھتے ہیں‘ پُل پر سے گزرتے ہیں‘ مرکزی شہر کی سڑکوں پر گڑھوں اور گندگیوں کو دیکھتے ہیں تو سب اعتبار ساتھ ہی کئی جگہ گندگی میں لگی آگ کے دھوئیں کے ساتھ اڑ جاتا ہے۔ اخلاقی اقدار قانون کی بھی محتاج ہیں اور ملک کی حکومت کو چلانے والوں کے کردار کی بھی۔ ہمارا بگاڑ اوپر سے پیدا ہو کر اب نچلی سطحوں تک دیمک کی طرح چاٹ چکا ہے۔ ایسے ماحول میں تبدیلی کی تمنا دیوانوں کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں