"RKC" (space) message & send to 7575

اسلام آباد کی آخری تباہی

ہو سکتا ہے آپ کو یہ عنوان بڑا عجیب لگے‘ لیکن میری صورتحال سمجھنے کی کوشش کریں کہ میں اس وقت کس ذہنی حالت میں یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں۔ میں ابھی کچھ دیر قبل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس سے واپس آیا ہوں۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہواکہ کسی کمیٹی اجلاس سے مایوس لوٹا ہوں۔ اگرچہ ہر دفعہ خود کو یہ تسلی دیتا ہوں کہ میرا کام جج‘ جیوری یا جلاد والا نہیں‘ میرا کام رپورٹر ہونے کے ناتے خبریں فائل کرنا ہے۔ میں نے عدالت نہیں لگانی‘ نہ ہی کسی کے خلاف فیصلہ دینا ہے‘ نہ ہی جلاد کی طرح کسی کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈالنا ہے۔ میں خود کو اپنے کام تک محدود رکھتا ہوں اور خوش رہتا ہوں۔ سٹریس اور اوور تھنکنگ سے بچا ہوا ہوں‘ میں سارے ملک کا ٹھیکیدار نہیں بنا کہ پورے ملک کا بوجھ میرے کندھوں پر ہے اور میں نے ہی سب کچھ ٹھیک کرنا ہے۔ میری اہلیہ اکثر مجھے کہتی ہے کہ تم روز ایسے بیسیوں نئے دشمن بنا کر گھر آتے ہو جنہیں تم جانتے تک نہیں ہو اور بعد میں جسے جب موقع ملتا ہے وہ تمہیں نقصان پہنچاتا ہے۔ لوگ بڑے لوگوں سے تعلقات بناتے ہیں تم بنے بنائے تعلقات خراب کر آتے ہو۔ میں کہتا ہوں کہ یہی میرا کام ہے جو میں نے خود اپنے لیے پسند کیا ہے اور مجھے اس پر کوئی پچھتاوا نہیں۔ میں اس کام میں خوش ہوں‘ ہاں! ایک نقصان ضرور ہوا ہے کہ اب اسلام آباد میں میری سوشل لائف ختم ہو گئی ہے۔ پہلے محفلوں میں جانا ہوتا تھا لیکن اب جہاں جاتا وہاں کوئی نہ کوئی افسر مجھ سے گلہ کرنے لگتا کہ آپ نے میرے خلاف فلاں خبر فائل کی تھی۔ پھر وہ لمبی وضاحت دینے بیٹھ جاتا اور میں دیر تک سنتارہتا ۔ پھر میرے جواب سے میزبان کیلئے مشکل پیدا ہو جاتی یا کسی دن وہ میزبان اپنے کسی دوست کی سفارش کرنے لگتا کہ فلاں کا سکینڈل بریک کر رہے ہو‘ وہ اپنا بیلی ہے‘ اسے جانے دو۔ میں نے پھر ایسے لوگوں کے گھر جانا ہی بند کر دیا۔
خیر‘ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی ڈاکٹر مصدق ملک شریک ہی نہیں ہوئے حالانکہ اجلاس میں بہت اہم موضوعات ان کی توجہ کے منتظر تھے۔ البتہ وہ ہر شام کسی نہ کسی ٹی وی شو میں اپنے دلائل اور گفتگو سے سیاسی مخالفین کو چاروں شانے چت کرنے کیلئے ضرور شریک ہوتے ہیں۔ ان جیسی متوازن سیاسی گفتگو شاید ہی کوئی کرتا ہو لیکن لگتا ہے وہ صرف سیاسی گفتگو کرنا ہی پسند کرتے ہیں‘ اپنی وزارت پر ان کی توجہ نہ ہونے کے برابر نظر آتی ہے۔ آپ خود بتائیں کہ ایسا وزیر کمیٹی اجلاس سے غیرحاضری کیسے افورڈ کر سکتا ہے جس کی وزارت کی وفاقی سیکرٹری کمیٹی اجلاس کو خبردار کر رہی ہو کہ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی آلودگی دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ بن چکی ہیں۔ اتنے لوگ دہشت گردی سے نہیں مر رہے جتنے آلودگی کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ کمیٹی اجلاس جب چیئرپرسن سینیٹر شیری رحمن کی سربراہی میں شروع ہوا تو اندازہ ہوا کہ بیوروکریسی کتنی نالائق ہو چکی ہے۔ یہ باتیں میں اپنی طرف سے نہیں کر رہا بلکہ یہ سینیٹرز نے اجلاس میں کی ہیں۔ سینیٹرز افسران کے ان انکشافات پر حیران تھے کہ راول ڈیم میں ہزاروں کیوسک سیوریج کا پانی گر رہا ہے‘ جو بعد میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے رہائشیوں کو سپلائی کیا جاتا ہے۔ وفاقی سیکرٹری ماحولیات نے یہ بم شیل گرایا کہ اسلام آباد کے شہریوں کو یہی زہریلا پانی پلایا جا رہا ہے۔ شیری رحمن نے بھی بتایا کہ روزانہ ہزاروں کیوسک سیوریج کا پانی راول ڈیم میں جا رہا ہے اور وہاں سے شہر بھر کو سپلائی ہوتا ہے۔ تقریباً دو سال پہلے اسی کمیٹی نے متعلقہ حکام کو شہر میں ایک واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگوانے کی ہدایت جاری کی گئی تھی لیکن آج اجلاس میں پتا چلا کہ ابھی تک اس پروجیکٹ کے ٹینڈر تک نہیں ہوئے‘ جس پر کمیٹی ارکان حیران رہ گئے کہ ترقیاتی ادارے کے ذمہ داران اتنے غیر ذمہ دار کیونکر ہو سکتے ہیں۔ سینیٹرز حیران تھے کہ شہریوں کے ساتھ اتنا ظلم کیسے کیا جا سکتا ہے کہ انہیں روزمرہ استعمال کیلئے سیوریج ملا پانی سپلائی کیا جا ئے۔ اور متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے پیسے نہیں حالانکہ ابھی چند ماہ پہلے ادارے کے چیئرمین نے اعلان کیا تھا کہ اتھارٹی نے چودہ ارب روپے کے پلاٹس بیچ کر پیسہ اکٹھا کیا ہے۔ چند روز بعد اسلام آباد میں ایک اور پلاٹ بیچنے کا پروگرام ہے۔ وفاقی سیکرٹری ماحولیات اس بات پر حیران تھیں کہ متعلقہ ادارہ پلاٹ بیچ کر بھی پیسہ اکٹھے کرتا ہے۔شہر میں ہر کونے کھدرے میں انڈرپاس اور فلائی اوور بن گئے ہیں لیکن واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کا دو سال سے ٹینڈر بھی نہیں ہو سکا کیونکہ پیسے نہیں ہیں۔
شیری رحمن کا کہنا تھا کہ کیا واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کیلئے چند کروڑ روپے بھی نہیں کہ اس سے غریب لوگ بیماریوں سے بچ سکیں؟ سیوریج ملے پانی کے استعمال سے ہیپاٹائٹس کا مرض پھیل رہا ہے‘ لوگ مر رہے ہیں۔ سینیٹر شیری رحمن نے اجلاس شروع ہوتے ہی کمیٹی ارکان سے کہا کہ ہم پر بہت دباؤ ہے‘ مسلسل شکاتیں آرہی ہیں کہ چند ماہ سے شہر میں درختوں کی مسلسل کٹائی شروع ہے۔ چند روز پہلے سیکٹر آئی ایٹ میں ایکڑوں پر محیط خوبصورت جنگل راتوں رات تباہ کر دیا گیا۔ شیری رحمن نے ترقیاتی ادارے کے چیئرمین کو طلب کرکے کہا کہ اسلام آباد کے درخت کاٹے جا رہے ہیں‘ پورے شہر کا سبزہ ختم کیا جا رہا ہے‘ شہر میں ہو کیا رہا ہے۔ مجھے روز لوگ سوشل میڈیا پر تصویروں اور وڈیوز کے ثبوت سمیت ٹیگ کرتے ہیں۔ آپ لوگ اہم پروجیکٹس کے ٹینڈر نہیں کر پا رہے کہ پیسے نہیں لیکن آپ کے پاس درخت کاٹنے کیلئے پیسے ہیں۔ سینیٹر شیری رحمن نے اسلام آباد کی خوبصورتی اور سبزہ تباہ کرنے پر شدید چڑھائی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ لوگوں نے خود تو کچھ کرنا نہیں ہوتا جب تک کہ کمیٹی یا عدالت ایکشن نہ لے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے لوگوں کو زہریلا پانی پلایا جا رہا ہے‘ آپ کر کیا رہے ہیں؟ دو سال سے بہانے سن رہی ہوں کہ فنڈز نہیں مل رہے‘ اگلے اجلاس میں مجھے جواب چاہیے‘ ورنہ سخت ایکشن لوں گی۔ وفاقی سیکرٹری ماحولیات کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی آلودگی اس وقت پاکستان میں دہشت گردی سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے اور ہمیں اس کا احساس ہی نہیں۔ پتا نہیں ہم نے آنکھیں کیوں بند کر رکھی ہیں۔ ہم دنیا کے ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہ دس ممالک میں شامل ہیں لیکن ہمارے ہاں کسی کو اس کی پروا تک نہیں۔
اس وقت پوری دنیا موسمیاتی اور ماحولیاتی خطرات سے دوچار ہے۔ نیو دہلی سے کولکتہ تک تقریباً پورا بھارت سموگ اور آلودگی کی لپیٹ میں ہے۔ یہی حال ہمارے اکثر شہروں کا ہے‘ لیکن ہماری حکمران اشرافیہ کی دلچسپی ملاحظہ فرمائیں۔ پہلے تو یہاں ہر کوئی سینیٹر یا ممبر اسمبلی بننے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتا ہے کہ میں ملک کی قسمت بدل دوں گا لیکن سینیٹر یا ممبر اسمبلی بننے کے بعد وہ قائمہ کمیٹیوں‘ جہاں ملک کے اہم ایشوز زیر بحث آتے ہیں‘ کے اجلاسوں میں شریک تک نہیں ہوتے۔ البتہ شام کو آپ کو ٹی وی شوز میں یہ لوگ باقاعدگی سے نظر آتے ہیں۔ اس وقت انتظامیہ نے ہاتھ میں کلہاڑا پکڑا ہوا ہے‘ پورے شہر میں درختوں کی کٹائی جاری ہے اور کسی کو کوئی پروا نہیں۔ اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو خدانخواستہ اس شہر کا انجام بھی وہی ہو گا جو نیو دہلی کا سموگ اور آلودگی کے ہاتھوں ہو چکا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں