حضرت عُروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ … (1)

صحابہ کرام وہ قدسی جماعت ہیں کہ جن میں سے کئی ایک کے بارے میں قرآن عظیم الشان میں ان کا نام لیے بغیر ان کی بے مثال خوبیوں کی وجہ سے ان کا تذکرہ کیا گیا۔ ان آیات کو پڑھتے ہوئے صحابہ کرام بھی سمجھ گئے تھے کہ کن کن سعادت مند صحابہ وصحابیات کا ذکر ہوا ہے۔ خود حضور اکرمﷺ نے بھی قرآن کریم کی شرح کرتے ہوئے ان جنتی لوگوں کا ذاتی تعارف تاریخ میں ثبت فرمایا۔ قرآن کے علاوہ حدیث مبارکہ میں حضور ختمی مرتبتﷺ نے اپنے صحابہ کرامؓ کے نام لے کر ان کے مناقب بیان فرمائے۔
ایک مرتبہ حضورﷺ اپنے صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے۔ مجلس میں ایک نہایت وجیہ‘ خوبصورت شکل وصورت اور روشن چہرے والے بزرگ صحابی بھی تشریف فرما تھے۔ حضورﷺ ان بزرگ صحابی کا بہت احترام کرتے تھے۔ اللہ نے ان کو دنیوی جاہ وجلال سے خوب نوازا تھا مگر اسلام قبول کرنے کے بعد ان کے نزدیک وہ دنیوی شان وشوکت ہیچ تھی۔ ان کو اپنے دین وایمان اور صحبتِ نبوی کا شرف دنیا کی ہر چیز سے عظیم تر اور بیش بہا معلوم ہوتا تھا۔ یہ عظیم المرتبت صحابی بنو ثقیف کے مشہور سرداروں میں سے تھے جن کو قیصر وکسریٰ کے درباروں میں بھی جانے کے مواقع ملے تھے۔ ان دنیوی شہنشاہوں کے ہاں بھی ان کی قدر ومنزلت کی جاتی تھی۔ یہ تھے حضرت عُروہؓ بن مسعود ثقفی جن کی کنیت ان کے بیٹے کے حوالے سے ابو مسعود تھی۔ حضورﷺ نے اپنی اس مقدس مجلس میں بیٹھے صحابہ کی طرف نظر ڈالی اور فرمایا کہ اللہ نے مجھے سابقہ انبیاء کرام سے ملاقات کا شرف بخشا (واقعۂ معراج کی طرف اشارہ ہے)۔ میں نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ مجھ سے مشابہ تھے اور میں نے عیسیٰؑ مسیح ابن مریم سے ملاقات کی تو ان کا خوبصورت چہرہ میرے حافظے میں محفوظ ہو گیا۔ آپؑ کا چہرہ عُروہ بن مسعود ثقفی کے مشابہ تھا۔ اسی ارشادِ نبوی کی وجہ سے حضرت عُروہؓ کو شبیہ مسیح کہا جاتا تھا۔ (مشکوٰۃ المصابیح‘ بحوالہ مسلم‘ عن جابرؓ بن عبداللہ)
حضرت عُروہؓ یہ ارشاد سن کر بہت خوش ہوئے اور فرطِ جذبات و مسرت سے آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ آپ نہایت رقیق القلب انسان تھے اور اس کے ساتھ اعلیٰ درجے کے صاحبِ عزیمت اور بہادر بھی۔ آپؓ بنو ثقیف کے اعلیٰ مرتبت سرداروں میں سے تھے۔ آپ کا مقام صرف اپنے قبیلے ہی میں نہیں بلکہ عرب کے تمام قبائل میں مسلّم تھا۔ آپ کی رہائش طائف کے علاوہ مکہ میں بھی تھی۔
عُروہ بن مسعود کا ایمان لانے کا واقعہ بہت دلچسپ ہے۔ جب آنحضورﷺ سنہ چھ ہجری میں عمرہ کیلئے مدینہ سے مکہ روانہ ہوئے تو قریش نے حدودِ حرم پر آپﷺ کا راستہ روک لیا۔ اس موقع پر رسول کریمﷺ اور قریش کے درمیان مصالحت کرانے کیلئے کئی قبائل کے سرداروں نے سفارت کے فرائض سر انجام دیے‘ اسی سلسلے میں قریش نے عُروہ بن مسعود ثقفی کو بھی رسول کریمﷺ کے پاس بھیجا۔ مختلف دیگر سرداروں کی طرح قریش کے سفیر کے طور پر عُروہ بن مسعود آنحضورﷺ کے پاس آئے۔ وہ مالدار اور طاقتور قبیلے بنو ثقیف کے سردار تھے اور اپنے لائو لشکر کے ساتھ قریش کی مدد کیلئے طائف سے مکہ آئے تھے۔ قریش نے ان کو یہ مشن سونپ کر روانہ کیا کہ وہ مسلمانوں کو واپس بھیج دیں۔ یہ بہت زیرک‘ جہاندیدہ اور وجیہ انسان تھے۔ آنحضورﷺ کے پاس آکر عُروہ بن مسعود نے قریش کی قوت وطاقت اور جنگ کی صورت میں پیش آنے والی تباہی کا بڑا بھیانک نقشہ کھینچا۔ مکہ سے چلتے ہوئے اہلِ مکہ کو بھی انہوں نے اسی انداز میں سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ جنگ کا ارادہ ترک دیں مگر عکرمہ بن ابی جہل اور قریش کے دیگر پُرجوش نوجوان ایسی کوئی بات سننے کیلئے تیار نہ تھے۔
عُروہ بن مسعود نے اس موقع پر آنحضورﷺ سے جو گفتگو کی اس کی تفصیل سیرت ابنِ ہشام (جلد دوم)‘ مغازی للواقدی (جلد دوم)‘ تاریخ طبرانی (جلد دوم) اور دیگر کتب میں ملتی ہے۔ عُروہ نے نبی اکرمﷺ سے گفتگو کے دوران کچھ ایسی باتیں کہیں جن پر سیدنا ابو بکر صدیق جیسے سلیم الطبع صحابی بھی اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکے۔ ابن ہِشام کے الفاظ میں اس نے آنحضورﷺ سے کہا: ''اے محمد(ﷺ)! اگر آپ کے اور قریش کے درمیان جنگ ہوئی تو نہ صرف بڑی خون ریزی ہوگی بلکہ آپ کو بہت خطرناک نتائج وعواقب کا بھی سامنا کرنا ہو گا۔ میں آپ کے گرد جن لوگوں کو دیکھ رہا ہوں یہ غیر معروف سے لوگ ہیں۔ مجھے تو ان کے نام و نسب کا بھی کوئی پتا نہیں۔ مشکل وقت میں یہ آپ کو اکیلا چھوڑ کر بھاگ جائیں گے‘‘۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ آنحضورﷺ کی نشست کی پچھلی جانب کھڑے یہ گفتگو سن رہے تھے۔ ان سے ضبط نہ ہو سکا۔ انہوں نے سردارِ ثقیف کو مخاطب کرکے فرمایا: ''اے لات کے پجاری! تجھے ہمارے بارے میں بڑی غلط فہمی ہے۔ کیا ہم اپنے آقا کو‘ جو ہمیں اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہیں‘ چھوڑ کر الگ ہو جائیں گے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ واضح رہے کہ بنو ثقیف کا بت لات تھا اور اس کا معبد طائف میں تھا۔ ابرہہ کے لشکرِ فیل کو انہی لوگوں نے بیت اللہ کا راستہ بتایا تھا تاکہ وہ ان کے بت کو نقصان نہ پہنچائے۔ اسی وجہ سے تمام عرب ان کو لات کے پجاری کہہ کر عار دلایا کرتے تھے اور ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہ ہوتا تھا۔ (تفصیلات کے لیے دیکھیے سیرت ابن ہشام‘ جلد دوم‘ ص: 313)۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کے سخت جواب پر عُروہ کچھ پریشان سا ہوا اور اس نے حضورﷺ سے مخاطب ہو کر کہا: یہ کون شخص ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: یہ ابوبکر بن ابی قحافہ ہے۔ اب عُروہ کو ابوبکر صدیقؓ اور ان کے احسانات یاد آئے۔ زمانۂ جاہلیت میں حضرت ابوبکرؓ نے اس پر کئی احسانات کیے تھے۔ وہ ایک مرتبہ خون بہا کی رقوم ادا کرنے سے عاجز آگیا تھا تو اس نے تمام عرب قبائل کے اشراف سے مدد مانگی تھی‘ اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ایک خطیر رقم کے ساتھ اس کی مالی مدد کی تھی۔ اسے یہ احسانات یاد آگئے اور اسے یہی کہتے بنی کہ اے ابوبکر! بخدا میں بھی تمہاری سخت بات کا جواب سختی سے دے سکتا تھا مگر تمہارے احسانات نے میری زبان بند کر دی ہے۔ عُروہ بن مسعود نے اسی ملاقات میں ایک موقع پر آنحضورﷺ سے گفتگو کرتے ہوئے آپ کی داڑھی مبارک کو ہاتھ لگانا چاہا تو حضرت مغیرہؓ بن شعبہ جو آنحضورﷺ کے قریب کھڑے تھے‘ انہوں نے سختی کے ساتھ اس کا ہاتھ پیچھے ہٹا دیا۔ عربوں کے ہاں گفتگو کے دوران ایک دوسرے کی داڑھی کو پکڑنا ان کا معمول تھا مگر حضرت مغیرہؓ کو عُروہ کی یہ حرکت حضورﷺ کے ادب واحترام کے منافی اور بہت ناگوار گزری۔ حضرت مغیرہؓ نہ صرف بنو ثقیف میں سے تھے بلکہ یہ دونوں ایک ہی خاندان اور گھرانے سے تھے۔ عُروہ اور حضرت مغیرہؓ کا باپ شعبہ دونوں سگے بھائی تھے۔ یوں عُروہ حضرت مغیرہؓ کا سگا چچا تھا۔ عُروہ نے جب آنحضورﷺ سے اس نوجوان کی شکایت کی تو آنحضورﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ یہ تمہارا اپنا بھتیجا مغیرہ بن شعبہ ہے۔ عُروہ بن مسعود نے اپنے بھتیجے کو بہت برا بھلا کہا۔
حضرت مغیرہؓ صلح حدیبیہ سے تھوڑا عرصہ پہلے ہی مسلمان ہوئے تھے اور ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تھے۔ جب آنحضورﷺ عمرہ کیلئے مکہ روانہ ہوئے تو یہ بھی شریکِ سفر ہو گئے۔ یہ بیعتِ رضوان کے شرکا میں سے ہیں۔ یہ قوی الجثہ‘ چوڑے چکلے سینے اور لمبے مضبوط ہاتھوں والے تھے۔ زمانۂ جاہلیت میں ان کا مشغلہ لوٹ مار تھا۔ لوٹ مار کے دوران ان کے ہاتھوں کئی آدمی قتل بھی ہوئے۔ ایسا ہی ایک واقعہ بازارِ عکاظ کے قریب ہوا جس کے نتیجے میں بنو ثقیف کو خون بہا کی بھاری رقم ادا کرنا پڑی تھی۔ عُروہ بن مسعود نے اس موقع پر دل کی بھڑاس نکالنے کیلئے ان واقعات کا تذکرہ کرکے مغیرہ کو عار دلائی کہ اس نے ہمیشہ خاندان اور قبیلے کیلئے بدنامی کا سامان فراہم کیا اور اپنے بڑوں کی ناک کٹوائی ہے۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں