حضرت ابو دجانہ رضی اللہ عنہ …(2)

یومِ احد کے آغاز میں آنحضورﷺ نے اپنی تلوار نکالی اور اسے لہرا کر فرمایا: کون ہے جو مجھ سے میری یہ تلوار لے اور دشمن سے لڑے۔ صحابہ کرام میں سے ہر ایک کی یہ خواہش تھی کہ اسے یہ مبارک ومقدس تلوار مل جائے اور وہ اس کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: کون ہے جو اس کو لے اور اس کا حق ادا کرے؟ اب صحابہ کرام ذرا پیچھے ہٹ گئے کہ آنحضورﷺ کی تلوار کا حق ادا کرنے میں کوئی کوتاہی ہو گئی تو کیا بنے گا۔ یہ واقعہ اپنی کتاب سے اختصار کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
''رسول کریمﷺ نے اپنی تلوار نیام سے نکالی اور صحابہ کے سامنے اسے لہراتے ہوئے فرمایا: ''کون ہے جو مجھ سے میری تلوار لے لے؟‘‘ آپﷺ کا سوال سن کر بہت سے صحابہ دیوارنہ وار آپﷺ کی طرف لپکے۔ آپﷺ نے اپنی تلوار پیچھے کھینچتے ہوئے فرمایا: ''کون ہے جو اس تلوار کو حاصل کرنے کے بعد اس کا حق بھی ادا کرے؟‘‘ یہ فرمانِ نبوی سن کر دیگر صحابہ تو پیچھے ہٹ گئے کہ معلوم نہیں شمشیر نبوی کا حق ہم سے ادا ہو سکے گا یا نہیں‘ مگر دو صحابہ تلوار حاصل کرنے کیلئے بے تاب تھے۔ یہ تھے حضرت زبیرؓ بن عوام اور حضرت سماک بن خرشہ المعروف ابودجانہؓ۔ آپﷺ نے دونوں کی جانب دیکھا اور تلوار ابودجانہ کو عطا فرما دی۔ حضرت ابودجانہؓ نے تلوار لیتے ہوئے عرض کیا: ''یا رسول اللہﷺ یہ بھی تو فرما دیجیے کہ اس کا حق کیا ہے؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کا حق یہ ہے کہ تو اس سے دشمنوں کو انجام تک پہنچاتا چلا جائے‘ یہاں تک کہ یہ ٹیڑھی ہو جائے‘ نیز یہ کہ کسی کمزور اور ضعیف اور کسی مسلمان کے خون سے اسے آلودہ نہ کیا جائے‘‘۔ حضرت ابودجانہؓ نے تلوارِ نبوی کو چوما اور اکڑتے ہوئے دشمن کی طرف رخ کیا۔ حضور اکرمﷺ یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ آپﷺ اپنے جاں نثارکے اس عمل پر مسکرائے۔ حضرت ابودجانہؓ نے واقعتاً اس روز تلوار کا حق ادا کر دیا۔
آنحضورﷺ کی تلوار لے کر جب حضرت ابودجانہؓ اکڑتے ہوئے دشمن کی طرف بڑھے تو آنحضورﷺ نے مسکرا کر کہا کہ اللہ کو بندے کا اکڑ کر چلنا پسند نہیں مگر آج ابودجانہ کا اس انداز میں دشمن کی طرف بڑھنا اللہ کو پسند آیا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اپنی ذات کیلئے نہیں اکڑ رہے تھے بلکہ دشمن پر اسلام کی دھاک بٹھانے اور حق کا رعب قائم کرنے کیلئے ایسا کر رہے تھے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے دو مقامات پر واضح الفاظ میں ہدایت دی ہے کہ اس کی زمین پر بندے کا اکڑ کر چلنا ممنوع ہے۔ اس موقع پر اس میں استثنا خود صاحبِ قرآنﷺ نے دیا اور آپﷺ کا ہر فرمان اللہ کا حکم ہوتا ہے۔ قرآن کریم کی آیات سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ لقمان میں یوں ارشاد ہوئی ہیں: ''اور زمین میں اکڑ کر نہ چلو (کہ) تم نہ زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو‘‘ (بنی اسرائیل: 37)۔ ''اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کیا کرو‘ نہ زمین میں اکڑ کر چلا کرو‘ اللہ کسی خودپسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا‘‘ (لقمان: 18)۔ واضح رہے کہ حضرت ابودجانہؓ کا بالکل یہ معمول نہیں تھا کہ اکڑ کر چلیں۔ اس عمل کو اس روز آپؓ نے جنگی حکمت ِ عملی کے طور پر اپنایا تھا۔
حضرت زبیرؓ بڑے بہادر اور طاقتور جنگجو تھے اور حضور اکرمﷺ کے پھوپھی زاد بھائی بھی تھے۔ آپؓ سابقون الاولون اور عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔ انہیں آنحضورﷺ کی تلوار نہ ملنے کا ملال تھا۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں نے سوچا آج دیکھوں گا‘ ابودجانہ اس تلوار کا حق کس طرح ادا کرتے ہیں۔ ابودجانہؓ نے جب دشمن کی صفوں کو چیرا اور کشتوں کے پشتے لگائے تو حضرت زبیرؓ پکار اٹھے: ''بخدا اس تلوار کا وہی حق دار تھا‘‘۔ حضرت زبیرؓ کے اس بیان سے واضح ہوتا کہ صحابہ کرام کے درمیان سبقت فی الخیرات کا مقابلہ تو ہوتا تھا مگر کبھی ایک دوسرے کے بارے بغض اور حسد ان کے دلوں کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا تھا۔ وہ سراپا اخلاص اور خیر خواہی کا مجسمہ تھے۔
روایات میں آتا ہے کہ حضرت ابودجانہؓ مردوں کی صفیں چیرتے ہوئے اس جگہ پر پہنچ گئے جہاں سردارِ قریش ابوسفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ اپنی ہم نشین قریشی خواتین کے ساتھ رزمیہ شعر گا رہی تھی۔ آپؓ نے اپنی تلوار ہند کی گردن پر رکھ دی۔ اس موقع پر ہند چیخنے لگی۔ حضرت ابودجانہؓ نے اسے زخمی کیے بغیر اپنی تلوار اٹھا لی۔ جب واپسی پر حضرت ابودجانہؓ سے پوچھا گیا کہ تم نے ہند کو قتل کیوں نہ کر ڈالا تو فرمایا: ''ایک تو اس لیے کہ یہ آنحضورﷺ کی تلوار تھی اور میں نہیں چاہتا تھا کہ کسی عورت کے خون سے آلودہ ہو جائے اور دوسرا‘ جب میں نے اس کی گردن پر تلوار رکھی تو اس نے بے بسی سے چیخ ماری جس کے جواب میں کوئی ایک بھی قریشی جوان مرد اس کی مدد کیلئے نہ آیا۔ میں نے سوچا کہ ایسی بے چارگی کی حالت میں اس بے بس خاتون کو کیا قتل کرنا‘‘۔
کتب تواریخ میں ان رجزیہ اشعار کو بھی رقم کیا گیا ہے جو ہند میدان جنگ میں پڑھ رہی تھی۔ ان میں سے چند ایک کا ترجمہ یوں ہے:
ہم ان سرداروں کی بیٹیاں ہیں جو آسمان کے ستاروں کی مانند روشن اور بلند مرتبہ ہیں۔ ہم ناز پروردہ (شہزادیاں) ہیں اور قیمتی قالینوں پر چلتی ہیں۔
ہمارے چلنے کا انداز شتر مرغ کی طرح شاہانہ یا تیتر کی طرح نازک اندام ہوتا ہے جس کی چمک دمک سے آنکھیں خیرہ ہوتی ہیں۔
ہماری مانگ میں مشک کی خوشبو رچی بسی رہتی ہے۔ ہماری گردنوں میں موتیوں کے قیمتی ہار ہیں۔
اگر تم آگے بڑھ کر دشمن پر حملہ کرو گے تو ہم تمہیں گلے لگائیں گی اور تمہارے لیے قالین بچھائیں گی۔
لیکن اگر تم نے پیٹھ پھیری تو یاد رکھو کہ ہم تمہارے ساتھ قطع تعلق کر لیں گی۔ یہ ایسی قطع تعلقی ہو گی کہ گویا ہم تم سے کبھی آشنا ہی نہ تھیں۔
یہ چھوٹے چھوٹے مصرعے اور شعر عوامی گیت کے انداز میں کہے گئے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ صوتی ہم آہنگی کے لحاظ سے یہ خاصے کا کلام ہے۔ پھر ان اشعار میں رزمیہ رنگ پایا جاتا ہے اور جب مردانِ جنگ کے سامنے سریلی آواز میں قریش کی اشراف خواتین نے یک زبان یہ رزمیہ ترانے گائے ہوں گے تو بلاشبہ ایک سماں بندھ گیا ہوگا۔ یہ اشعارتقریباً تمام تاریخی کتب میں مذکور ہیں۔ (مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے‘ رسولِ رحمت تلواروں کے سائے میں‘ جلد دوم)
جنگ احد میں گائے گئے یہ اشعار اور ان کو گانے والی قریشی خواتین کی خوش الحانی اپنی جگہ مگر شوقِ شہادت سے سرشار مجاہدین اور جنت کے طلبگار اہلِ ایمان کا جذبہ ان سے بہت بلند وبالا تھا۔ حضرت ابودجانہؓ کی بہادری بھی دیکھیے کہ صفوں کو چیرتے ہوئے کہاں تک پہنچ گئے اور پھر ان کے تقویٰ کا کمال ملاحظہ فرمائیے کہ شمشیر نبوی کو ایک دشمن خاتون کے خون سے آلودہ نہ ہونے دیا۔ اللہ کے رسولﷺ اور صحابہ کرامؓ نے جنگوں میں جو عظیم نمونے پیش کیے ہیں‘ ان کی مثال کسی قوم کے ہاں نہیں ملتی۔
رسول رحمتﷺ نے دنیا کو زندگی کے خوب صورت اصول وضوابط سے نوازا ہے۔ صلح ہو یا جنگ‘ تجارت ہو یا معاشرت‘ سیاست ہو یا عبادت‘ غرض حیاتِ انسانی کے ہر شعبے میں جامع اور بے مثال منشور اور اس پر عمل کرنے کی زندہ جاوید مثالیں بھی تاریخ میں رقم کی ہیں۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں