اللہ رب العالمین نے انسان کو احسنِ تقویم میں تخلیق کیا ہے۔ جو شخص ظاہری شکل وصورت میں حسین وجمیل ہو‘ اس کیلئے حسنِ خَلق کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور جو اپنے اخلاق میں اچھا ہو‘ اس کیلئے حسنِ خُلق کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ نبیﷺ نے اپنی امت کو آئینہ دیکھنے کیلئے جو دعا سکھلائی ہے‘ اس میں بھی بے پناہ حکمت ہے۔ دعا کے الفاظ یوں ہیں: ''اے اللہ جیسے تُو نے میری شکل کو خوبصورت بنایا ہے‘ ویسے ہی میرے اخلاق کو بھی خوبصورت بنا دے‘‘ (مسند احمد)۔ ظاہری شکل وصورت کا حسن وجمال بھی اچھی چیز ہے مگر اس سے زیادہ نفع بخش حسنِ خُلق ہے جو انسان کو اللہ کا قرب عطا کرتاہے۔ نبی پاکﷺ اخلاق کے اُس مقام پر فائز تھے کہ جس کی گواہی خود رب کائنات نے یوں دی: وانک لعلی خلق عظیم (القلم: 4)۔ یہ حسن خُلق ہی تھا کہ اللہ رب العالمین آنحضورﷺ پر ہمیشہ اپنی نظر رحمت فرماتا۔ ارشاد فرمایا: آپ ہماری نگاہِ التفاف میں ہیں‘‘ (الطور: 48)۔ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ آپﷺ کے راتوں کو اٹھنے اور اپنے ساتھیوں کے درمیان گھومنے پھرنے کا تذکرہ کرکے فرماتا ہے: ''تمہارا رب تمہیں اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم (رات کو) اٹھتے ہو اور وہ سجدہ گزار (صحابہ) کے درمیان آپ کی نقل وحرکت پر بھی نگاہ رکھتا ہے‘‘۔ (الشعراء: 218 تا 219)
نبی کریمﷺ نے انسانیت کیلئے حسنِ اخلاق کا بہترین نمونہ پیش کیا اور ایسا کمال کر دکھایا کہ بداخلاقی کرنے والوں کا جواب بھی حسنِ خُلق سے دیا اور ظلم وزیادتی کرنے والوں کے بارے میں بھی کلمۂ خیر ہی کہا۔ اپنے دوستوں اور احباب‘ عزیز واقارب اور رشتہ داروں سے حسن اخلاق اور محبت سے پیش آنا بھی خوبی سہی‘ مگر یہ تو آسان کام ہے لیکن غیروں کیلئے محبت بانٹنا اور ان کی زبان سے گالیاں سن کر دعائیں دینا آنحضورﷺ ہی کی شان تھی۔ آپﷺ کی زندگی میں بڑے بڑے مشکل مراحل آئے لیکن ہر مشکل گھاٹی سے آپ کمال عظمت وشان کے ساتھ گزرے۔ طائف کے لوگوں نے آپﷺ کے ساتھ جو معاملہ کیا اور ظلم ڈھایا‘ اس کے جواب میں آپﷺ کا عفو ودرگزر کا اسوۂ حسنہ بے مثال و بے نظیر ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے ایک مرتبہ آپﷺ سے پوچھا کہ کیا اُحد کے دن سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آپ پر گزرا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں! گھاٹی کا دن‘ یعنی طائف میں گزرنے والا وہ دن سنگین ترین تھا جب طائف والوں نے پتھروں کی بارش سے لہولہان کر دیا۔ ان لوگوں کے بارے میں بھی جب پہاڑوں کے فرشتے نے سلام عرض کرنے کے بعد پیشکش کی کہ انہیں پہاڑوں کے درمیان کچل دیا جائے تو اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: نہیں‘ ایسا ہرگز نہ کرنا۔ میں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں‘ عذاب بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ اگر ان لوگوں نے میری بات نہیں مانی تو اللہ ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا فرمائے گا جو اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کا حق ادا کریں گے۔ نبی اکرمﷺ کا یہ فرمان اپنی جگہ بڑی عظمت لیے ہوئے ہے لیکن اس کے ساتھ تاریخ کا یہ واقعہ بھی آنحضورﷺ کے معجزات ہی میں شمار کیا جانا چاہیے کہ ہم برصغیر کے مسلمان آنحضورﷺ کی اسی پیشگوئی کا مظہر ہیں۔ اس خطۂ ارض میں اسلام کا جھنڈا لہرانے والا مجاہد محمد بن قاسمؒ طائف کے قبیلے بنوثقیف کا چشم وچراغ تھا۔ (ملاحظہ فرمائیے رحمۃ للعالمین‘ ج: 1)
ایک مرتبہ آنحضورﷺ سے ملنے کے لیے ایک شخص حاضر ہوا۔ آپﷺ گھرمیں موجود تھے۔ آپﷺ نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ یہ شخص اپنے قبیلے کا بدترین آدمی ہے۔ پھر آپﷺ نے اسے گھر میں آنے کی اجازت دی اور بڑی نرمی وتپاک سے اس کا استقبال کیا۔ اس شخص کے چلے جانے کے بعد حضرت عائشہؓ نے تعجب سے پوچھا: یا رسول اللہﷺ آپ نے پہلے اس شخص کے بارے میں کچھ فرمایا تھا مگر پھر اس سے اچھے انداز میں ملاقات بھی کی تو آپﷺ نے فرمایا ''انسانوں میں سب سے برُا شخص وہ ہے جس کی درشتی اور فحش کلامی کی وجہ سے لوگ اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیں‘‘۔ (جامع الترمذی)
اس واقعہ میں ہمارے لیے کئی اسباق پوشیدہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ مخلص اہلِ ایمان کو بدخصلت لوگوں سے متنبہ رکھنے کیلئے ان کی برائی کا تذکرہ کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے کسی شخص کے بارے میں جانتے ہوئے بھی کہ اس میں خرابیاں ہیں‘ ایک اچھے انسان‘ مخلص مسلمان اور داعیٔ حق کو حسنِ خُلق کا دامن ترک نہیں کرنا چاہیے۔ کیا معلوم کہ یہی مخلصانہ حسنِ اخلاق کسی لمحے اس شخص کو بھی نیکی وخیر کی طرف مائل کر دے۔
نبی اکرمﷺ کے بہت سے اقوال ومعاملات دلوں کو فتح کرنے کاذریعہ بن گئے۔ سیرت کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ جب آنحضورﷺ بدر کی فتح کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو آپﷺ کے پاس ستر جنگی قیدی تھے۔ حضرت اُسید بن حضیرؓ ایک بزرگ صحابی تھے اور جنگ میں اس وجہ سے شریک نہ ہو سکے کہ روانگی کے وقت وہ مدینہ میں موجود نہ تھے۔ یہ بزرگ صحابی اہلِ یثرب کے ساتھ آپﷺ کے استقبال کے لیے روحاء کے مقام پر آپﷺ کے منتظر تھے۔ جب آپﷺ کی آمد پر انہوں نے آپﷺ کو مبارکباد دی تو ایک نوجوان صحابی حضرت سلمہ بن سلامہؓ نے کہا: ''بخدا ہمارے مخالفین تو قربانی کے جانوروں کی مانند تھے اور ہم نے انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ پھینکا‘‘۔ آپﷺ نے یہ الفاظ سنے تو فرمایا: ''بھتیجے وہ معمولی لوگ نہیں تھے بلکہ بڑے معزز اور طاقتور تھے لیکن خدا کی نصرت تمہارے ساتھ تھی اور وہ اس سے محروم تھے‘‘ (بدر الکبریٰ‘ محمد احمد باشمیل‘ بحوالہ البدایہ والنہایہ)۔ جنگی قیدیوں کے لیے آنحضورﷺ کا یہ جواب ان کے زخمی دلوں کا مرہم بن گیا۔ آپﷺ کے اس حسنِ خُلق نے ان کے دلوں کو فتح کر لیا۔ اس واقعہ میں بھی کئی دروس جلوہ فرما ہیں۔ ایک جانب آنحضورﷺ نے اپنے صحابہ کرامؓ کی تربیت کی کہ وہ دنیا دار فوجیوں کی طرح فتح کے نشے میں اترانے کے بجائے اسے نصرت خداوندی تصور کریں۔ دوسری جانب آنحضورﷺ نے اپنے مخالفین کو یہ بات کہہ کر احساس دلایا کہ دشمنی کے باوجود اہلِ اسلام انہیں حقیر نہیں جانتے۔
انسان بعض اوقات انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار ہوتا ہے۔ اشتعال کے تمام اسباب موجود ہوتے ہیں لیکن مخلص مومن کے لیے اسوۂ رسولﷺ یہی ہے کہ وہ اشتعال میں نہ آئے۔ حسنِ اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے اور وقتی جذبات کے تحت کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے دور رس نتائج پر نگاہ رکھے۔ یہ چیز انسان میں بڑی کوشش‘ توجہ اور تدبر کے نتیجے میں پیدا ہو سکتی ہے۔ قرآن مجید کا گہری نظر سے مطالعہ اورآنحضورﷺ کی سیرت سے مستقل تعلق انسان کے اندر ان تمام صفات کو پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے جو دنیا میں اس کی عزت ووقار میں اضافے کا باعث بنتی ہیں اور آخرت میں اللہ کے سایۂ رحمت میں جگہ بنانے کا مستحق بناتی ہیں۔
آج امتِ مسلمہ اگرچہ دشمنوں کی بدترین یلغار کا نشانہ ہے مگر عالمی تناظر میں واضح نظر آ رہا ہے کہ انسان ہدایتِ ربانی کے پیاسے ہیں۔ انہیں راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔ امت مسلمہ کے پاس آبِ حیات بھی ہے اور زہرِ ہلاہل کا تریاق بھی۔ ہم حسن خُلق کا نمونہ دنیا کو دکھا سکیں تو آج اسلام کی قبولیت کے لیے انتہائی سازگار فضا موجود ہے‘ اخلاقِ نبوی ہمارے لیے آخرت کی کامیابی کا یقینی ذریعہ ہے اور دنیا میں بھی اسلام کے غلبے کا مؤثر ترین ہتھیار ہے۔ اہلِ غزہ نے اپنی بے سروسامانی کے باوجود دنیا کی سپر طاقتوں کو بے بس کر دیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے اپنے حسنِ سلوک اور اسلامی اخلاق کی بدولت پوری دنیا کے لیے ایک اعلیٰ ترین مثال قائم کر دی ہے۔ یہ سب اخلاقِ نبوی پر عمل کرنے کی برکات ہیں۔ اللہ تعالیٰ پوری امت کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔