"AYA" (space) message & send to 7575

آپ ہی بتائیں کیا لکھیں اور کیا کریں

کہنے کی بات نہیں سب کو نظر آ رہا ہے کہ سیاست کے پانی ٹھہرے ہوئے ہیں‘ جمود کا شکار۔ صحافت لنگڑا کے چلنے پر مجبور ہے‘ آدھی زندہ آدھی کسی قبر میں دفن۔ شکر ہے ایک بارش ہو گئی ہے نہیں تو ہمارے بارانی علاقوں میں گندم کی فصل کا برا حال ہو جاتا۔ اب ایسا ہے کہ ذخیرے تو نہیں بنیں گے لیکن اپنے کھانے کیلئے کچھ دانے ہو جائیں گے۔ کب سے کہتے آئے ہیں کہ سیہون کے عرس پر حاضری دینی ہے‘ عرس آتا ہے گزر جاتا ہے اور ہمارے ارادے وہیں پڑے رہتے ہیں۔ الفت کی راہیں ہم جیسوں کے لیے پہلے ہی مسدود تھیں اب کہاں اُنہوں نے کھل جانا ہے۔ آسودگی ٔ شب کو نکلیں تو اچھا خاصا تردد کرنا پڑتا ہے۔ دھرتی کا کوئی قصور نہیں‘اس دھرتی کے ہرکارے ایسے رہے ہیں کہ جس شے کا اصول پوری دنیا میں پرابلم نہیں یہاں مسئلۂ عظیم بنا ہوا ہے۔ پراپرٹی کے کاروبار میں کبھی دلچسپی نہ تھی اس لیے فائلیں اُٹھا کے کہیں کے پھیرے تو نہیں لگا سکتے۔ نارمل زندگی چاہیے لیکن ماحول یہاں ایسا بنا دیا گیا ہے کہ نارمل زندگی کا حصول سب سے مشکل کام ہوچکا ہے۔
پاپی کا مطلب سمجھتے ہیں؟ ہم پاپی قسم کے لوگ ہیں اور خواہشات خاصی محدود ہیں۔ طبیعت پر افسردگی کے بادل چھائیں تو دل کرتا ہے تھوڑی رونق ہو جائے۔ وعظ و نصیحت کے کاموں کے لیے اپنے آپ کو کبھی قابل نہیں سمجھا‘ اسی لیے اُن راستوں پر چلنے سے پرہیز ہی کیا۔ اور شاید نصیب ہی ایسے تھے کہ بقول منیرنیازی کے مسائل کا سلسلہ ختم ہی نہ ہوا۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
جیسے عرض کیا دھرتی کا کوئی قصور نہیں ‘ دھرتی تو اچھی بھلی تھی۔ بس ہرکارے ایسے آئے کہ بیگاڑ کے رکھ دیا۔
بڑے کمال کی بات ہے ویسے کہ ایک دھرتی کے شوخ پن کو‘ اُس کی مسکراہٹ کو آپ ختم کر دیں۔ یہ کمال ہم نے یہاں کیا ہے۔ ہنسنے ہنسانے کا سامان بند ہو جائے تو پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟ مجھے ایک بات کوئی سمجھائے کہ اس پنجاب کے اور بارڈر پار پنجاب کے لوگ نسلاً ایک ہیں۔ وہی جسامت‘ وہی رنگت‘ وہی طور طریقے‘ وہی کلچر‘ وہی لوک گیت۔ وارث شاہ اور بابافرید صرف یہاں کے شاعر نہیں وہاں کے بھی ہیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ بھنگڑا جس انداز سے وہاں ادا کیا جاتا ہے یہاں وہ رسم ہم تقریباً بھول چکے ہیں۔ یہاں میلوں میں رونق ہوا کرتی تھی لیکن ایک سوچی سمجھی ترکیب کے تحت یہاں کے میلوں کی رونقیں سب ختم کر دی گئیں۔ مہک ملک جیسے آرٹسٹوں کو برداشت تو ضرور کیا جاتا ہے لیکن مہک ملک کے رقص میں کچھ زیادہ انگڑائی آ جائے تو پارسائی کے میناروں میں الجھن اور تکلیف ہونے لگتی ہے۔
بہت حد تک دیہی سیاست اب دو کارروائیوں تک محدود ہو چکی ہے‘ خوشی اور غمی کے مواقع اور اُن پر حاضری دینا۔ یہ تو چلیں ٹھیک ہے لیکن حتی الوسع کوشش کے باوجود شادیوں پر جانا پڑتا ہے۔ کیا لٹکے چہرے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ عورتیں ایک طرف مرد ایک طرف۔ کھانے کا انتظار اور اب تو یہ بیہودہ رسم چل نکلی ہے کہ ہمارے دیہی علاقوں میں بھی ساڑھے تین چار بجے سے پہلے دوپہر کے کھانے کا سگنل نہیں بجتا۔ وقت کا ضیاع‘ پیسے کا ضیاع اور اوپر سے اداس چہرے۔ اور چہرے ادا س کیوں نہ ہوں جب میزوں پر واہیات قسم کے کولے سجے ہوتے ہیں۔ کسی مہذب محفل میں کسی فِزی ڈرنک کا پینا پینے کے زمرے میں تو نہیں گنا جاتا۔ لیکن یہاں کیا کریں‘ اس دھرتی کا حال وہ بنا دیا گیا ہے کہ ہم ہیں اور ہمارے اوپر لدی مجبوریاں۔حتیٰ کہ ہمارے قلعۂ نظریات کی پہچان ہی مختلف قسم کی مجبوریاں ہوگئی ہیں۔ یہاں کی طرزِ حیات بھی ایک قسم کی مجبوری بن چکی ہے۔ حالیہ شادی کی ایک تقریب میں ایک سابق سفیر صاحب ملے۔ باہر بڑی تعیناتیاں کرکے آئے ہیں اور اب ریٹائرہیں۔ حال احوال پوچھا تو بے ساختہ بول اٹھے کہ میں مری پر آ گیا ہوں۔ اس جملے کو یہیں تک رہنے دیں‘ اس کی تشریح کی ضرورت نہیں اور سمجھدار ویسے بھی سمجھ گئے ہوں گے۔ یہ حالت ہم نے اپنی بنالی ہے۔
اس سال کے ہارس اینڈ کیٹل شو سے یاد آیا کہ ایک زمانہ تھا جب بڑی دھوم دھام سے اس شو کا انعقاد ہوا کرتا تھا۔ کوئی نہ کوئی غیر ملکی سربراہ مہمانِ خصوصی ہوتا۔ دوردراز کے اضلاع سے شرفا لاہور آتے شو دیکھنے۔ بڑا زمیندار ہوا تو فلیٹیز میں ٹھہر گیا نہیں تو مڈل کلاس قسم کے شرفا لاہور ہوٹل میں قیام کرتے تھے۔ اب نہ میکلوڈ روڈ کی رونقیں نہ لاہور ہوٹل کی روشنیاں۔ اب تو غالباً وہاں موٹرسائیکلوں کے شوروم بنے ہوئے ہیں۔ کاریں اُس زمانے میں ہوتی نہیں تھیں ‘ اچھے خاصے شرفا بھی جی ٹی ایس کی بسوں میں سفر کرتے ۔ اور ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ایک دو دن لاہور قیا م کیا ‘ شام کی محفلیں سجیں اور پھر اپنے اپنے علاقوں کو واپس ہو لیے۔ سال بھر پھر ہارس اینڈ کیٹل شو کی یادیں دل میں سمائی رہتی تھیں۔ اب اس نفسا نفسی کے زمانے میں‘ موٹر کاروں کی بھیڑ‘ شہر مختلف قسم کی آلودگی سے بھرے ہوئے اور ہر چیز عام آدمی کی دسترس سے باہر۔ یہی کہا جاسکتا ہے کوئی بدعا لگی اس دھرتی کو ‘نہیں تو جیسے کہا اچھی بھلی تھی۔
ہماری عمر کے لوگ اپنی زندگیوں کا بیشتر حصہ گزار چکے ہیں۔ ہم نے بہت کچھ دیکھ لیا۔ امیدوں کا بندھنا اور اُن کے ٹوٹنے کا عمل متعدد بار دیکھا۔ اب ہم جیسے لوگو ں کو یہ کوئی امید نہیں کہ فلاں پاٹے خان آئے گا اور ملک کو سرسبز وشاداب کر دے گا۔ پاٹے خانوں کے سحر سے ہم کب کے نکل چکے۔ جی ڈی پی گروتھ کتنی ہوگی‘ زرِ مبادلہ کے ذخائر کہاں تک جائیں گے‘ ایکسپورٹ کتنی ہوگی‘ ان چیزوں سے بھی ہم نکل چکے۔ ہرکارے وعظ و نصیحت سے باز آتے نہیں لیکن ایسے بھاشنوں کو سننے کی ہمت نہ صبر۔ دیکھتے ہیں کہ ٹریفک اہلکار بڑی گاڑیوں کو تو کچھ نہیں کہہ رہا لیکن ہر موٹر سائیکل کو روک رہا ہے تو دل کو اچھا نہیں لگتا۔ کہیں بھولے سے کسی سرکاری ہسپتال چلے جائیں تو وہاں کی ہڑبونگ دیکھ کر خیال اٹھتا ہے کہ ہم اتنے نالائق اور نظم و ضبط سے خالی لوگ کیوں ہیں؟ اسبابِ شب کیلئے کچھ زیادہ تردد کرنا پڑے تو سوال اُٹھتا ہے کہ ہماری اجتماعی نالائقی کی کچھ حد ہے یا نہیں؟
جمود صرف سیاست یا صحافت میں نہیں معاشرے میں جو اجتماعی رویے بن چکے ہیں اُن سے پتا چلتا ہے کہ ہمارا معاشرہ کہیں رکا ہوا ہے۔ ہم آگے نہیں بڑھ رہے‘ کسی پرانی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ نہیں کہ اس دھرتی پر جی دار قسم کے لوگ نہیں‘ بہت ہیں لیکن ان کے اوپر جو ہرکارے ہیں اور جنہیں یہ گھمنڈ ہے کہ ان میں اس معاشرے کو چلانے کی صلاحیت ہے یہ پتا نہیں اس دھرتی کو کہاں سے نصیب ہوئے ہیں۔ ان کے بس کی بات نہیں کہ کچھ کر سکیں یا اس ملک کی سمت درست کریں لیکن جان بھی نہیں چھوڑتے۔ ہم جیسے کہتے ہیں پھر بھی ٹھیک ہے‘ اگر اجتماعی نالائقی سے پالا پڑا ہے تو اُس کا کیا کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر کر کچھ نہیں سکتے تو ہماری زندگیوں کوغیر ضروری طور پر مشکل تو نہ بنائیں۔ گلستان نہ سہی گلستان کا کچھ شائبہ تو رہنے دیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں