حالات ایسے بن چکے ہیں کہ اپنے آپ کو فقیروں میں ہی شمار کرنا پڑے گا۔ بولنا مشکل‘ لکھنا بھی مشکل۔ حساسیت ایسی کہ سمجھ نہیں آتی کہ کیا کِیا جائے۔ اوپر سے کوئی وکیل‘ دانشور یا قوم کا معمار اُن آزادیوں کا ذکر کرے جو آئین میں درج ہیں تو ہاتھ پستول کو جاتا ہے۔ اب تو سمجھ پن اسی میں ہے کہ آئین وغیرہ کا ذکر ترک کر دیا جائے۔ دوست احباب چھبیسویں آئینی ترمیم کو روتے ہیں حالانکہ جنازہ تو اتنی چیزوں کا اُٹھ چکا ہے کہ صرف چھبیسویں آئینی ترمیم کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اور یہ بھی ہے کہ اوپر سے بہتوں کا اندازِ گفتگو یوں ہو گیا ہے کہ یہ شعر بار بار زبان پر آتا ہے:
اتنا نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ
قوم کے ساتھ جو ہوا وہ ہوا‘ اب ملال گیا رنج و غم گیا۔ مان لیا کہ یہی ہمارے نصیبوں میں لکھا تھا اور اس سے بہتر کے ہم حقدار نہ تھے۔ لیکن اتنی التجا تو ہو سکتی ہے کہ قوم کی اجتماعی عقل کی اتنی توہین نہ کی جائے۔ جنہوں نے خلعتیں پہن رکھی ہیں‘ سر پر تاج سجائے ہیں انہیں یہ سب مبارک ہوں۔ اُن سے البتہ اتنا تو کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے ووٹر کس نظر سے آپ کو دیکھتے ہیں وہ نہیں بھولنا چاہیے‘ لیکن یہ بیکار کی باتیں ہیں۔ ووٹر بے چارہ کس کھیت کی مولی۔ اس کی پہلے کیا اہمیت تھی کہ اب ہونی تھی۔ 1970ء میں پہلے عام انتخابات ہوئے‘ ووٹ تو ڈالے گئے‘ نتائج بھی سامنے آئے۔ 7دسمبر 1970ء کو جب پی ٹی وی پر نتائج سنائے جا رہے تھے تو ایسے لگ رہا تھا فرانسیسی اور روسی انقلاب دونوں پاکستان میں رونما ہو رہے ہیں۔ نتائج کی روشنی میں ایسے ایسے برج اس شب گرنے لگے کہ عقل دنگ رہ گئی۔ لیکن پھر جو اُن انتخابات کے نتیجے میں ہوا وہ ہماری تاریخ کا ایک سبق آموز حصہ ہے حالانکہ یہ اور بات ہے کہ ہم نے تاریخ سے کب کچھ سیکھا ہے۔
اور یہ بھی دیکھیے کہ اصل طرزِ حکمرانی ہے کیا۔ معاشی فیصلوں میں آپ کا حصہ تو کچھ بھی نہیں۔ وزیرخزانہ محمد اورنگزیب ہیں اور سٹیٹ بینک کے گورنر۔ ان کے اوپر مانیٹر آئی ایم ایف والے۔ معاشی پالیسی یہ لوگ سیٹ کر رہے ہیں اور بشمول وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے ان کا حصہ اس فیصلہ سازی میں 0/0ہے۔ وزیراعظم نہایت خوش اسلوبی سے نمائشی کاموں میں لگے ہوئے ہیں اور کبھی کبھار کوئی فیتہ کاٹ دیتے ہیں۔ ضرورت پڑے تو کشکول اٹھا کر ادھر اُدھر چلے جاتے ہیں۔ کتنے دن اقتدار کا یہ میلہ لگا ہوا ہے اسے انجوائے کیجیے۔ اور سچ پوچھیے تو کیا چچا کیا ہونہار بھتیجی سب کچھ انجوائے کررہے ہیں۔ آنیاں جانیاں دیکھیں تو گمان ہوتا ہے کہ پاکستان کی کایا بدلنے والی ہے۔
سب سے اہم بات البتہ یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کی کانگریس کے سامنے تقریر میں ہمارا ذکر ہو گیا۔ اس ذکر پر کیا شادیانے یہاں بجے ہوں گے‘ ایک دوسرے کو کیا تھپکیاں دی گئی ہوں گی۔ قوم کا مقام و اقبال تو دیکھیے کہ ہماری خوشیاں انہی چھوٹی چھوٹی چیزوں پر محیط ہیں۔ صاحب بہادر نے شاباش دے دی‘ ہمارا تھوڑا سا ذکر ہو گیا‘ تو اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت اسی پر خوش ہو گئی۔ زرخیزیٔ حالات بھی دیکھیے کہ کبھی ہمارے ہاں سے کوئی ایمل کانسی ملتا ہے‘ کوئی رمزی یوسف‘ کوئی خالد شیخ محمد‘ کوئی ابو زبیدہ اور کبھی کوئی اُسامہ بن لادن۔ اور اب شریف اللہ‘ جس کا ہمیں ممنون ہونا چاہیے کیونکہ وہ یہاں نہ ہوتا اور سی آئی اے والے اس کا پتا نہ دیتے پھر ہمارے شاہین و عقاب حرکت میں نہ آتے تو کہاں ٹرمپ کی تقریر اور کہاں ہمارا ذکر۔
بہرحال حاسدوں اور تنگ دلوں کا کیا علاج۔ کہتے ہیں کہ صاحب بہادر ایسے کاموں میں ہمیشہ ہمیں استعمال کرتے ہیں اور پھر ٹشو کی طرح پھینک دیتے ہیں۔ بے جا گلہ ہے کیونکہ نہ استعمال ہونے پر ہمارا اعتراض رہا ہے نہ ٹشو کی طرح پھینکیں جانے پر۔ ہم غمگین ہو جاتے ہیں اور باقاعدہ ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں اگر ہمیں استعمال میں نہ لایا جائے۔ پھر ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری تو کوئی اہمیت نہ رہی۔ کسی بھی حوالے سے چوکیداری کا کام لگے تو ہمارا یہ اعتماد بحال ہو جاتا ہے۔ اب کی بار بھی ڈر یہ نہیں کہ استعمال کے بعد ٹشو کی مانند رویہ ہو گا ڈر بس اتنا ہے کہ دھیان ہم سے پھر نہ جائے۔ اور دھیان مرکوز رکھنے کیلئے ہر کرتب کیلئے کب ہم تیار نہ رہے؟
کیا ہوگا آگے جاکر‘ بیکار کی باتیں ہیں۔ ہمیشہ یہاں پر سروکار وقتی تقاضوں سے رکھا گیا ہے۔ پاکستان کی پوری تاریخ دیکھ لیں‘ وقتی مجبوریوں اور مصلحتوں سے باہر پاکستانی حکمران کبھی نہیں گئے۔ یہ دورِ ابتلا جو چل رہا ہے بس یہ گزر جائے‘ ادھر اُدھر سے پیسے آتے رہیں‘ وقتی مجبوریاں ٹل جائیں‘ یہی کافی ہے۔ کل کس نے دیکھا ہے۔ جو آیا اپنے حصے کا ستیاناس کر گیا۔ کیسی انوکھی تاریخ ہے کہ ایک دور بھی نہ آیا جس کے بارے میں کہا جا سکے کہ حالات کتنے اچھے تھے۔ کچھ آفتیں اوپر سے آئی ہوں گی لیکن بیشتر کو ہمارے حکمرانوں اور حکمران طبقات نے خود پالا اور پوسا۔ جن پنگوں سے دور رہنا چاہیے تھا ان سے لپٹ گئے۔ اس تناظر میں موجودہ دور پھر کتنا منفرد یا انوکھا ہے؟ سلسلہ ایک ہی چل رہا ہے۔ ستیاناسی کے اجزا پر پھر رونا کیا۔
کیا دلفریب منظر تھا وہ جب حالیہ توسیع کے بعد کابینہ کی میٹنگ کنونشن سنٹر اسلام آباد میں بلائی گئی۔ حکومتی مہربانوں نے کسرِ نفسی سے کام لیا نہیں تو کابینہ اجلاس ایف نائن پارک کے کھلے میدان میں ہونا چاہیے تھا۔ تماشا ہو تو مکمل ہو۔ غالب تو صرف قرض کی مے پیتے تھے یہاں تو پورا ملک قرض پہ چل رہا ہے۔ لیکن مجال ہے کہ بیوقوفیوں میں کوئی کمی آئے۔ یہ غلط تشریح ہے کہ کہا جائے کہ وزیرو ں کی ایک فوج بھرتی کرنا یا اسمبلی ممبران کی اپنی تنخواہیں بڑھانا فضول خرچی کے زمرے میں آتا ہے۔ فضول خرچی نہیں یہ بیوقوفیاں ہیں۔ اور حیرانی اس بات پر ہوتی ہے کہ جن کو کچھ دیکھنا چاہیے ان کو کچھ نظر نہیں آتا۔ بہرحال ایسے ناٹکوں پر رونا کیا۔ ہماری ریاست کی یہ روٹین بن چکی ہے۔ جن کی موجیں لگی ہوئی ہیں خوش قسمت ہیں اور جن عوام کے رگڑے لگے ہوئے ہیں وہ حالات کو برداشت کریں اس خیال سے کہ یہی ہماری تقدیر ہے۔
مسئلہ صرف اتنا ہے کہ وقت ایسا آ چکا ہے کہ ہر ایک نے نیند کی گولی نہیں کھائی ہوئی۔ جو ایسا کر سکتے ہیں وہ معاملات اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں اور یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ شورش وہاں دب نہیں رہی زیادہ خطرناک ہو رہی ہے۔ کے پی کے کی صورتحال دیکھ لیں‘ اس پر غور کریں تو لرزہ طاری ہونے لگتا ہے۔ اور ہمارے جو چکوال اٹک اور میانوالی کے علاقے ہیں‘ کے پی کے تو ہمارے پڑوس میں ہے۔ تب کے افلاطون کیا رام کہانیاں سناتے تھے کہ افغانستان کی بدولت پاکستان کو سٹریٹجک گہرائی نصیب ہو گی۔ ایسی گہرائی جو اَب ہمارے گلے پڑی ہوئی ہے۔ اور کسی کو سمجھ نہیں آ رہی کہ تدارک کیلئے کرنا کیا ہے۔ کس معصومانہ انداز سے کہا جاتا ہے کہ شورش زدہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے قومی اتحاد کی ضرورت ہے۔ دھیان بٹے ہوئے ہیں‘ فروعی کاموں میں قومی توانائیاں صرف ہو رہی ہیں‘ اور بات پھر اتحاد کی۔ عوام کو خاطر میں لانا نہیں اور بس اتحاد کا راگ الاپتے رہنا۔ کہیں سے تو امید کی کرن نظر آئے لیکن شام اندھیری اور غم ایسے کہ بھلائے نہ جائیں۔