"AYA" (space) message & send to 7575

کس چراغ کے گرد زمانہ گھومے ہے

عقیدے یا نظریے کی بات نہیں‘ حقیقت کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک چیز دیکھ رہے ہیں۔ مدتِ قید اڑھائی سال سے زیادہ ہو چلی ہے۔ زبردستی کے زمرے میں کون سے ہتھکنڈے نہیں آزمائے گئے ‘جماعت کو دیوار سے لگانے اور نام اور تصور کو عوامی ذہن سے مٹانے کیلئے۔ لیکن غیر جانداری سے دیکھیں تو نظر آئے گا کہ اس سب کچھ کے باوجود مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہوئے ۔ عوامی خیالات میں جس قسم کی تبدیلی کی توقع کی جارہی تھی‘ وہ نظر نہیں آتی۔الزام اور تہمتوں کا بھی کوئی خاص اثر نہیں لیا جا رہا۔آج بھی عوامی سوچ فروری 2024ء کے انتخابات پہ کھڑی ہوئی ہے۔
یہ بات کسی ماجرے سے کم نہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں شاید ایسی دوسری مثال نہیں ملتی۔ بھٹو کی مقبولیت تھی لیکن تب کے حکمرانوں نے بھٹو کو تختہ دار پر پہنچا دیا تھا اور پھر پنجاب جو بھٹو کی عوامی طاقت کا مرکز تھا‘ وہاں سے پیپلز پارٹی کا اثر بتدریج کم کیا جاتا رہا اور جنرل ضیاالحق کی نرسری میں جن پودوں کو پالا پوسا گیا اُن کو مسند ِ اقتدار پر براجمان کر دیا گیا۔مگر اِن کا معاملہ ایسا نہیں اور شاید حالات بھی اجازت نہیں دیتے کہ داستانِ بھٹو آج کے سیاق وسباق میں دہرائی جائے۔ اقتدار کے ایوانوں میں یہی مسئلہ درپیش ہے کہ جس چراغ کو بجھانے کی کوشش کی گئی‘ بجھ نہیں رہا اور لو چراغ کی ایسی ہے کہ تمام کوششوں کے باوجود پوری پاکستانی سیاست اُس کے گرد گھوم رہی ہے۔ تمام گفتگو‘ اقتدار کے ایوانوں سے اُٹھنے والی دشنام طرازی اسی سے جڑی ہوئی ہے۔ لگتا تو یوں ہے کہ ہمارے دیس میں دیگر تمام موضوع اس ایک موضوع کے سامنے ماند پڑ گئے ہیں۔ تمام کا تمام سوشل میڈیا اس ایک موضوع سے دم لے رہا ہے۔ حال یہ ہے کہ یہ ایک ذکر ختم ہو جائے تو ٹاک شوز میں کہنے کو کچھ نہ رہے۔ باہر بیٹھے یوٹیوبرز کا کام بھی اس ایک موضوع پر چل رہا ہے۔ صبح شام یہی ایک ذکر۔ ہمارے معتبر دوست فیصل واوڈا کی شہرت اور پہچان اسی ایک موضوع سے ہے‘ ورنہ کون اُن کی بات اتنے دھیان سے سنے۔
یہ سب کچھ ہمارے سامنے ہو رہا ہے۔ ہتھکنڈے بھی تمام ہمارے سامنے ہیں اور اُن کے بے اثر ہونے کا نظارہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ یہ سب کچھ کہانی کے سکرپٹ کے مطابق نہیں۔ گرفتاری عمل میں لائی گئی اور مقدمات کی ایک طویل فہرست ترتیب دی گئی تو ایسے انجام کی توقع اقتدار کے ایوانوں میں نہ ہو گی۔ تب تو یہی سمجھا گیا تھا کہ جماعت کا وجود رہا بھی تو برائے نام رہ جائے گا اور قید کی مدت نے طوالت پکڑی تو لوگوں کے ذہنوں میں خیال کا چراغ مدہم ہوتا جائے گا۔ یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ ہم جیسے کمزور دل کچھ زیادہ ہی کمزور ہو گئے کیونکہ جشنِ زنداں کا اثر ہم پر کچھ زیادہ ہی پڑ گیا۔ 2030ء‘ 2035ء کے اعداد ہمارے ذہنوں پر نقش ہو گئے کہ شامِ غم لمبی ہی ہو گی اور جلد تغیر اس میں ممکن نہ ہو گا۔ لیکن ہماری حیران کن آنکھوں کے سامنے کیا ماجرا رونما ہو رہا ہے کہ زوال کی گھڑیاں اتنی گراں نہیں گزر رہیں کیونکہ دیکھ رہے ہیں کہ جہاں ہمت قائم ہے وہاں عوام کے حوالے سے سحر میں بھی کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ نتیجتاً ہم جیسوں کے ہارے ہوئے دل پھر سے قائم ہو رہے ہیں۔
ایک طرف قانون سازی کی ایسی بھرمار کہ ہماری داغ داغ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ آئین میں ترامیم کا اتنا بوجھ کہ بے چارا آئین اس کا بوجھ اُٹھا نہ سکے۔ دوسری طرف ایک عجیب کیفیت کہ عوام کا بیشتر حصہ قانون سازی کے ناٹکوں سے بے نیاز ہے۔ نظریں جہاں ہیں وہیں جمی ہوئی ہیں۔ امید کی کرن جہاں سے نظر آ رہی ہے اُس میں تمام ہتھکنڈوں کے باوجود کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ایک بات جو اقتدار کے ایوان سمجھنے سے قاصر ہے کہ سختیوں اور پابندیوں کے اضافے سے مطلوبہ نتائج حاصل ہونے کے بجائے قیدی نمبر فلاں کے افسانوی کردار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمت کی بدولت افسانہ تو پہلے ہی بن گیا تھا لیکن قیدِ تنہائی کی سختی‘ ملاقاتوں پر پابندی اور برا بھلا کہنے کی مہم کی وجہ سے یہ کردار زیادہ نمایاں ہو رہا ہے۔
یہ بات بھی سمجھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ موسمِ مقدمات شروع ہوا تو چپ رہنے کی عادت عام ہونے لگی۔ اب وہ عادت ٹوٹ رہی ہے۔ زبانوں پر الفاظ آنے لگے ہیں۔ یہ بات ہم جیسے کمزور دل بھی سمجھتے تھے کہ زوال کی گھڑیاں شروع تو آسانی سے ہو سکتی ہے لیکن اُنہیں طول دینا مشکل ہوتا ہے ۔ یہی ہم یہاں دیکھ رہے ہیں۔ جو کیفیت سال ڈیڑھ سال پہلے تھی اب نہیں رہی۔ کچھ کہنے سے پہلے دائیں بائیں دیکھنے کی عادت ختم ہو رہی ہے۔ اور جیسا ہم دیکھ رہے ہیں کہ طعن و تشنیع کا اثر بالکل اُلٹا ہو رہا ہے۔ تنبیہ لینے کے بجائے ہنسی مذاق کا سامان بن رہا ہے۔ اور یہ سب کچھ اُسی موسم میں ہو رہا ہے جب قانون سازی کے اتنے قطب مینار کھڑے کئے گئے۔
اس روداد سے کیا نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے؟ یہی کہ تمام کمزوریوں کے باوجود ہماری قوم اتنی نکمی یا بیکار نہیں۔ بہت کچھ برداشت کر لیتی ہے لیکن وقت آتا ہے تو صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے اور گُنگ زبانیں کھلنے لگتی ہیں۔ کتنے تجربات پہلے نہیں آزمائے گئے۔ کتنے ہی آئے لیکن کون اُن کو آج یاد کرتا ہے؟ آج کے نوجوانوں کے ذہنوں سے یہ خیال کبھی گزرا ہو گا کہ فیصل مسجد کے سامنے کس کو دفن کیا گیا؟ جمہوریت کے تجربات یہاں اتنے کامیاب نہ رہے ہوں گے لیکن آزادی اور آزادیٔ اظہار کا ایک تصور پاکستانی قوم کی سوچ سے کبھی ختم نہیں ہوا۔ شام یا مصر جیسی حکمرانی یہاں قائم نہیں ہو سکتی۔ جلد یا بدیر عوامی احساسات کے اظہار کا کوئی راستہ نکالنا پڑتا ہے۔ آٹھ سال کے سخت ترین اقتدار کے بعد ضیاالحق کو الیکشن کرانے پڑے تھے خواہ وہ غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد ہوئے۔ کرشماتِ فارم 47 ایک مرتبہ ہی رونما ہو سکتے ہیں۔ کبھی نہ کبھی تو اگلے الیکشن آئیں گے ۔ 47 کا پھر جادو چلانا آسان نہ ہو گا۔
پختونوں کی سرزمین کے حالات دیکھ لیے جائیں۔ جی نہ چاہتا ہو گا کہ نوجوان چیف منسٹر سہیل آفریدی کی حکومت آناً فاناً لپیٹ دی جائے؟ کتنے دھڑکتے دل ہوں گے جن میں گورنر راج نافذ کرنے کی آرزو تڑپتی نہ ہوگی؟ لیکن کیوں نہیں کوئی قدم اٹھایا جا رہا؟ گورنر راج کے نسخے سے اتنی واضح ہچکچاہٹ کیوں؟ کیونکہ مجموعی حالات وہاں کے نازک ہیں اور پختون بہن بھائیوں کا ایک اپنا مزاج بھی ہے۔ بارڈر بند ہے اور کئی اضلاع میں جنگی حالات نظر آتے ہیں۔ بلوچستان میں شورش کی ایک اپنی نوعیت ہے۔ مطلب یہ کہ ہمارے مغربی صوبوں میں صورتحال خطرناک ہے جو احتیاط کا تقاضا کرتی ہے۔ ایسے میں اندرونی محاذ آرائی کہاں سے دانش مندی کی مثال قائم کرتی ہے؟ ملکی صورتحال فضول کی بیان بازی کا تقاضا نہیں کرتی۔ کوشش تو یہ ہونی چاہیے کہ اندرونی محاذ آرائی ختم ہو۔ رویوں میں کچھ نرمی آئے‘ سلجھی ہوئی زبان کی عادت ڈالی جائے۔ لیکن جہاں رویے اتنے سخت ہو جائیں اور ذہنوں میں بغض اور نفرت بھر آئے وہاں عقل کی بات کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔
بس یہی سوچ حاوی ہو جاتی ہے کہ بند مٹھی سے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ کل سقوطِ ڈھاکہ کی برسی تھی جو اسی کی یاد دلاتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں