وہ شخص اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے‘ وہ ہے کون۔ ذہنیت اُس کی ڈیلوینل یعنی کھچکی ہوئی ہے‘ اپنی ذات کو پاکستان سے زیادہ سمجھتا ہے۔ اُس کے بارے میں اب واضح طور پر کہنا پڑے گا کہ وہ قومی سیکورٹی کے لیے ایک اندرونی خطرہ بن چکا ہے۔
کوئی تذکرہ نہیں کہ وہ بیٹھا کہاں ہے اور اُس کے اور اُس کی جماعت کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ بس یہ تکرار کہ وہ ذہنی مریض ہے۔آئین و قانون کا سب اہتمام ہو گیا اور مرضی کی شقیں ڈال دی گئیں ۔ دیکھنے والا سمجھے کہ اب تو کوئی فکر یا پریشانی کی گنجائش نہیں رہی اوریہاں دنیا کے سامنے ببانگ دہل مسئلہ بالکل اُلٹا کہ اضطراب کی ایسی کیفیت بیان کی جا رہی ہے جس کا سلسلہ ختم نہیں ہو رہا۔ کہنا یہ ہے کہ وہ ذہنی مریض دشمن کا بیانیہ بنا رہا ہے۔ جیل کا کوئی ذکر نہیں سلاخوں کی طرف کوئی اشارہ نہیں۔ دو سال سے زائد عرصے سے آزادی سے محروم ہے۔ میڈیا سے کوئی رابطہ نہیں‘ ٹی وی چینلوں پر اُس کے نام اور ذکر پر قدغنیں‘ انٹرنیٹ کے گرد فائر وال کا اہتمام‘ جماعت زیر عتاب‘ بے شمار اُس کے نمائندے اور لیڈر زیر حراست ہیں۔ کہیں عرصے بعد کوئی ٹویٹ اُس کی آ جاتی ہے تو مطلب اُس کا یہ نکلتا ہے کہ ریاست کا تمام زور اور تمام اختیارات ایک طرف اور ایک ٹویٹ آ جائے تو اس پر بے چینی کا یہ عالم کہ ذہنی مریض نے یہ کیا کردیا۔ اتنے جبر کے بعد دریاؤں کا رُخ تبدیل ہو جاتا اور پتھر پگھل جاتے پر یہاں ایک آدھ ٹویٹ اور میڈیا میں چھوٹا موٹا بیان ایسی کیفیت پیدا کردیتا ہے جو کم از کم ہم جیسے کم عقل والوں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔
حضورِ والا اتنا تو دیکھا جائے کہ اس سے کیا تاثر قائم ہوگا۔ اس سے تو یہی تاثر ملتا ہے کہ عرصہ دراز سے قیدِتنہائی کے باوجود مقید شخص کے الفاظ میں اتنی قوت ہے کہ باہر بیٹھے لوگوں کے لیے پریشانی کی ایک گہری صورتحال پیدا ہو جائے۔ سرکارکے کاسہ لیس تو یہ راگ الاپ رہے تھے کہ قیدی کی پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔ گھبراہٹ کے عالم میں گرفتار ہے۔ اس بات پر پریشان ہے کہ اُس کی جماعت مؤثر احتجاج نہیں کر سکی۔لگتا یوں تھا کہ سرکارکی جانب جھکاؤ رکھنے والے ایسے شوشے چھوڑنے میں مصروف ہیں کہ قیدی نمبر فلاں فلاں ٹوٹا تو نہیں لیکن ٹوٹنے کے قریب پہنچنے والا ہے۔ قوم کو جو ذہنی مریض کی نوید سنائی گئی ہے اُس سے تو بالکل دوسرا تاثر ابھرتاہے ۔
اتنا تو پھر ثابت ہو گیا کہ جبر کی تمام داستانیں رائیگاں ثابت ہورہی ہیں۔ اقتدار سے محرومی‘ زیر عتاب ہونے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ‘ قومی انتخابات کا فارم 47 کے کرشمات کی نذر ہونا‘ لیڈر کی قیدِ تنہائی اور ملاقاتوں کے سامنے رکاوٹیں اور پابندیاں لیکن پھر بھی مقصد حاصل نہ ہوا۔شیکسپیئر کے لازوال ڈرامے 'میک بیتھ‘ کا وہ کیا مرکزی سین ہے کہ میک بیتھ مخالفین کا صفایا کرکے بیگم کے ساتھ کھانے کی میز پر بیٹھا ہے اور بینکو (Banquo) کا بھوت میز کی دوسری طرف آن بیٹھتا ہے اور میک بیتھ خوف میں مبتلا ہو جاتاہے۔
یہاں ہر طرح سے ضروری اہتمام کر لیا گیا ہے مگر اضطراب کا ایک عالم اب بھی ہے۔ رونا دھونا تو معتوب جماعت کی طرف سے ہونا چاہیے تھا کہ آنے والی ایک مدت تک سانس لینے کی مہلت نہ ہوگی۔ سلسلۂ جبر ختم نہ ہوگا اور کوئی سیاسی راستے نہ کھلیں گے۔تین ہفتے بعد ایک ملاقات ہوئی‘ ایک بہن ہی اندر جا سکی‘ باہر آتے میڈیا سے چند جملوں کا تبادلہ ہوا جس میں کوئی خطرناک یا باغیانہ بات نہ کہی گئی۔ بس وہ غیر ملکی صحافی سے گفتگو اور خان کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایک ٹویٹ۔ کوئی جلسۂ عام نہیں‘ لاؤڈ سپیکروں پر کوئی اعلانات نہیں‘ ٹی وی چینلوں پر کوئی بیان نہیں۔ بس ایک ٹویٹ ہی ہے اور اس پر بھی تہلکہ مچ جاتا ہے۔ کوئی پوچھے تو سہی کہ مخصوص قیدی سے اتنی پریشانی کاہے کو۔ ملاقاتیں نہ پیغام رسانی کا کوئی ذریعہ۔ آئین اور تمام ترمیمات ایک طرف اور پریشانی اور گھبراہٹ دوسری طرف ۔ ہر چیز پر گرفت ‘ پورا ڈھانچہ مرضی کے تابع‘ لیکن ایک انجانا اضطراب ایسا کہ ختم ہونے کو نہیں آتا۔
غور اس بات پر ہونا چاہیے کہ یہ تو شروعات ہے۔ سفر آگے خاصا لمبا ہے۔ ریاست کو جو درپیش مشکلات ہیں‘ جن کی نوعیت کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ طالبان حکومت پر تجارت کی بندش کا اثر ہوا ہے اور نہ ہی کارروائیوں کا۔دہشت گردی کے خطرات جوں کے توں ہیں۔ ہندوستان سے کشیدگی بدستور جاری اور سب سے بڑھ کر معاشی بدحالی۔
صدر ٹرمپ کی تھپکیوں کی اپنی اہمیت ہوگی مگر پاکستان کے غریب عوام نے اُن تھپکیوں سے کیا لینا ہے؟ بلوچستا ن کے عوام کو سیندک کے تانبے کے ذخیروں اور ریکودِ ک کے سونے کے ذخائر سے کیا ملنے کی توقع ہے کہ کوئی امید لگائے بیٹھے کہ نادر معدنیات کے ممکنہ معاہدوں سے ہماری کایا پلٹ جائے گی۔ صحیح معنوں میں معاشی ترقی کا سلسلہ شروع ہوتا‘ مہنگائی اور بے روزگاری میں کچھ کمی ہوتی‘ تو پی ٹی آئی کو کس نے پوچھنا تھا۔
ضمنی انتخابات حکومتی نمائندے جیت رہے ہیں اور پریشانی بھی سرکاری حلقوں کو لگی ہوئی ہے۔ اشتہاربازی اور شعبدہ بازی پہ کام چلتا تو وطنِ عزیز ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہوتا۔ یہاں لاچار طبقات کے حالات خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں اور عوام کو کھوکھلے بیرونی معاہدوں کے سہانے سپنے سنائے جا رہے ہیں۔ پریشانی کے عالم سے البتہ اتنا پتا چلتا ہے کہ جو اندرونی سیاسی جنگ جاری ہے ‘ جس کو سرکار اپنی مرضی اور منشا کے مطابق حل نہیں کر پا رہی‘ کا کوئی درمیانی راستہ نہیں ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ضیا اور بھٹو کے درمیان کوئی درمیانی راستہ نہیں نکل سکتا تھا ‘موجودہ کشمکش میں بھی آر ہے یا پار۔
پاکستان کے حکمران طبقات کبھی وہ صلاحیت نہ دکھا سکے کہ سیاسی مسئلوں کا سیاسی حل نکالا جاسکے۔ تب کے حکمران بنگال کے نمائندوں کے ساتھ کچھ طے نہ کرسکے اور آج تک یہاں کے لوگ شیخ مجیب الرحمن کو غدار کہتے ہیں۔حالانکہ ایک نقطہ نظر یہ بھی تو ہے کہ اپنی قوم کے لیے وہ ہیرو تھا۔ لیکن یہاں والے ہر مخالف کو غدار ہی کہتے رہے اور اب بات ذہنی امراض تک جا پہنچی ہے۔