"AYA" (space) message & send to 7575

اُلفت کے راستے

اس بار بڑی بیکار کی سردی پڑ رہی ہے‘ بارش ہوئی نہیں اور ہر طرف سوکھا پن ہے جس سے نزلہ زکام آدھی آبادی کو لگا ہوا ہے۔ موسم والوں نے نوید سنائی ہے کہ بارش ہو گی لیکن وہ اتنی بار کھوکھلے فائر کر چکے ہیں کہ ان کی بات پر یقین نہیں رہا۔ بہرحال دعا ہی کر سکتے ہیں کہ آسمان کچھ رحم کرے اور موسم میں خوشگوار تبدیلی ہو۔ لیکن دن ڈھلے ٹمپریچر ایک دم نیچے آ جاتا ہے جس سے ہوا میں ٹھنڈک کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اداس شامیں ہوں اور آنگن میں آگ جل رہی ہو تو روحانیت کی طرف مائل ہونا ایک قدرتی امر بن جاتا ہے۔ بھلا ہو ہمارے انگلینڈ کے مہربانوں کا کہ اسی ماہ کے شروع میں خوشخبری آئی اور ہماری ویران الماری کی حالت یکسر تبدیل ہو گئی۔ کرشمات کچھ ایسے آئے کہ انہیں ہاتھ لگانے اور استعمال کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ بس نظارا ہو جاتا ہے اور اسی پہ اکتفا کرتے ہیں۔ روزمرہ کے غم بھلانے کیلئے انحصار پاک چین دوستی پر ہی ہے۔ سچ پوچھئے چینی بھائیوں کی طرف سے سب سے اعلیٰ دو چیزیں ملی ہیں‘ جے ایف تھنڈر جہاز اور حب بلوچستان کی دلکش پیشکشیں جن سے گزارا اب اچھا چلتا ہے۔
چینی کاوشوں کو دیکھ اور آزما کر کچھ اپنے پر افسوس بھی ہوتا ہے۔ بھنڈارا فیملی سے ہمارے پرانے تعلقات ہیں۔ منو بھنڈارا مرحوم دوست تھے اور اکثر ہماری میزبانی کرتے تھے۔ حیات ہوتے تو اُن سے گزارش کرتے کہ ڈیڑھ سو سال سے آپ اس کام سے منسلک ہیں‘ اس عرصے میں معیارِ ہنر اتنا بڑھ جانا چاہیے تھا کہ اس عالم میں آپ کا ایک نام ہوتا۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ پرانے کابل میں جب ایک دو دفعہ جانا ہوا تو وہاں کے ایک دو ریستورانوں میں افغانستان ہی میں تیار شدہ خاص ادویات کے استعمال کا موقع ملا اور بے ساختہ کہنا پڑا کہ اس خاص کام میں کس عمدہ معیار پر افغان بھائی پہنچ چکے ہیں۔ کیا چشمِ بد اس دیس کو لگی کہ نہ وہ ریستوران رہے نہ کچھ اور۔ ایسی 'پارسائی‘ کا راج ہے کہ تصور کرکے جسم و روح پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ جہاں ہر طرف اور ہر چیز میں اتنا کھلواڑ ہو چکا ہے مالکِ کائنات کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ افغانستان اور طالبان والی 'پارسائی‘ سے ہم اب تک بچے ہوئے ہیں۔ یہ بہت ہی اچھی بات ہے کہ پاک چین دوستی کے ناتے کچھ مقابلے کا ماحول تو پیدا ہو گیا ہے نہیں تو وہی محدود قسم کا پرانا انتخاب‘ لیکن اب تو سندھ سے ہم خیال احباب کے پیغامات آتے ہیں کہ ان کا انحصار بھی پاک چین دوستی پر ہے۔ اس سے ہمارے پرانے دوستو ں کو کچھ ہدایت ملنی چاہیے۔
78سال کی کاوشوں سے جو ہم نے اپنا حلیہ بگاڑ لیا ہے اس سے ہمیں اتنی عقل تو آنی چاہیے کہ ترقی اور معیشت کو سنوارنے کے بلند و بانگ دعوؤں سے اب اجتناب کر لینا ہی بہتر ہے۔ زور اور توجہ ان چند چیزوں پر ہونی چاہیے جن میں ہم کچھ مہارت دکھا سکتے ہیں۔ ایک تو اس شعبۂ لذتِ کام و دہن کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ پچیس کروڑ کی آبادی ہو چلی‘ کسی نے اس کی ضروریات کا اندازہ لگایا ہے؟ عقل سے کام لیا جائے اور پیداوار اور رسد کے ذرائع بڑھائے جائیں تو سوچئے قومی آمدن میں کتنا اضافہ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہاں عقل سے کام کس نے لینا ہے اور نتیجہ پھر ہمارے سامنے ہے۔ جن کے پاس کوئی پیسہ ہے پلاٹوں اور زمینوں میں ڈال دیتے ہیں اور جن کے پاس زیادہ پیسہ ہے وہ شادی ہال کھڑا کر دیتے ہیں۔ حضور‘ باہر سے یہاں کون سی انویسٹمنٹ آنی ہے؟ باہر کے لوگ اتنے بیوقوف تو نہیں کہ دنیا جہاں کو چھوڑ کر پارسائی کے اس قلعے میں اپنا پیسہ لگائیں۔ ہمیں خود ہی سوچنا چاہیے کہ کن چیزوں سے کچھ آمدن پیدا ہو سکتی ہے۔ مردِ حق کو گئے اب کافی عرصہ بیت چکا ہے‘ ان کے بنائے گئے قوانین پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ماحول کچھ نرم کیا جائے‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے رویوں میں کچھ تبدیلی آئے کہ ہر ناکے پر اگلوں کا سانس ہی نہ سونگھتے رہیں۔ پولیس کے کچھ اس رویے میں بھی تبدیلی آئے کہ طبلے اور ڈھولک کی آواز اٹھی نہیں اور ایسی خلش پیدا ہوتی ہے کہ چھاپہ مارے بغیر نہیں رہ سکتے۔ پاکستانی معاشرے کے ساتھ بہت نہیں ہو چکا؟ کتنا اور اسے دبانا ہے۔ کوئی زبان کھولے اس کی سختی‘ جو ناپسندیدہ سیاسی نعرہ لگائے اس کی سختی۔ چلیں یہ تو سیاسی زمرے میں آتے ہیں لیکن سیاست کے علاوہ ہر چیز میں سختی اور دلیل یہ کہ معاشرے کی رہنمائی ضروری ہے۔ معاشرے کی حالت دیکھیں اور پھر فیصلہ کریں کہ پارسائی کی کون سی منزلیں طے ہوئی ہیں۔
ایک اور مسئلہ تہذیب سے منسلک ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ خاص محلے ہوا کرتے تھے جن کی رنگینی اور رونق کا ذکر کتابوں میں ہوتا تھا۔ مردِ حق مردِ مومن کے دور میں جب نیک اعمال کا نعرہ بلند ہوا تو ان خاص محلوں پر ویرانی کا عالم چھانے لگا۔ ان محلوں کے مکینوں کی گزر اوقات ثقافت اور اس سے منسلک شعبوں سے ہوا کرتی تھی۔ نیکی کا سرکاری موسم آیا تو ان محلوں کے مکین نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔ لاہور کے دوسرے سیکٹروں میں آباد ہوئے اور کچھ ثقافت سے منسلک افراد بہتر مواقع کی تلاش میں دبئی کا رخ کرنے لگے۔ یہ کیا ہوا کہ پاکستان کے لوگ تمنائے رونق رکھتے ہوں تو دبئی کو سدھارتے ہیں یا بنکاک جیسی جگہ کو۔ جب دبئی میں کچھ نہ تھا لاہور میں سب کچھ تھا۔ آج کے نوجوان پاکستانیوں کو شاید معلوم نہ ہو کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ ابوظہبی کے بانی شیخ زید بن سلطان النہیان تفریح کے لمحات منانے لاہور آیا کرتے تھے۔ وہاں کے لوگوں کے روابط لاہور کے شعبۂ ثقافت میں خاصے سمجھے جاتے تھے۔ یہ ہمارا ہی کارنامہ ہے کہ ہر ایک چیز کی بربادی لے آئے۔ اب تو ان محلوں میں جانے کا دل نہیں کرتا۔ گندگی اور شاپروں کے ڈھیر ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ کچھ گھرانے ہی رہ گئے ہیں جن کا ناتا پرانی روایات سے اب بھی ہے۔ لیکن مجموعی حالت اس علاقے کی اب ویرانی کی ہے۔
اچھی بھلی چیزوں کا ستیاناس کرنا کوئی ہم سے سیکھے۔ کون سی چیز یہاں نہیں تھی اور کون کون سی چیز برباد نہیں ہوئی۔ جہاں بھائی چارے کا ایک ماحول قائم رکھا جا سکتا تھا وہاں من گھڑت اور فضول کی نفرتیں پالی گئیں۔ آج حالت یہ ہے کہ بیچ میں پڑے ہیں اور اردگرد دشمنی کی دیواریں کھڑی ہیں۔ بدلنا کیا ہے کسی چیز نے لیکن اس تنگ نظری اور تنگ دامنی کے ورثے کو ختم کرنے کی کوشش تو کی جائے۔ پولیس سے جو لفظ پُلسیہ نکلتا ہے‘ پوری سوچ اور ذہنیت پُلسیہ قسم کی ہو گئی ہے۔ سیاست کیا اور معاشرے کا ماحول کیا سب ایک ہی رنگ میں رنگے جا رہے ہیں۔ کیا ایسے ملک کا تصور بانیانِ پاکستان نے کیا تھا؟ جو ماحول مملکتِ خداداد کا آج خاصا بنا ہوا ہے کیا قائداعظم کی زندگی میں کسی نے ایسے ماحول کا سوچا تھا؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں