"AYA" (space) message & send to 7575

اب شانت ہو کر سو جائیں

وطنِ عزیز کی خوش نصیبی جانیے کہ تمام مسائل سیاسی اور غیر سیاسی‘یکسر حل ہو گئے ہیں۔ محکمانہ تقرری کا مسئلہ ایک دردِ سر رہتا تھا وہ اس طریقے سے حل ہو گیا ہے کہ اگلے دس سال کسی قسم کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ 2025ء ختم ہونے کو ہے اور اگلے پانچ سال کسی حکم نامے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ وطنِ عزیز کیلئے یہ بھی خوشخبری ہے کہ 2030ء سے آگے کا راستہ قانونی اور آئینی طریقے سے ہموار ہو چکا ہے۔ ابہام رکھا ہی نہیں گیا‘ 73ء کے آئین میں واضح طور پر سب کچھ درج کر دیا گیا ہے حتیٰ کہ ہر ممکنہ اندیشے کی گنجائش ختم کر دی گئی ہے۔
73ء کے آئین کو بیچارا ہی کہنا چاہیے‘ کوئی اور تشریح فِٹ نہیں ہوتی۔ اُس کے ساتھ تو وہ ہوا ہے جو بنانے والوں کے فرشتے کبھی سوچ نہ سکتے تھے۔ کھلواڑ تو شروع دن سے ہونے لگا‘ آئین بمشکل پاس ہوا تھا کہ اُس کے بانیٔ اعلیٰ ذوالفقار علی بھٹو اُس میں چھید کرنے لگے۔ مردِ حق نے آئین کا بستر ہی گول کر دیا۔ غیر جماعتی انتخابات کے بعد آئین کا کتابچہ کھولا بھی تو اتنی ترمیمات کے ساتھ کہ اُس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ کچھ نہ کچھ پھر بھی بچا ہوا تھا لیکن یہ جو مبارک سال اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے اس میں جو کسر بچی تھی وہ پوری کر دی گئی ہے۔ کوئی پھر بھی بچے ہوئے کتابچے کو 73ء کا آئین کہے تو اُس کی مرضی۔ اسے اب 2025ء کا انمول تحفہ ہی سمجھنا چاہیے۔
جہاں تقرریوں کی راہ بالکل صاف ستھری کر دی گئی ہے وہاں عدلیہ کے ساتھ بھی وہ کچھ ہوا ہے جو کبھی بھولا نہ جائے گا۔ مسئلہ اب یہ نہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کے اختیارات گِنے جائیں بلکہ یہ دیکھا جائے کہ اعلیٰ عدلیہ کے پاس رہ کیا گیا ہے۔ پہلے ادوار میں زبردستی کے حکمران نئے حلف کا شوشہ کھڑا کر کے مرضی کے جج صاحبان کا چناؤ کر لیا کرتے تھے۔ اب کی بار یہ انقلابی قدم لیا گیا ہے کہ مرضی کے جج صاحبان کا تردد نہیں کیا گیا بلکہ نفاست کے تمام طریقے ایک طرف رکھ کر صاف بلڈوزر چلایا گیا ہے۔ کسی جج صاحب کو متبرک کرسی سے ہٹایا نہیں گیا۔ سب اپنی کرسیوں پر براجمان ہیں لیکن جو مزاجِ یار میں تھا وہ نہایت خوش اسلوبی سے پورا ہو گیا ہے۔ چوں چراں کے تمام زاویے ختم کر دیے گئے ہیں۔ اور لطف کی بات یہ کہ وکلا برادری کی بھاری تعداد نے عدلیہ مکاؤ مہم میں معاون کا کردار ادا کیا ہے۔ قانون دان ہمیشہ ہی سمجھدار ہوتے ہیں لیکن مملکتِ خداداد پر جو یہ رُت آن پڑی ہے اس میں کچھ زیادہ ہی سمجھدار ہو گئے ہیں۔ گئے وہ دن جب سڑکوں پر قانون کی حکمرانی کے نعرے لگتے تھے۔ اب بہت سے دوست احباب اونچی کرسیوں اور مراعات پر نظریں رکھتے ہیں۔ اسے ایک مثبت تبدیلی ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ مملکت کا سارا مزاج ایسا بن گیا ہے کہ ہر ایک اپنے فائدے کی سوچتا ہے۔
الیکشنوں کا طریقہ کار بھی اس طرح وضع کر دیا گیا ہے کہ انتخابی عمل سے ساری ٹینشن ختم ہو گئی ہے۔ سوویت یونین کے عظیم رہنما جوزف سٹالن نے جو انتخابی عمل کے بارے میں کہا تھا کہ اہمیت ووٹوں کی نہیں‘ ووٹ گننے والوں کی ہوتی ہے وہی سنہری اصول یہاں کا الیکشن اصول بن چکا ہے۔ یہ اصول 2024ء کے انتخابات میں ہم نے دیکھا اور اب یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس عہدِ استحکام میں الیکشن ایسے ہی ہوا کریں گے۔ جو سرکاری اتحاد کا نمائندہ ہو گا اُسی کا پلڑا بھاری رہے گا کیونکہ اہمیت گننے والوں کی ہو گی۔ اس قباحت سے بھی جان چھڑائی جا چکی ہے کہ ووٹ گننے کے وقت امیدواروں کے الیکشن ایجنٹ موجود ہوں۔ 2024ء کے انتخابی کرشمات اسی روایت کے ختم ہونے سے ظہور پذیر ہوئے۔ بغیر روک ٹوک کے اور مکمل آزادی سے ریٹرننگ افسروں نے وہ کیا جس کی ہدایات اوپر سے آ رہی تھیں۔ فکر کرنے کی کوئی بات نہیں‘ آئندہ بھی ایسا ہی ہو گا۔ جلسے جلوس بھی اب یوںسمجھیے وطنِ عزیز میں ختم ہو گئے ہیں۔ پی ٹی آئی جو جلسے کر بیٹھی عہدِ استحکام کے شاید آخری جلسے تھے۔ ہاں‘ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی جلسے کراتی پھرے لیکن اُن کا اثر اسلام آباد یا پنجاب پر کیا پڑے گا۔
حالیہ ضمنی انتخابات میں نو منتخب ممبران کے سامنے میاں نواز شریف کا خطاب سننے سے تعلق رکھتا ہے۔ تقریر سنی اورمولا کی شان کا اعتراف کرنا پڑا ۔ ممبران کی بھی داد بنتی ہے کہ سر ایسے ہلا رہے تھے جیسے کوہِ طور کے سامنے بیٹھے ہوں۔ زیادہ کچھ کہنا جچتا نہیں کیونکہ اس کنویں کا پانی ہم بھی پی چکے ہیں۔ مگر اتنا یاد ہے کہ پارلیمانی پارٹی کی میٹنگیں جب ہوتی تھیں تو اُن میں خوشامد کے ایسے پہاڑ کھڑے کئے جاتے کہ ہمالیہ کے پہاڑ سنیں تو شرما جائیں۔ ایک جملہ بار بار دہرایا جاتا کہ قائدِ محترم پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام (تب یہی آبادی تھی) آپ کے منتظر ہیں۔ کئی ممبران مکھن لگانے کے واقعی چیمپئن تھے اور میاں صاحب کا یہ کمال کہ ہر اجلاس میں انہی چنے ہوئے ممبران کو پہلے بولنے کی دعوت دیتے۔
خیر دورِ استحکام میں سیاست کے چیپٹر کو اب کلوز ہی سمجھنا چاہیے۔ ٹی وی چینلز بہت حد تک ناپسندیدہ چہروں سے صاف ہو چکے ہیں۔ اخبارات کی حالت ویسے ہی پتلی ہے اور سوشل میڈیا کے دور میں ویسے بھی اخبارات کو کون پڑھتا ہے۔ سوشل میڈیا کی البتہ یہ قباحت ہے کہ اس میں بہت کچھ من گھڑت بھی ہوتا ہے اور یار لوگ خاصے مبالغے سے کام لیتے ہیں۔ یوٹیوب میں جہاں بہت شاندار باتیں ہیں وہاں ڈالروں کی جستجو میں پاکستانی صحافت کا ستیاناس ہو گیا ہے۔ ہر کوئی یوٹیوبر بنا ہوا ہے اور جب آپ نے روز ایک وی لاگ کرنا ہے اور بات کرنے کی کچھ نہ ہو تو کچی خبروں کو طول دینا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے وی لاگ بے معنی لگتے ہیں۔ بات کو بتنگڑ بنانے کی کوشش ہو رہی ہوتی ہے۔
پنجاب میں مسلسل اور نہ ختم ہونے والی اشتہاری مہم کو داد دینا پڑتی ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ پنجاب میں کسی قسم کا انقلاب آ چکا ہے اور ترقی کی منزلیں کسی انہونی رفتار سے طے ہو رہی ہیں۔ صحافت کی یہ حالت کہ جو تعلیم اور صحت کے نظام آؤٹ سورس ہو رہے ہیں‘ اس موضوع پر کوئی ایک مضمون نظروں سے نہیں گزرا۔ ہر طرف چپ لگی ہوئی ہے۔ اگلے روز معلوم ہوا کہ آؤٹ سورس پالیسی کے تحت ہمارے قریب کے گاؤں پیروال کے بچیوں کا سکول ایک مقامی دکاندار نے لے لیا ہے۔ انقلاب کے تناظر میں اسے بھی ایک انقلابی قدم سمجھنا چاہیے۔
وطنِ عزیز میں یہ جانکاری بھی ہو گئی کہ رونے روانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ مذمتی بیانات دیتے رہیں‘ اڈیالہ جیل کے سامنے چھوٹا موٹا دھرنا بھی ہو جائے اُس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم یہ بات سمجھ چکے خیبر پختونخوا کے سی ایم کو پتا نہیں کب یہ بات سمجھ آئے گی۔ بس یہ ٹی ٹی پی اور بلوچستان والا مسئلہ ہے۔ اس کا فی الحال تو حل یہ نکالا گیا ہے کہ ان دونوں مسئلوں کو ہندوستان کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے۔ حملے البتہ رک نہیں رہے۔ کہیں نہ کہیں ضرور اس پر کچھ سوچ بچار ہو رہی ہو گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں