زندگی یوں گزری کہ چین کہیں نہ آیا۔ کبھی ایک چیز کے پیچھے بھاگ رہے ہیں کبھی کوئی تڑپ ستا رہی ہے۔ کچھ حاصل ہو بھی گیا تو دل میں نئے ارمان سلگنے لگے۔ فوج میں دن گزرے‘ تھوڑی بہت سفارتکاری کی۔ جوانی میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے بے روزگاری کا لطف اُٹھایا۔ بے کار طبیعت صحافت کی طرف مائل ہوئی اور اس دوران سیاست کاری کا بھی کچھ تجربہ ہوا۔ بے قراری ختم ہونے کا نام نہ لیتی اور اب جا کر‘ جب کافی کچھ آزما چکے‘ آسودگی نصیب ہوئی تو سردیوں کی دھوپ میں اور ان درختوں کے نیچے جو گاؤں کے پرانے گھر میں موجود ہیں۔
جوانی سے لے کر اب تک عادت بن گئی تھی کہ صبح اخبار پڑھتے نہیں تھے تقریباً ان کا مطالعہ ہوتا۔ بہت عرصہ پانچ اخبارات پھینکی جاتیں۔ بوریت ہونے لگی تو تین کر دیں۔ اب حالت یہ ہے کہ مقامی اخبارات مشکل سے پڑھی جاتی ہیں۔ جنہیں دیسی زبان میں ہم اعلیٰ حکام کہتے ہیں ان کے ارشادات کب کے پڑھنے چھوڑ دیے۔ انتخابات میں اتنی دلچسپی ہوا کرتی تھی‘ یہ جو کل پرسوں ضمنی الیکشن ہوئے ہیں ان کی طرف ذرا دھیان بھی نہیں دیا‘ کون جیتا کون ہارا ہماری بلا جانے۔ وطنِ عزیز کی حالت سدھارنے کی کوئی تجویز اخباری مضمون کی صورت میں سامنے آئے تو جوتا اٹھانے کو جی چاہتا ہے۔ جو فیض صاحب نے کسی محفل میں کہا تھا کہ یہ ملک ایسا ہی رہے گا‘ اس کی سچائی ہم بھی جان چکے۔ اب دل لگا کر صرف نیویارک ٹائمز پڑھی جاتی ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ کہ امریکی اور عالمی سیاست کے علاوہ اور بھی اس میں بہت کچھ ہوتا ہے۔ امریکہ اور یورپ صرف مادی لحاظ سے ہم سے آگے نہیں بلکہ ادبی اور کلچر کے لحاظ سے بھی ہم میں اور ان میں کوئی مقابلہ نہیں۔ لہٰذا وہ ایک اخبار ہی کافی ہوتی ہے اور جہاں تک اپنی اخباریں ہیں‘ سرخیاں پڑھ کر ہی کام چل جاتا ہے۔
جوانی کی بے قراری کا ایک مظہر تھا کہ سیاست کے رستم بننے کیلئے پیپلز پارٹی کے دروازے پر دستک دی‘ کبھی (ن) لیگ کے ہو گئے اور حالات نے انگڑائی لی تو فارم 45 کے راستے پر چل دیے۔ اب ان ادوار کے بارے میں سوچ کر افسوس نہیں ہنسی آتی ہے کہ ایسی بھی بے قراری کیا‘ صحافت میں جو گُل کھلا رہے تھے اسی پر اکتفا کرتے۔ لیکن یہ سوچ عمر کے اس حصے کی ہے‘ عمر کے اتنے سال گزرے نہیں تھے تو سمجھ یہی آتی تھی کہ آنے والا الیکشن مِس کر دیا تو پتا نہیں زندگی کا کون سا موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔ شاید وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔ اُس عمر میں اب ہوتے تو شاید وہی کرتے جو کیا تھا۔ اب بیزاری نہیں بوریت ہے۔ پاکستانی سیاست کی باتیں بور کرنے لگی ہیں۔ زمانہ تھا کہ اپنے آپ کو سیاسی گفتگو کے ماہر سمجھتے تھے۔ اب ایک تو ملنا بہت کم رہ گیا ہے‘ جی ہی نہیں کرتا‘ کسی محفل میں چلے بھی گئے تو سیاسی گفتگو جلد ہی اکتاہٹ کی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔
لاہور میں ہمارے ایک دوست گوندل صاحب ہوا کرتے ہیں۔ دعوت آتی تھی اور شام بہت عمدہ گزرتی۔ ایک دفعہ بلایا تو رہا نہ گیا اور کہہ دیا کہ گوندل صاحب شام کے سایوں میں سارے کے سارے مردانہ چہرے اچھے نہیں لگتے۔ ایک سَمے کیلئے وہ رک گئے اور کہا‘ اگلی بار کچھ کرتے ہیں۔ وہ اگلی بار نہیں آئی اور ہم انتظار ہی کرتے رہے۔ ہمارے دوست ڈھلوں صاحب اس لحاظ سے اپنا مقام رکھتے ہیں کیونکہ جینڈر مساوات (gender equality) میں یقین رکھتے ہیں۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان کی محفل خوب بارونق ہوتی ہے لیکن اب اس سے بھی ہم محروم ہیں کیونکہ لاہور اب جانا کم ہوتا ہے اور وہاں کی فضائی آلودگی کی خبریں پڑھ کر ویسے ہی دل بیٹھ جاتا ہے۔ جب گاؤں کا صاف آسمان اور سرد موسم کی بے مثال دھوپ میسر ہو تو سموگ چاٹنے کو کس کا دل چاہے گا۔
دنیا بھر کا دستور یہ ہے کہ اکیلا پن ستائے تو بوجھل دل ہلکا کرنے کیلئے مسافر یا راہگیر کوئی روشنی والی جگہ ڈھونڈا کرتا ہے۔ تمام زمانوں کا دستور رہا ہے کہ ایسی جگہیں سرائے یا ہوٹل ہوا کرتے ہیں۔ یہاں البتہ صورتحال یہ ہے کہ وطنِ عزیز کو نظرِ بد ایسی لگی کہ ایسی جگہیں رہیں نہیں۔ ہوٹل موجود ہیں کئی خاصے عالی شان لیکن اتنے بے رونق ہوٹل دنیا کے کسی کوچے میں نظر نہیں آئیں گے۔ کسی بڑے ہوٹل کی لابی میں چلے جائیں تو گمان ہوتا ہے کہ کوئی بھوت یہاں سے گزرا ہو گا۔ یہ بھی یہاں کا امتیاز ہے کہ اتنی بے رونق شادیاں کہیں اور نظر نہ آئیں گی۔ دعوت ملنے پر یا مجبوری کے رشتوں کے تحت لوگ آتے تو ہیں لیکن رسمی سے چہرے اُٹھائے اور پھر کھانے کا انتظار۔ کھانا تو مل ہی جاتا ہے‘ ویسے بھی رزق کا وعدہ تو مالک نے کیا ہوا ہے۔ محض کھانے کے انتظار میں کون سے شادیانے بج سکتے ہیں۔ لیکن کیا کریں یہی یہاں کا ماحول بنا ہوا ہے۔ ایسی ہی ہماری سیاست رہی ہے اور اسی سیاست کی ٹھوکروں کی وجہ سے اس دھرتی کے باسیوں کو یہ دن دیکھنے پڑے ہیں۔
روایتی سیاست بھی ایسی ہو چکی ہے کہ کافی وقت جنازوں اور فاتحہ خوانیوں کو دینا پڑتا ہے اور خاصا وقت شادی کی تقریبات میں گزر جاتا ہے۔ اس لیے حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ دونوں امور سے بچا جائے۔ بہت سے احباب سے جو ذرا قریب ہیں‘ سے کہا ہوا ہے کہ ہمارے جنازے کا وقت آئے تو پیشگی اجازت ہے کہ زحمت نہ کی جائے‘ دور سے دعا ہی کافی ہو گی۔ گاؤں میں جو ایک دو بندے دیکھ بھال پر مامور ہیں ان سے برملا کہا ہوا ہے کہ وقتِ رخصت آن پہنچے تو مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے کوئی اعلان نہیں ہونا چاہیے۔ بس جو قریب کے لوگ ہیں وہی ضروری رسومات ادا کر دیں تو کافی ہو گا۔ ہمارے دیہات کا کلچر اب تک سمجھ نہیں آیا کہ فوتگی ہوئی نہیں اور فون پر اطلاع دینے بیٹھ جاتے ہیں۔ ہر ایک سے کھلی بات کی بھی نہیں جا سکتی لیکن جن سے کر سکتے ہیں‘ کہتے ہیں کہ فوتگی خاندان کی بات ہوتی ہے وہیں تک رہنی چاہیے۔ یہ بات بھی سمجھ نہیں آئی جب لوگ کہتے ہیں کہ فلاں کا بہت بڑا جنازہ تھا۔ جو زمین میں اتارا گیا ہو اُسے جنازے کا بڑا یا چھوٹا ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ لیکن ان رسومات کے گہرے نقوش ہیں اور جلد نہ مٹ سکیں گے۔
اب تو اسلام آباد جانے میں کوئی خاص چاشنی محسوس نہیں ہوتی۔ ایک دو مجبوریاں ہیں جن کے تحت جانا پڑتا ہے‘ بال کٹوانے اور ناخن ترشوانے۔ کچھ عرصہ پہلے یہ عادت پڑ گئی کہ ہاتھ اور پاؤں کے ناخن سلیقے سے ترشوائے جائیں اور یوں یہ عادت بیٹھی کہ خود سے ناخن کاٹے جائیں تو اچھے نہیں لگتے۔ آرزوئے شب کا مسئلہ بھی ہوتا جس کی وجہ سے لاہور یا اسلام آباد جانا ہوتا۔ لیکن جیسے ایک دو بار پہلے عرض کر چکے ہیں جب سے چینی بھائیوں نے دوستی کا ایک اور ثبوت مہیا کرتے ہوئے حَب بلوچستان میں اپنی ضرورت کا کارخانہ لگایا ہے کچھ دوستوں کی مہربانی سے گاؤں بیٹھے ہی تسکینِ قلب ہو جاتی ہے۔ مولا کا شکر ہے کہ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کی وجہ سے اسلام آباد یا لاہور نہیں جانا پڑتا۔ اس بات پر مولا کا جتنا شکر بھی ادا کیا جائے کم ہے۔ ہمارا چکوال کا علاقہ دَھن کہلاتا ہے۔ دَھن کی سردی کی شامیں اور دَھن کی اس موسم کی دھوپ سے کوئی خوبصورت چیز آپ کو اس تمام خطے میں نہ ملے۔