"AYA" (space) message & send to 7575

جادو ٹونے کا پورا احاطہ نہیں ہوا

برطانوی جریدے اکانومسٹ نے جادوٹونے کی پرانی کہانیاں سمیٹ کے ایک مضمون لکھ ڈالا جس کا تھوڑا بہت چرچا ہمارے دیس میں ہوا۔ ایسی کہانیاں کہ کالے بکرے ذبح کیے جاتے تھے اور حساب کتاب کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں ہوتا تھا۔ سرکار کے قریب ہرکاروں نے مضمون کو خوب اُچھالنے کی کوشش کی لیکن میرا ناقص مشاہدہ تو یہ ہے کہ جنہیں عوام الناس کہتے ہیں‘ ان پر کوئی خاص اثر اس تحریر کا نہیں ہوا۔ بالکل ویسے ہی جیسے ماضی میں عشق کی داستانوں کو پھیلانے کی بھرپور کوشش کی جاتی لیکن ان کا کوئی خاص اثر نہ پڑتا۔ یہ بھی کچھ لوگوں کو یاد ہو گا کہ ریحام خان کی لکھی گئی کتاب پر بھی سکینڈل بنانے کی کوشش کی گئی لیکن بات کچھ بنی نہیں حالانکہ اس کتاب میں مرچ مصالحہ خاصا تھا۔ اکانومسٹ کا مضمون بھی کچھ ایسا ہی رہا۔ ایک دو ہیڈ لائنیں بنیں اور بات ٹھپ ہو گئی۔
پرابلم یہ ہے کہ ہرکارے اور سرکاری قسم کے لوگ پاکستانی عوام کو کچھ زیادہ ہی بیوقوف سمجھتے ہیں حالانکہ سادہ تو ہوں گے لیکن عوام اتنے سادہ بھی نہیں۔ سرکاری طرز کی ڈرامہ بازی اور اداکاری کی حقیقت عام لوگ دور سے پہچان لیتے ہیں۔ اتنا مؤثر اس قسم کا پروپیگنڈا ہوتا تو جس لیڈر کو ٹھکانے لگانے کی کوششیں تین سال سے ہو رہی ہیں کب کا سیاسی موت مر چکا ہوتا۔ نام لینے والا کوئی نہ ہوتا۔ غالب کا کیا وہ شعر ہے‘ اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو۔ کوئی پوچھنے والا نہ ہوتا کوئی رونے والا نہ ہوتا۔ لیکن یہاں حساب الٹا ہے‘ لاکھ کوششوں کے باوجود ایک سیاسی حقیقت ہے جو مٹنا تو دور کی بات‘ ختم نہیں ہو رہی۔ اب تو ملاقاتوں پر مختلف قدغنیں‘ کبھی بہنیں باہر کھڑی رہتی ہیں‘ خیبر پختونخوا کا چیف منسٹر متعدد بار باہر کھڑا رہا اور ملاقات نہ ہونے پائی۔ اس پر ہنسی آتی ہے کہ دھڑکا کیا لگا ہوا ہے۔ ملاقات ہو گئی تو کیا ہو جائے گا۔ کون سی صورتحال بنے گی جس سے نمٹا نہ جا سکے گا؟ مرنا تو صیاد کو تھا‘ یہاں نہ ختم ہونے والی پریشانی دربانوں اور کوتوالوں کو لگی ہوئی ہے۔ لہٰذا سوچنے کی بات ہے جہاں ریحام خان کی مرچ مصالحے والی تحریر نے کچھ اثر نہ کیا وہاں جادو ٹونے والی کہانیوں نے کون سا تیر مار لینا ہے۔
اکانومسٹ سے کوئی یہ بھی پوچھے کہ جادو ٹونے والی کہانیاں پرانی ہیں‘ آج کے پاکستان میں جو داستانیں رقم ہو رہی ہیں‘ ان کا کچھ خیال نہ آیا؟ کیا کچھ ان تین برسوں میں نہیں ہوا۔ معتوب افراد سے نمٹنے کیلئے کون کون سے طریقے نہیں آزمائے گئے۔ محکموں کی کارگزاریاں جن سے نئی نئی روایات قائم ہوئیں‘ ان کا کوئی ذکر نہیں۔ بس یہی کہ ٹونوں سے کام لیا جاتا تھا اور بشریٰ بی بی کا بڑا اثر تھا۔ بشریٰ بی بی کا ذکر کرنا ہی تھا تو اتنا بھی لکھ دیا جاتا کہ اتنے عرصے سے سلاخوں کے پیچھے ہے اور ایک آواز بھی نہیں کہ مقید رہنے کے حالات خراب ہیں یا کوئی سہولت درکار ہے۔ علاج کی کوئی درخواست نہیں‘ باہر جانے کی کوئی استدعا نہیں۔
مسئلہ یہاں یہ ہے کہ جہاں مستند یوتھئے جذبات سے پاگل ہو جاتے ہیں وہاں معتوب جماعت کے ناقدین بغض میں بے حال ہو جاتے ہیں۔ یوتھئے ایک لفظ تنقید کا برداشت نہیں کر سکتے اور بغضِ عمران پالنے والے بغض میں ایسے جل بُھُن رہے ہوتے ہیں کہ ہنسی چھوٹ جاتی ہے یا ترس آ جاتا ہے۔ ایک طرف تنقید برداشت نہیں‘ دوسری طرف بغض کا بخار۔ مخالف ایک اور بات نہیں سمجھتے۔ جب کوئی شخص مصیبت یا تکلیف سے گزر رہا ہو تو ماضی کی اس کی غلطیاں اور کوتاہیاں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ نمایاں بات یہ رہتی ہے کہ وہ شخص کس ہمت یا بزدلی سے برے دن برداشت کر رہا ہے۔ عہدِ حکمرانی میں بھٹو نے جو کچھ کیا سو کیا لیکن ہر ظرف رکھنے والے شخص کو ماننا پڑتا ہے کہ موت کا سامنا بھٹو نے کمال جوانمردی سے کیا۔ اس بار افسانہ تو یہ بنایا گیا تھا کہ ایک دن جیل برداشت نہیں کر سکے گا۔ یہ لغو بھی پھیلایا گیا کہ وہ تو فلاں نشے کا عادی ہے‘ ایک دن محروم رہے گا تو چیخ اُٹھے گا۔ دو سال سے زائد کا عرصۂ قید گزر چلا ہے لیکن ہمت کا اقرار کرنا پڑے تو منہ میں جھاگ آ جاتی ہے۔ دشمنی کا بھی کوئی معیار ہونا چاہیے اور یہاں دشمنی گھٹیا درجے کی ہے۔
جادو ٹونے کی بات ہو تو مکمل ہونی چاہیے۔ دورِ وزارت عظمیٰ میں بکرے تو چلیں ذبح ہوئے ہوں گے لیکن اس کا کیا کہیں گے کہ آٹھ فروری 2024ء کو تمام ہتھکنڈوں کے باوجود پرچیاں ڈالنے کیلئے لوگ نکل آئے۔ کھلی مہم نہ ہو سکی تھی‘ بیشتر علاقوں میں معتوب جماعت کی طرف سے مہم بالکل ہی نہ ہو سکی۔ ورکروں کو کھلی دھمکیاں۔ کئی رہنما اٹھائے گئے اور ان کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ ایک الگ داستان ہے۔ پاکستانی تاریخ کے کسی انتخاب میں ایسا سماں پیدا نہ ہوا لیکن عوام کہاں سے نکلے اور کس جنون سے پرچیاں ڈالی گئیں۔ چکوال کا بتا سکتا ہوں‘ کئی جاننے والے امریکہ اور برطانیہ سے ٹکٹ کٹوا کر صرف ووٹ ڈالنے آئے۔ ان پر ضرور کوئی جادو ٹونا چلا ہو گا کہ ایسے پاگل پن کا مظاہرہ کیا۔ دیہات اور شہر کے پولنگ سٹیشنوں پر دور دراز شہروں سے ایسے لوگ ووٹ ڈالنے آئے جنہوں نے زندگی بھر ووٹ نہ ڈالا تھا۔ یقینا ان پر بھی کوئی جادو ٹونہ چلا ہو گا۔ یا کوئی کالے بکرے ذبح ہوئے ہوں گے جن کی وجہ سے جنون کی ایسی کیفیت پیدا ہوئی۔ اکانومسٹ کی کہانی میں ایسی وجدانی کیفیت کا کوئی ذکر نہیں۔
ایسے واقعات کا بھی ذکر نہیں کہ سیالکوٹ میں انتخابات سے پہلے عثمان ڈار کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تو ہوا‘ گھر پر ریڈ ہوئے‘ توڑ پھوڑ ہوئی لیکن عثمان کی والدہ بیگم ریحانہ ڈار الیکشن کیلئے تیار ہوئیں اور فارم 47 کی مدد نہ آتی تو قبلہ خواجہ آصف کو دن میں تارے نظر آ جاتے۔ پچھلے ہفتے اسلام آباد کے جس سرائے میں قیام ہوتا ہے وہاں مری کے صداقت عباسی سے ملاقات ہوئی۔ کہانی سنی تو رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ یہ وہ الیکشن سے پہلے کی تیاریاں تھیں جن کے سبب بھروسہ کیا جا رہا تھا کہ عوام دبکے رہیں گے اور سوائے سرکار کا ذہن رکھنے والوں کے کوئی ووٹ ڈالنے نہیں آئے گا۔ لیکن ووٹ ایسے ڈلے اور جب ٹی وی کی سکرینوں پر نتائج آنے لگے تو سب کے ہوش اُڑ گئے۔ جو کچھ اس دن ہوا اور جس طریقے سے ووٹ پڑے وہ کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا۔ رات کے پھر اگلے پہر کہیں سے گھنٹی بجی اور وہ کرشمہ شروع ہونے لگا جس کو فارم 47 کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ چکوال میں پریزائیڈنگ افسران بیچارے نتائج تھامے قطاروں میں کھڑے تھے‘ ساری رات کھڑے رہے اور کسی نے ان سے نتائج لینے کی زحمت نہ کی۔ سردی کی رات میں کھڑے رہے اور وہیں فارم 47 کے کرشمات کے نتائج کا اعلان ہو گیا۔ ایک تو وہ جادو ٹونے جن کا ذکر اکانومسٹ کی کہانی میں ہوا ہے اور پھر یہ جادو ٹونے‘ جن کی بدولت فارم 47 کے کرشمات ظہور پذیر ہوئے‘ کچھ ماجرا تو تب بھی کھل کر سامنے آ گیا تھالیکن پھر کہنے والے ایسے گم ہوئے کہ پتہ نہ چل سکا کہ زمین نگل گئی یا آسمان اُٹھا کے لے گئے۔
التماس صرف اتنی حضور کہ قصہ جادو کا چھڑے تو الف لیلیٰ کی پوری داستان تو سامنے آئے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں