"AYA" (space) message & send to 7575

الفاظ جب لب پر آ نہ سکیں

اب تو غافل ذہنوں کو بھی احساس ہو گیا ہوگا کہ بلوچستان دھیرے دھیرے کس طرف جا رہا ہے۔ سرکاری سچ کا پرچار کرنے والے بیچاروں کا حال کیا پوچھنا‘ اُن کا تو کام ہے کہ جو راگ الاپنے کو کہا جائے اُسے ہی چباتے رہیں۔ بات تو صحیح ہے لیکن نا مکمل کہ کتنے رہا ہوئے اور کتنوں کو ابدی نیند سلا دیا گیا۔ اہم بات تو یہ ہے کہ واقعہ نے ہر ایک کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ ہمارے علاقوں میں بھی ہم جو حالات سے غافل خرگوش کی نیند سو رہے تھے‘ ہم بھی ایسے جھنجھوڑے گئے کہ نہ یقین آنے والی باتوں پر بھی دھیان دینا پڑ رہا ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں کچھ ایسی تقریریں کی گئی ہیںجن کو یہاں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ سینیٹ میں بھی ایک عدد ایسی تقریر ہوئی ہے‘ تفصیل میں جائیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کس نہج پر پہنچ گئے ہیں ہم۔ کچھ آفتیں اوپر سے نازل ہوتی ہیں‘ کچھ کے معمار ہم خود ہوتے ہیں لیکن دورانِ تخلیق عقل پر تالے لگ جاتے ہیں اور نتیجتاً سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور اجتماعی کوتاہ اندیشی ریاست یا معاشرے کو کہاں لے کر جا رہی ہے۔
ایک سے زیادہ بار بیان کر چکا ہوں کہ مشرقی پاکستان کے شہر جیسور جہاں پر ہماری بڑی چھاؤنی تھی‘ پر انڈین فوج کا قبضہ ہو گیا تو لاہور راوی پل پر واقع ہمارے ریجمنٹل ہیڈ کوارٹر پرایک افسر کو یہ خبر دی تو آپے سے باہر ہو گیا۔ غصے میں کہا کہ یہ بکواس ہے اور ایک یا دو دن بعد سقوطِ ڈھاکہ ہو گیا۔ وہاں لاوا پک رہا تھا‘ حالات ایسے بن رہے تھے لیکن آنکھیں کھلی تھیں پر کچھ دیکھ نہ سکتی تھیں اور ذہن تھے کہ حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔ انکار کا فن ہم نے پتا نہیں کہاں سے سیکھا ہے‘ ماہر ہو گئے ہیں اس میں۔ حالات کچھ اور ہوتے ہیں اور ہم کہانیاں کچھ اور پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ حساسیت بڑھ جاتی ہے اور کچھ کہنا جرم گردانا جاتا ہے۔ حب الوطنی کے خودساختہ تمغے تو سینوں پر خود ہی سجائے ہوتے ہیںاور سرکاری سچ سے کچھ ہٹ کر کہا جائے تو غداری کا لیبل چسپاں ہونے میں دیر نہیں لگتی۔
ایامِ جوانی میں جب ہم نے وردی پہن رکھی تھی اُس زمانے اور اب میں گہرا فرق یہ ہے کہ تب ذرائع معلومات محدود تھے۔ اخبارات ہی ہوا کرتے تھے اوراُن میں سے حقیقت کو نکالنا اور تیسرے درجے کی کہانیوں کو ڈال دینا کون سا مشکل کام تھا۔ اب ذرائع ایسے ہو چکے ہیں کہ جن کا کچھ سال قبل تصور کرنا محال تھا۔ واقعہ رونما ہوتا ہے اور خبریں آنے لگتی ہیں۔ خبریں پھیل جاتی ہیں‘ لوگوں کا ذہن بن جاتا ہے اور پھر کہیں سرکاری سچ لنگڑے قدموں سے وہاں پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور ظاہر ہے ایسے میں سرکاری سچ مار کھا جاتا ہے اور جو اُسے آگے کر رہے ہوتے ہیں اُن کے چہرے لٹک جاتے ہیں۔ اور یہ تو معلوم ہے کہ لٹکے چہرے اپنی ہی داستان بیان کرتے ہیں۔
خطے کا اور اپنا نقشہ تو دیکھئے۔ پاکستان کا 43 فیصدحصہ بلوچستان پر مشتمل ہے۔ کے پی کے کو ساتھ ملائیں تو ملک کا آدھے سے زیادہ حصہ بن جاتا ہے۔ اور یہ وہ حصہ ہے جس کی سٹریٹجک اہمیت ہے۔ جغرافیہ کے لحاظ سے پاکستان کی کچھ اہمیت ہے تو ان مغربی علاقوں کی وجہ سے ہے۔ بیشتربلوچستان اور کے پی کے کے جنوبی اضلاع شورش کی زد میں ہیں۔ کے پی کے میں ایک خاص قسم کی شورش ہے اور بلوچستان میں ایک اور قسم کی ۔دعوے تو بہت ہیں اور ایسی صورتحال ہو تو دلوں کو تسلی دینے والے دعوؤں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ واقعہ کے بعد وزیراعظم کوئٹہ جاتے ہیں‘ وہی باتیں کرتے ہیں جو کئی بار ہو چکی ہیں۔ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کچھ کہتے ہیں تویوں لگتا ہے کہ اپنے کو ہی سنا رہے ہیں۔ ان دنوں کوشش ہوتی رہی کہ کوئٹہ میں جنہیں باخبر سمجھا جاتا ہے اُن سے کچھ بات ہو۔ تسلی ہونے کے بجائے پریشانی بڑھ گئی۔ کسی سے بات کریں اچھی خبر نہیں ملتی۔ ایم پی اے ظفر زہری کی تقریر سنی تو دل بالکل ہی بیٹھ گیا۔ سینیٹر عمر فاروق کی باتیں سنیں تو اضطراب میں اضافہ ہوا۔ کچھ تو پتا چلے کہ اہلِ اختیار کو حالات کا ادراک ہے اور حالات کی سنگینی کے پیش نظر مقابلتاً اقدامات بھی لیے جا رہے ہیں۔ لیکن ایسا کچھ احساس نہیں ملتا۔
دوسری جنگِ عظیم کی شروعات میں جب فرانس کو شکست ہو چکی تھی اور جرمن فوجیں پیرس کی طرف بڑھ رہی تھیں تو باامرمجبوری ونسٹن چرچل کو وزیراعظم بنانا پڑا۔ اس نازک موقع پردارالعوام میں چرچل نے کیا تقریر کی۔ شکست کا پورا نقشہ کھینچا ‘ پسپائی کا اعتراف کیا۔ ایک جگہ یہ بھی تسلیم کیا کہ جرمن قوم ایک بہادر قوم ہے۔ لیکن اعترافِ حالات کے بعد اُس عزم کا اعلان کیا کہ ہم ہر جگہ لڑیں گے‘ سمندر میں‘ زمین پر آسمانوں اور ساحلوں پر لیکن کبھی شکست تسلیم نہیں کریں گے۔ یوٹیوب پر تقریر موجود ہے‘ جیسے عرض کیا دیکھنے کے لائق ہے۔ اس کے برعکس ہماری کیا کیفیت ہے؟ اقرار یا اعتراف کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں‘ یہاں تو سب سے بڑا سچ انکار ہے۔ وہ بھی آدھا نہیں مکمل انکار۔ جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا اور جو ہو رہا ہے اُس سے پریشانی کیا کیونکہ وہ تو ایک ایس ایچ او کی مار ہے۔ کیا رہبر ہم نے پائے ہیں ‘ ان کے سامنے چرچل کی کیا حیثیت۔
جسے صحیح معنوں میں مشاورت کہا جاسکتا ہے کیا وہ یہاں نہیں ہوتی؟ جو خون کی ہولی بلوچستان اور کے پی کے میں کھیلی جا رہی ہے وہ نظر نہیں آتی؟ اُس کی آوازیں نہیں سن سکتے؟ تسلیوں اور کہانیوں سے کام چلتا تو پھر کیا بات تھی لیکن کہانیوں سے بات آگے نکل چکی ہے۔ جو آوازیں وہاں سے اُٹھ رہی ہیں اُن پر کچھ کان تو دھریں۔ حالات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور سمجھنے کے بعد کچھ مداوا بھی کریں۔ گھسی پٹی باتوں کا وقت جا چکا ہے۔ اتحاد ہونا چاہیے‘ بلوچستان میں سروس ڈیلیوری ہونی چاہیے‘ کرپشن کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ یہ روزمرہ کے جملے ہیں اور انہیں سن سن کر کان پک چکے ہیں۔
ایک بات جو بالکل سمجھ نہیں آتی کہ بلوچستان میں الیکشن نام کی چیز ہو تو اُسے مذاق کیوں بنادیا جاتا ہے۔ جہاں ووٹ پڑے ہیں یا پڑنے ہوتے ہیں وہ ہمیں اچھا نہیں لگتا اور پھر من پسند لوگ اقتدار میں بٹھائے جاتے ہیں۔ فیض حمید تھے تو بلوچستان میں اُنہیں صرف قاسم سوری نظر آتا تھا ‘قائم مقام حکومت آئی تو انوار الحق کاکڑ کو کہیں سے ڈھونڈ کر وزیراعظم کی مسند پر بٹھا دیا گیا۔ پھر الیکشن جیسے ہوئے وہ سب کو معلوم ہے اور من پسندوں کی حکومتیں بنائی گئیں۔ ایسی من پسندی سے حاصل کیا ہوتا ہے؟ یہ لوگ کچھ کام کرسکتے ہیں؟ بٹھائے گئے لوگوں کو عوام کبھی قبول کرتے ہیں؟ صحیح طرح الیکشن کرائے جائیں تو کوئی عبدالمالک آ جائے گا یا کوئی اختر مینگل۔ ایسے لوگوں سے تکلیف کیا ہے؟ اور ان کے بارے میں اعتراض کیا ہے؟ یہ اگر قوم پرست ہیں تو اس میں حرج کیا ہے؟ تعزیراتِ پاکستان میں کیا دھرتی سے محبت کوئی جرم ہے؟
لیکن پتا نہیں اہلِ اختیار کو کس قسم کی فرمانبرداری چاہیے۔ جنہیں قوم پرست سمجھا جاتا ہے وہ کم از کم آئین اور پاکستان کی بات تو کرتے ہیں۔ لیکن وہ نامنظور‘ ماہ رنگ بلوچ نا منظور‘ ہدایت الرحمن نا منظور۔ اور اگر ایسا ہے پھر وہی رہ جاتے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پہاڑوں پر ہیں اور بندوق اٹھائی ہوئی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں