بیتی زندگی پہ نظر جاتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ اس ملک کے حالات ایسے رہے ہیں کہ ہر دور میں زبان بندی رائج رہی ہے۔ ایوب خان کے دور میں سوشل آزادیاں تھیں اور آج کے پہلو سے دیکھیں تو وہ بہت بڑی غنیمت تھی لیکن سیاسی آزادیاں محدود تھیں۔ کچھ آزاد اخبارات پر حکومت نے اپنا قبضہ جما لیا تھا اور بیشتر اخبارات ایسے تھے کہ بات کھل کے نہیں کی جاتی تھی۔ جلسے جلوسوں پر پابندی ہوا کرتی تھی۔ اپوزیشن لیڈر دورے وغیرہ کیا کرتے تھے لیکن لاؤڈ سپیکر کا استعمال ممنوع ہوتا اور مجمع ہوتا بھی توچار دیواری میں محدود۔
یحییٰ خان آئے تو اُنہوں نے اپنے آنے کے ایک سال بعد پہلے عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔ ایک دم ایک آزادی کی فضا بنی‘ جلسے جلوس ہونے لگے لیکن طاقت کے اصل مرکز پر تنقید ممنوع ہی سمجھی جاتی تھی۔ دائیں بازو کی جماعتیں اسلام کا نعرہ لگاتیں اور پیپلز پارٹی ایشیا سرخ کی للکار کرتی۔ لیکن جیسے عرض کیا یحییٰ خان اور اُن کا ٹولہ نشانہ نہ بن سکتا تھا۔ یعنی اُن کی مصروفیات تنقیدسے مبرا تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ انتخابات کے بعد اسمبلی کا اجلاس نہ بلایا گیا اور اس پر مشرقی پاکستان کے لوگ بپھر گئے حتیٰ کہ مشرقی بنگال پر عسکری کریک ڈاؤن شروع ہو گیا لیکن اس سارے قضیے پر مغربی پاکستان میں کوئی کھل کے بات نہیں کرسکتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں مشرقی پاکستان میں باقاعدہ خانہ جنگی چھڑ گئی مغربی پاکستان کے عوام اس ساری صورتحال سے مکمل بے خبر رہے۔ وہاں توپ و تفنگ کا بازار گرم رہا اور یہاں کے لوگ میٹھی نیند سوتے رہے۔ ڈھاکہ پر ہندوستانی فوج کا قبضہ ہو گیا اور ہم یہاں آنکھیں ملتے رہ گئے۔
بھٹو صاحب کا دور بھی نیم آمریت کا دور تھا۔ مقبولِ عام لیڈر تھے منتخب ہو کے آئے تھے‘ لیکن عجیب اُن کا مزاج تھا کہ معمولی سی تنقید بھی برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ آزاد صحافت نہ آزاد سیاست اُن کو برداشت تھی۔ یہ کمزوری اُن میں نہ ہوتی تواُن کے مخالف اُن کے خون کے پیاسے نہ ہوتے۔ بھٹو کا المیہ یہ تھا کہ اتنے نفرت کے انگارے سلگائے کہ اُن کے مخالف بھی پھر اُن کے خلاف آخری حد تک چلے گئے۔ لیکن یہ المیہ صرف بھٹو کا نہ تھا پاکستان کا تھا کہ یہاں شروع دن سے رواداری اور برداشت کا ماحول پیدا نہ ہوسکا۔
ضیا الحق نے پاکستان کی کمر پر افغان جہاد کا بوجھ لاد دیا اور وہ ایسا بوجھ تھا جس نے پاکستان کی شکل بگاڑ کے رکھ دی۔ لیکن ایک سخت قسم کی آمریت ملک پر مسلط تھی جس میں ضیا یا اُن کی پالیسیوں کے خلاف بولنا محال تھا۔ لہٰذا افغان جہاد کا تماشا چلتا رہا‘ حکمرانوں کے وارے نیارے ہو گئے کیونکہ ڈالر اور ریال آ رہے تھے اور جنگی سازوسامان بھی۔لیکن جو مستقبل کے خطرے پاکستان مول لے رہا تھا اُس کی کسی کو پروا نہ تھی۔ اور جن کو تھوڑا بہت احساس تھا کہ ملک کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ کچھ کہہ نہیں سکتے تھے۔
یہی پاکستان کی کہانی رہی ہے ‘سکرین پر فلم سامنے چل رہی ہوتی ہے‘ سب کچھ نظر آ رہا ہوتا ہے لیکن دستور ہی ایسا بن جاتا ہے کہ قوم کے منہ پر تالے نصب ہو جاتے ہیں۔ 65ء کی جنگ کے حالات بنتے ہیں مگر کچھ کہنے کی بجائے قوم نغموں میں مگن رہتی ہے۔ ڈھاکہ میں بندوقیں زمین پر ڈال دی جاتی ہیں لیکن اس پر کچھ کہا جائے تو غداری کا لیبل لگ جائے۔ بہت سال بعد کارگل کی سنگلاخ پہاڑیوں کے بیچ ایک اور حماقت سرزد ہوتی ہے لیکن اُس کے بارے میں قوم چپ ہی رہتی ہے۔ وقت کے وزیراعظم(جناب نواز شریف) کو سینڈوچوں اور چائے پہ ٹرخایا جاتا ہے اور صحیح صورتحال اُن کے سامنے بھی پیش نہیں ہوتی۔ نہ وہ صحیح صورتحال جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ نتیجتاً اُس حماقت کی جو جوابدہی ہونی چاہیے تھی وہ کہیں گم ہو جاتی ہے۔
سویلین پرائم منسٹر آتے ہیں تو اخبارات کا منہ کھل جاتا ہے۔ کیا بے نظیر بھٹو اور کیا نواز شریف دونوں پر اُن کے اپنے ادوار میں خوب تنقید کے گولے برسائے جاتے ہیں۔ لیکن بعد میں بات سمجھ آتی ہے کہ اُس آزادی کی وجہ بھی یہ تھی کہ اداروں کے بھائی لوگ بھی اپنے مقاصد کیلئے اُن کے پیچھے پڑے رہتے تھے اور یوں اُن کے کھیل میں پریس اُن کی معاون ثابت ہوتی تھی۔ یعنی بے نظیر بھٹو آئیں تو اُن کا خاتمہ مقصود ہوتا تھا‘ نواز شریف آئے تو جلد ہی اُن کو بھی ٹارگٹ کرنا شروع ہو جاتا تھا۔ اور صحافیوں کے کانوں میں طرح طرح کی کہانیاں‘ کچھ صحیح کچھ مبالغے سے آراستہ‘ ڈالی جاتی تھیں۔ صحافی حضرات جن میں ہم بھی شامل تھے سمجھتے تھے کہ آزادیٔ اظہار و صحافت کے بڑے پاٹے خان ہیں حالانکہ بڑی گیم کہیں اور سے چل رہی ہوتی تھی۔
آج کل کے حالات بھی بہت دلچسپ ہیں۔ اخبارات کا تو کچھ حال ہی نہیں رہا ‘ اب تو پڑھیں نہ پڑھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ویسے بھی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے صحافت کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ قوم کے معمار ہوں یا مہربان اُن کیلئے اب اخبارات یا ٹی وی پر ہاتھ رکھنا کوئی پرابلم نہیں‘ یہ تو اب بائیں ہاتھ کا کھیل ہو گیا ہے۔ مسئلہ سوشل میڈیا نے بنایا ہوا ہے کیونکہ یہ ہوا کی مانند ہے اور ہوا کو مٹھی میں کیسے بند کیا جاسکتا ہے۔یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ جس بلا کا نام سوشل میڈیا ہے اُس کی فکر لاحق ہے۔ قانون بھی بنائے گئے ہیں‘ مختلف قسم کی لگامیں بھی تیار کی گئی ہیں۔ بہت کچھ کنٹرول کے دائرے میں آ بھی چکا ہے لیکن ہوا ہے کہ مکمل طور پر ساکت و جامد نہیں ہو سکتی۔ ہوا کی قدرت میں نہیں کہ وہ ساکت ہو جائے۔ اور اس وجہ سے مختلف قسم کے مہربان تشویش میں مبتلا رہتے ہیں۔ فلسفہ وہی ہے جو پرانے زمانوں میں تھا کہ خبر رکنے سے حقیقت پر قابو پا لیا جائے گا۔ اور یہی مختلف ادوار میں خام خیالی رہی ہے۔ حقیقت تو حقیقت ہوتی ہے چاہے اُس کی خبر کہیں چلے یا نہ چلے۔
موجودہ صورتحال بھی ایک فلم کی مانند ہے۔ سب ہمارے سامنے چل رہا ہے۔ کیا ہمیں پتا نہیں کہ خیبرپختونخوا کی عمومی صورتحال کیا ہے؟ ٹی ٹی پی پر جو بھی لیبل چسپاں کیا جائے اس کی طرف سے حملے تو آئے روز ہو رہے ہیں۔ جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے‘ پولیس اور دیگر ایجنسیاں پریشر میں ہیں اور وہاں کے لوگ سابقہ تجربات سامنے رکھتے ہوئے چیخ چیخ کر کسی نئے آپریشن کی مخالفت کررہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کتنی بار کہہ چکے ہیں کہ صوبے کے جنوبی اضلاع پر جس کی رِٹ ہونی چاہیے وہ موجود نہیں۔ بلوچستان کی صورتحال کی کس کو خبر نہیں؟ بیشتر پاکستانیوں نے (بشمول میرے) بلوچستان کے نقشہ کا صحیح طرح مطالعہ نہیں کیا۔ لیکن اس کے باوجود سب پاکستانیوں نے اب تربت کا سن لیا ہے ‘ نوشکی کا پتا چل گیا ہے‘ درۂ بولان اور وہاں سے گزرتی ریلوے لائن کی جانکاری ہو گئی ہے۔
اب تو اس بات کا احساس بھی ہوچلا ہے کہ بلوچستان کس طرف جا رہا ہے۔ سکرین پر چلتی فلم میں سب کچھ دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن جستجو کیا ہے؟ کہ بس خبر نہ آئے‘ جہاں تالے لگے ہوئے ہیں وہاںلگے رہیں۔ اس سے حاصل کیا ہو رہا ہے؟ بنگال میں بہت کچھ چھپا ہوا تھا‘ ہم مغربی پاکستان والے بے خبری کے مارے ہوئے تھے۔ یہاں تو سب عیاں ہے۔ لیکن ہماری بے فکری ہے کہ اُس میں مست ہیں۔