"AYA" (space) message & send to 7575

پانی کا مسئلہ پنجا ب کبھی نہ سمجھا

ہم پنجابیوں کو کون سمجھائے کہ اپنے تو تین دریا ہمیشہ کیلئے چلے گئے لیکن باقی ماندہ دریاؤں کے پانیوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں‘ بغیر سمجھے کہ اوروں کا بھی حق ان پر ہے۔ اس بحث میں گئے بغیر کہ سندھ طاس معاہدے سے کیا فائدے ہوئے اور کیا نقصان‘ اتنا تو واضح ہے کہ راوی‘ ستلج اور بیاس ہم سے گئے اور پڑوسی ملک کے ہو گئے۔ جہلم اور چناب کے پانی جس طرح استعمال ہونے چاہئیں تھے ہم نہ کر سکے اور اس میں بھی پڑوسی ملک ہم سے سبقت لے گیا۔ ان دو دریاؤں کا پانی جس طرح ہندوستانی استعمال کر رہے ہیں اور ان دریاؤں پر ڈیم اور بجلی گھر بنا رہے ہیں ہم ہی کر لیتے۔ لیکن نہیں‘ اس کیلئے کچھ سوچ چاہیے تھی اور یہاں بیماری ہی یہی رہی کہ سوچ نام کی چیز کا ہمیشہ فقدان رہا۔ رہ گیا دریائے سندھ تو تربیلا کی صورت میں اُس کا پانی استعمال ہو رہا ہے لیکن عرصے سے پنجاب میں یہ دھڑکا لگا رہا کہ کالا باغ ڈیم بننا چاہیے۔ خیبر پختونخوا کے لوگوں نے مخالفت کی‘ سندھیوں نے آواز اٹھائی‘ پھر جا کے کہیں یہ منصوبہ رکا نہیں تو زعما ودانشورانِ پنجاب اب تک یہی کہتے آئے ہیں کہ کالا باغ ڈیم کا نہ بننا پاکستان کے خلاف ایک گھناؤنی سازش تھی۔ انہیں کون بتائے کہ اس ہٹ دھرمی پر قائم رہنے سے چیزوں کو اکٹھا رکھنا مشکل ہو جاتا۔
کالاباغ ڈیم کا منصوبہ تو عملاً ختم ہو گیا لیکن اب ایک نیا چونچلا کھڑا کر دیا گیا ہے کہ دریائے سندھ سے نہروں کے ذریعے پانی نکال کر چولستان کو آباد کرنا ہے۔ ارادہ نیک ہے‘ صحرا سبز وشاداب ہو جائے تو اچھی بات ہے لیکن اُس میں بھی دیکھنا یہ چاہیے کہ چولستان کی قدیم آبادیوں کو فائدہ ہوگا یا وہاں بھی آباد کاروں کو بٹھا دیا جائے گا۔ بہرحال یہ تو دور کی بات ہے‘ فی الحال مسئلہ تو یہ ہے کہ جتنا صحرا کو پانی چاہیے ہو گا وہ دریائے سندھ سے نکالا گیا تو پیچھے رہ کیا جائے گا؟ دریائے سندھ میں ویسے بھی وہ پانی نہیں رہا جو ایک زمانے میں بہتا تھا۔ ہاں سیلاب آئے تو پھر دریائے سندھ کی طغیانی دیکھنے کی ہوتی ہے لیکن نارمل حالات میں جیسا کہ آج کل ہے‘ آدھا دریا تو سوکھا پڑا ہے۔ فصلوں کیلئے پانی کافی نہیں‘ ماہی گیر بیٹھے ہوئے ہیں کہ دریا سے کچھ ملنا مشکل ہو گیا ہے۔ لیکن یہ چولستان والا منصوبہ پتا نہیں کس کی زرخیز سوچ ہے کہ پاکستان زراعت میں تبھی ترقی کرے گا جب دریائے سندھ کا پانی چولستان کو سیراب کرے۔
تمام سندھ اس نکتے پر کھڑا ہو گیا ہے‘ کیا ہاری کیا وڈیرے۔ جن کا زراعت سے تعلق نہیں وہ بھی احتجاج کا حصہ بن رہے ہیں کہ سندھ کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی چونکہ اقتدار کا حصہ ہے اب تک چپ رہی‘ اُس کے لیڈرانِ کرام کے لب اب تک سلے پڑے تھے لیکن پارلیمنٹ کے خطاب میں صدر آصف علی زرداری بول اٹھے ہیں کہ ایسے منصوبے کی وہ حمایت نہیں کر سکتے۔ اور جو منصوبہ ساز ہیں اُنہیں یکطرفہ کارروائیاں نہیں کرنی چاہئیں اور تمام متاثرہ طبقات کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ کوئی ہمارے اربابِ اختیار سے پوچھے کہ اس وقت دیگر مسائل میں کیا کمی آ گئی ہے کہ یہ نیا شوشا چھوڑا گیا ہے؟ اس وقت ریاست دہشت گردی سے نمٹ رہی ہے۔ دو صوبوں کے وسیع علاقوں میں ایک شورش زدہ صورتحال پائی جاتی ہے۔ انہیں باغی کہیے یا سرکش عناصر‘ ان لوگو ں کی طرف سے آئے روز حملے ہو رہے ہیں‘ جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے۔ جوان اور افسر شہید ہو رہے ہیں۔ اس صورتحال کا تو پہلے کچھ مداوا کیا جائے‘ ہمارے دو مغربی صوبوں میں امن وشانتی قائم ہو۔ ساتھ ہی ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے معاشی حالات کیا ہیں۔ مانگے تانگے پر گزارا ہو رہا ہے۔ سیاسی میدان میں بھی ایک محاذ آرائی جاری ہے۔ غرضیکہ اتنے محاذ کھلے ہوئے ہیں کہ ریاستی توانائیاں محدود ہیں اور مسائل ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ ایسے میں نئے مسائل کھڑے کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔
لیکن دیکھا جا سکتا ہے کہ بغیر کسی وسیع تر مشاورت یا اتفاقِ رائے کے یہ چولستان والا منصوبہ قوم کے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔ اخباری اطلاعات یہ ہیں کہ چولستان کی بہت ساری زمین اس منصوبے کیلئے مختص کر دی گئی ہے۔ پھر سے دہرانے کی بات ہے کہ اس وقت قوم کو درپیش چیلنجز بہت سے ہیں۔ ان پر توجہ دیں‘ ان سے نمٹا جائے اور ایسی کوئی بات نہ کی جائے جس سے مختلف حلقوں میں مزید اضطراب پیدا ہو۔ میرا اپنا خیال ہے کہ صدر زرداری کے انتباہ کے بعد اور سندھ میں جو صورتحال بن رہی ہے‘ اُس کے پیش نظر اس منصوبے کو آگے چلانا مشکل ہو جائے گا۔ حالات کو دیکھتے ہوئے یہاں تک بھی کہا جا سکتا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتے ہوئے اگر اس منصوبے کو آگے کیا گیا تو یا تو پیپلز پارٹی کو بے حد سیاسی نقصان اٹھانا پڑے گا یا اُسے حکومت سے علیحدہ ہونا پڑے گا۔ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے‘ سندھی عوام کی بقا اور خوشحالی کا سوال ہے۔ ابھی تو احتجاج کی شروعات ہیں‘ خاطر خواہ حل تلاش نہ کیا گیا تو صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
یہ بھی دیکھا جائے کہ مغربی صوبوں میں شورش کے علاوہ پاکستان میں اور بھی بہت سے مقامات ہیں جہاں احتجاج کے مناظر دیکھے جاسکتے ہیں۔ دیامر ڈیم کے حوالے سے حال ہی میں شمالی علاقوں میں سخت قسم کا احتجاج ہوا ہے ۔ وہاں کے مکینوں کا اکتیس نکات پر محیط چارٹر آف ڈیمانڈ تھا‘ پتا نہیں اُس پر کیا ہوا ہے۔ سوات میں حالیہ دنوں میں احتجاج ہوا ہے‘ نئی تنصیبات کے سلسلے میں۔ خیبر پختونخوا کے ضلع کُرم میں ابھی تک حالات سخت قسم کے تناؤ کا شکار ہیں۔ پچھلے دنوں آزاد کشمیر میں احتجاج ہوا تھا اور وہ اتنا سخت تھا کہ حکومت کو تمام مطالبات ماننے پڑے۔ اس تناظر میں سندھ میں احتجاج کی صورتحال پیدا ہونا خطرے کی علامت ہے۔
بنیادی مسئلہ تو یہ ہے کہ سیاست دب کے رہ گئی ہے‘ سیاسی آوازیں دب گئی ہیں‘ اور جو ایک جمہوری ماحول میں گفتگو اور گفت وشنید کا انداز ہونا چاہیے وہ ختم ہو گیا ہے۔ یہ سب کچھ تو پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے تھا لیکن جو پارلیمنٹ کا حال ہو گیا ہے اس سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے۔ جہاں تک حکومتی حلقے ہیں ان کی آواز میں کتنا زور ہو سکتا ہے۔ جب آپ بٹھائے گئے ہوں‘ سر پر چھتری کسی اور کی ہو‘ سہارا دینے کیلئے ٹیک کسی اور کی ہو تو آپ نے کیا بات کرنی ہے اور ویسے بھی آپ کی بات میں کتنا وزن ہو سکتا ہے۔ سیاست کے دبنے سے موجودہ نظام میں ایک عدم توازن کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ عوام نے جو رائے دی اُسے کتنا خاطر میں لایا گیا وہ ہمارے سامنے ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جس میں غلط فیصلوں کا لیا جانا اتنا انوکھا نہیں رہتا۔ ٹوکنے والا نہ روکنے والا تو پھر آپ نے اپنی مرضی ہی کرنی ہے۔ اور مرضی کرنی ہے تو چولستان جیسے منصوبے سامنے آ جاتے ہیں۔
سیاسی معاملات تو بدلنے نہیں‘ فی الحال اس کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ تناؤ کی کیفیت بہت گہری ہو چکی ہے‘ ایک طرف حکومتی حلقے اور دوسری طرف معتوب عناصر۔ کوئی درمیانی نکتہ ان میں نہیں اور نہ مستقبل قریب میں کوئی درمیانی نکتہ نظر آتا ہے۔ پھر بھی ایسی کوئی چیز جس سے اضطراب اور اشتعال پیدا ہو اُس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس چولستان والے منصوبے پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔ پنجاب کے اپنے مسائل بہت ہیں اُن پر توجہ دی جائے اورساتھ ہی پانی کے مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں