کیسی حالت اس سنہرے دیس کی بن گئی ہے کہ تمام امیدیں ایک کھیل پر بندھی ہوں اور ہر بار جسے اربابِ فکر ونظر نے ازلی دشمن کا درجہ دیا ہو اُس کے ہاتھوں پِٹ کے رہ جائیں۔ ایک بار پٹنا ہو پھر تو کوئی اتنی بڑی بات نہیں لیکن غازیانِ فتح وامید ہر بار میدانِ کرکٹ میں اتریں تو ازلی دشمن سے ایسی پٹائی ہو کہ شرم وحیا کی تمام حدیں پار ہو جائیں۔ رنج وغم کا منظر اس لیے بھی کہ ازلی دشمن سے کسی اور میدان یا شعبے میں مقابلہ رہ نہیں گیا۔ تعلیم وتحقیق میں وہ آگے‘ درس وتدریس میں وہ کہاں اور ہم کہاں‘ اُن کے امبانی اور ٹاٹا دنیا کے صنعتکاروں سے مقابلہ کریں‘ چاند کی ایک نکڑ پر بھی ازلی دشمن پہنچ چکا ہو‘ دولت زیادہ‘ زرِمبادلہ کے ذخائر اتنے کہ ذکر کرتے ہوئے پاکستانی لبوں پر شرم آ جائے۔ ایک کرکٹ کا میدان ہی تھا جس سے امیدیں بندھی رہتی تھیں کہ بس جوشِ جہاد آنے کی دیر ہے اور ہم نے ہندوستانیوں کو شکست دینی ہے۔اس وادیٔ امید میں بھی گنگا اُلٹی بہی اور زیادہ بار شکست کا تاج ہمارے کھلاڑیوں کو ہی پہننا پڑا۔
لیکن اہلِ فکر ودانش سے یہ سوال پوچھنا بنتا ہے کہ اگر ہر شعبے میں ستیاناس قومی شعار بن چکا ہے تو کرکٹ کا میدان ایسی ستیاناسی سے کس منطق سے بچا رہے؟ کھیل کود کے معرکے خلا میں نہیں مارے جاتے۔ اولمپک گیموں کے نتائج پر تو ایک سرسری نظر ڈالی جائے‘ اس میدان میں بھی اُنہی قوموں کی کارکردگی بہتر رہتی ہے جن کی حالت کچھ سنبھلی ہو۔ زیادہ میڈل کن ممالک کے حصوں میں آتے ہیں؟ امریکہ‘ روس اور چین۔ چین جب افیمیوں کا ملک کہلاتا تھا تو کھیلوں کے میدان میں کہیں نہ تھا۔ انقلابِ چین نے اُس معاشرے کو تبدیلی کی راہ پر ڈالا تو بتدریج چینی قوم کھیلوں کے میدان میں اچھی کارکردگی دکھانے لگی۔ کسی میدان میں بھی کچھ کرنے کے لیے پہلی چیز اعتماد اور خود اعتمادی ہوتی ہے۔ پاکستان کا سبز پاسپورٹ پکڑا ہو تو اعتماد کچھ کمزور ہونے لگتا ہے۔ ہماری کرکٹ ٹیمیں بھی اسی معاشرے سے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں اربابِ حکم وجبر نے کچھ اعتماد رہنے دیا ہو پھر تو ہمارے کھلاڑی بھی سینے پھلا کے چلیں۔ لیکن جو حال ملک وقوم کا ہمارے سامنے ہے ہمارے کرکٹ کھلاڑیوں کی یہی مہربانی کافی ہے کہ میدان میں اُتر جاتے ہیں۔ اس سے زیادہ کی توقع اُن سے نہ کی جائے۔
معاشرے نے ٹھیک ہونا نہیں ہے‘ اس کی ہم نے قسم کھائی ہوئی ہے تو بیچارے گیارہ یا بیس کھلاڑی پچیس کروڑ بے ہنگم آبادی کی امیدیں اپنے کندھوں پر کہاں تک اٹھاتے پھریں؟ ویرات کوہلی اور روہت شرما وغیرہ کوئی پیدائشی رستم وسہراب نہیں ہیں۔ لیکن وہ ایک آگے قدم رکھنے والے معاشرے کے نمائندوں کے طور پر کرکٹ کے میدان میں اترتے ہیں۔ اُن کا اعتماد وہاں سے آتا ہے۔ کرکٹ بورڈ یہاں بھی ہے‘ وہاں بھی لیکن اُن کے بورڈ پر کوئی وزیر داخلہ امیت شاہ نہیں بیٹھا ہوا۔ وہاں کا امیت شاہ اپنے کام سے کام رکھتا ہے اور کرکٹ بورڈ کا چیئرمین کھیل کے معاملات چلاتا ہے۔ یہ تصرف اُنہی کو مبارک ہو‘ ہم جو اپنے ساتھ کر رہے ہیں وہ ہمارے لیے بہتر ہے۔ یہاں کے معاملات میں کچھ تبدیلی آئے‘ اس کی امید نہ رکھی جائے۔
پاکستانی جب کسی ایک میچ میں ازلی دشمنوں کے ہاتھوں پٹائی پر ماتم کرنے بیٹھ جاتے ہیں اُنہیں حالات کا پورا تناظر سامنے رکھنا چاہیے۔ پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا اور ہندوستان کو آزادی ملنا‘ یہ دونوں عوامل ایک ہی برطانوی قانون کی وجہ سے پایۂ تکمیل کو پہنچے۔ دونوں ممالک کا قانونی اور آئینی ڈھانچہ ایک تھا۔ تمام قوانین ایک تھے۔ ادارے ایک قسم کے تھے۔ لیکن ہمارا ازلی دشمن ایک ڈگر پر چلا اور غازیانِ جنون وافتخار نے کوئی اور راستہ اپنایا۔ ایک بنیادی فرق جلد ہی نمایاں ہو گیا اس صورت میں کہ یہاں ایک کھجلی سی پیدا ہونے لگی کہ ہر پانچ سال کچھ نہ کچھ کرنا ہے اور قلعۂ سیاست میں کسی طالع آزما نے بھاری قدم رکھنے ہیں۔ پہلی کھجلی غلام محمد اور اسکندر مرزا کو ہوئی اور پھر ایوب خان زیادہ شدت سے اسی کھجلی کی زد میں آئے۔ کبھی پانچ سالہ اور کبھی دس سالہ یہ اُلجھن ہمارے نصیبوں کا حصہ بن گئی۔ ہندوستان میں اور لاکھ کمزوریاں لیکن اس مخصوص اُلجھن یا کھجلی سے وہ آزاد رہا۔ وہاں اداروں کی نشو ونما ہوئی‘ یہاں طالع آزمائی پر زور ہوتا رہا۔ اس عجیب سی اُلجھن نے اس معاشرے کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ جب سیاست بچی نہ آئین وقانون تو اہلِ دانش یہ بتائیں کہ کرکٹ یا کوئی اور چیز اس ستیاناسی سے کب بچ سکتی تھی؟ لہٰذا ہمیں اپنے کھلاڑیوں پر تھوڑا ہولا ہاتھ رکھنا چاہیے۔ جب ہمارے دوست نعیم بخاری کسی ہمہ تن وزیر کے بارے میں یہ کہیں کہ میرٹ پر یہاں کام ہوتا تو یہ صاحب لاہور سٹیشن کے سامنے تیل بیچ رہے ہوتے تو کرکٹ کھلاڑیوں پر اتنی سختی قرینِ انصاف نہیں۔
یہ بھی ملاحظہ ہو کہ حفاظت اور سکیورٹی کے نام پر یہاں کیسے تماشے رچائے جاتے ہیں۔ جس دن بنگلہ دیش اور پتا نہیں کسی اور ملک کی ٹیم اسلام آباد آ رہی تھی تو اسلام آباد ٹول پلازہ کے سامنے سے ان کی حفاظت کے لیے ٹریفک روک دی گئی۔ اتوار کا روز تھا اور میں بھی وہیں ٹریفک میں پھنس گیا۔ گاڑیوں کی میلوں لمبی قطاریں لگ گئیں اور لوگ حیران پریشان ایک دوسرے سے سوال کرتے رہے کہ ہو کیا رہا ہے۔ ٹریفک بحال ہوئی تو لشکر کشی اور سکیورٹی کا ایسا منظر تھا جیسے کہ کسی جنگ کی تیاری ہو رہی ہو۔ ایسے ہم کس کو متاثر کر رہے ہوتے ہیں؟ ایک باہر کی ٹیم کا آنا ہو تو شہروں میں اُدھم مچ جاتا ہے۔ دنیا بلوچستان اور کے پی کی صورتحال سے غافل ہے؟ جو دوسری سیاسی خلفشاریں ہیں اُس کا باہر کی دنیا کو پتا نہیں؟ یہ باجوہ کے زمانے میں فیصلہ ہوا تھا کہ پاکستان کے امیج کے لیے بین الاقوامی کرکٹ میچوں کا انعقاد ضروری ہے۔ جو میچ منعقد ہوئے اُن سے ملکی حالت بہتر ہو گئی ہے؟ جو ضروری کام ہیں اُن پر توجہ دی جائے۔ لیکن نہیں! توجہ تو تب دی جائے جب بات سمجھ میں آئے۔ لیکن حالتِ سمجھ پر بھاری تالے لگے ہوں تو حالات کا ادراک کہاں سے آنا ہے اور ترجیحات کاصحیح تعین کیسے ہونا ہے؟
اس وقت قومی مجبوری کا فیصلہ یہی ہے کہ جیسا ہے ٹھیک ہے۔ اور جو ہو رہا ہے قوم اسی کے قابل ہے۔ ایوب خان نے اپنی کتاب ''فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ میں خود لکھا (یا اُن کی طرف سے الطاف گوہر نے لکھا) کہ ڈارچیسٹر ہوٹل لندن میں پاکستانی کھجلی نے اُنہیں ستایا تو کمرے میں ٹہلنے لگے۔ اس الجھن میں اُنہیں یہ انقلابی خیال آیا کہ پاکستانی قوم جمہوریت کے قابل نہیں۔ کھجلی سے پیدا یہ سوچ اُن جیسوں کی دائمی سوچ بن گئی اور آنے والے وقتوں میں یہ سوچ مضبوط ہوتی گئی۔ یعنی فکرِ قائد بھاڑ میں جائے۔ بانیانِ پاکستان ہمارے دماغ کی اُڑان تک کہاں پہنچ سکتے تھے۔
رونا پھر کاہے کا۔ مملکتِ خداداد کی تزئین وآرائش ہی ایسی ہوئی کہ جہاں قوم پھنس چکی ہے اور جو اس کے ساتھ ہو رہا ہے وہ ایک منطقی امر ہے۔ بیج کسی اور نے نہیں‘ اکابرینِ ملت نے بویا۔ ایوب خان کی سوچ کے حامل اور لوگ بھی تھے جنہوں نے یہی سمجھا کہ یہ قوم بس ہانکنے کے لیے ہی ہے۔ اسی لیے مذاقاً نہیں سنجیدگی سے کہتے ہیں کہ اپنی شاموں کی فکر کریں اور بے خودی کا جو سامان ہاتھ آئے اُسی پر گزارا کریں۔ رونا چھوڑ دیں اور یہی سمجھیں کہ جو ہو رہا ہے ہماری تقدیرمیں یہی لکھا ہے۔