"KNC" (space) message & send to 7575

کیا ملک میں کوئی سیاستدان ہے؟

کیا اس ملک میں کوئی سیاسی قیادت موجود ہے؟ اگر ہے تو مسائل کا سیاسی حل کیوں تلاش نہیں کیا جا رہا؟
واقعات کی زبان جو کہانی سنا رہی ہے‘ اس سے تین باتیں واضح ہیں۔ ایک یہ کہ بلوچستان میں دہشت گردی ہو رہی ہے۔ ریل گاڑی کا اغوا اوردھماکے۔ آئے دن پنجابیوں اور عام شہریوں کا قتل۔ فوج اور پولیس پر حملے۔ جمعرات کو کوئٹہ میں جو بم دھماکہ ہوا‘ اس میں ایک ڈاکٹر کا قتل بھی ہوا جو سرطان کے مریضوں کے لیے امید کی کرن تھا۔ ان واقعات کو دہشت گردی کے علاوہ کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ اس میں کسی عاقل کو شک نہیں کہ اس دہشت گردی کا سبب‘ تصورِ قومیت کی اساس پر اٹھنے والی علیحدگی کی تحریک ہے۔
دوسری بات جس کا انکار محال ہے وہ کے پی میں لاقانونیت ہے۔ اس کی بنیاد مذہبی ہے۔ ریاست کے ملازمین اور عام شہریوں کو مذہب کے نام پر قتل کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ علما کو بھی معاف نہیں کیا جا رہا۔ میں نہیں جانتا کہ اس غارت گری کے پیچھے کوئی غیر ملکی قوتیں ہیں یا نہیں۔ میں البتہ یہ ضرور جانتا ہوں کہ ایک مذہبی تعبیر امرِ واقعہ ہے جو اس فساد کو دین کے مطابق سمجھتی ہے۔ عام شہریوں کے قتل کا دینی جواز پیش کرتی ہے۔ محرکات پہ بحث ہو سکتی ہے مگر کوئی شخص بقائمی ہوش وحواس‘ اس کا انکار نہیں کر سکتا کہ یہ دہشت گردی اور فساد ہے۔
تیسری بات یہ کہ کچھ لوگ گھروں سے اٹھا لیے جاتے ہیں۔ کبھی خبر ملتی ہے کہ بیرونِ ملک مقیم کسی صحافی کے بھائی غائب ہیں۔ وہ بظاہر کسی جرم میں ملوث نہیں تھے۔ کبھی اطلاع آتی ہے کہ کسی صحافی کو اٹھا لیا گیا ہے۔ بعض برآمد ہو جاتے ہیں اور ان پر مقدمہ بھی قائم ہو جاتا ہے۔ اگر معاملہ عدالت تک پہنچ جائے تو اس پر اصولی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم کسی فرد کو گھر سے اٹھا لینا‘ جبکہ وہ مفرور ہے اور نہ ہی کسی خفیہ سرگرمی میں ملوث ہے‘ ایک ایسا کام ہے جس کی تائید کوئی ایسا آدمی نہیں کر سکتا جو قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہے۔ اگر انگلیاں کسی ریاستی ادارے کی طرف اٹھیں تو یہ اور بھی تشویشناک بات ہے۔
یہ تینوں باتیں ظاہر وباہر ہیں۔ کوئی ان کا انکار نہیں کر سکتا۔ کیا کوئی ذی عقل کہہ سکتا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی نہیں ہو رہی؟ کیا کوئی ہوش مند یہ کہنے کی جسارت کرے گا کہ کے پی مذہبی جنون اور انتہا پسندی کی گرفت میں نہیں ہے؟ کیا آئین اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والا اس کی تائید کر سکتا کہ لوگوں کو ان کے گھروں سے اٹھا لیا جائے یا الف کے جرم میں 'ب‘ کو پکڑ لیا جا ئے؟ اگر سب مانتے ہیں کہ یہ واقعات ہو رہے ہیں اور یہ بھی کہ ان کا کوئی جواز نہیں‘ تو کیا اگلا مرحلہ اس سوال پر غور کا نہیں ہے کہ ان واقعات کو کیسے روکا جا ئے؟ دہشت گردی کیسے ختم ہو؟ جب یہ سوال زیرِ بحث آئیں گے تو اس کے محرکات بھی موضوع بنیں گے۔
لازم ہے کہ ان مسائل کے اعتراف کے ساتھ‘ ایک قومی سطح کا مکالمہ ہو۔ مکالمے میں ایک بات پر اتفاق ہونا چاہیے۔ ایک کہ کون سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتا ہے اور کون ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھاتا ہے۔ کون دو چہروں‘ سیاست اور عسکریت کے ساتھ روبہ عمل ہے؟ جو لوگ سیاسی محاذ پر مصروف ہیں‘ ان سے تو یقینا مکالمہ کرنا چاہیے۔ جو عسکریت پسند ہیں‘ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے‘ اس پر بات ہونی چاہیے۔ ریاست اس سے پہلے ایسے گروہوں سے مذاکرات کر چکی ہے۔ اب بھی اس کا کوئی امکان ہے تو اس کو ضرور دیکھنا چاہیے۔ نہیں‘ تو ان کے خلاف طاقت کے استعمال پر یکسو ہو جانا چاہیے۔
مکالمے کا آغاز حکومت کا فریضہ ہے۔ یہ حکومتیں ہیں جو قوم کو جمع کرتی ہیں۔ اس مکالمے میں تما م سیاسی جماعتوں‘ سول سوسائٹی‘ علما‘ اہلِ دانش اور میڈیا کو شریک کیا جا ئے۔ یہ مکالمہ کسی بند کمرے میں نہ ہو۔ عام آدمی بھی واقف ہو کہ کیا ہو رہا ہے۔ اس مکالمے کا واضح ایجنڈا ہو۔ سب کی بات سنی جائے اور پھر ایک لائحہ عمل پر اتفاق ہو جائے۔ اس سے ریاست اور عوام میں فاصلہ کم ہو گا۔ پھر ریاست جو اقدام کرے گی‘ اس پر اسے میڈیا اور عوام کا اعتماد حاصل ہوگا۔
آج ملک میں ابہام ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو ماہ رنگ کو مظلوم ثابت کر رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ دراصل عسکریت پسندوں کا سیاسی بازو ہے۔ ایک طرف مظلومیت کی ایسی کہانیاں ہیں کہ انسان فطرتاً ظلم کے خلاف ہونے کی وجہ سے‘ ان کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ سب افسانہ طرازی ہے۔ یہ راوی ہیں جو زیبِ داستان کے لیے کہانیاں گھڑ رہے ہیں۔ تاریخ میں ہمیشہ ایک گروہ رہا ہے جو اس طرح کی حرکتیں کرتا ہے۔ اسی طرح کسی مقدمے اور قانون کی اجازت کے بغیر‘ کسی کوگھر سے اٹھانا ایسا فعل ہے کہ اس کی تائید نہیں کی جا سکتی۔
یہ سب ابہام تبھی دور ہوں گے جب سب کو بٹھایا جا ئے گا۔ سب کی سنی جائے گی۔ اگر غلط فہمی ہے تو دور کی جائے گی۔ کوئی ریاست مخالف ایجنڈا ہے تو اسے بے نقاب کیا جائے گا۔ ایک سے زیادہ حل تجویز کیے جائیں گے۔ پھر ان کو ملا کر متفقہ حل تک پہنچا جائے گا۔ اسے سیاسی حل کہتے ہیں اور اس کا آغاز ہمیشہ حکومت ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس سے سماج کو اضطراب سے کسی حد تک محفوظ رکھا جا سکتا‘ جو ان حالات میں ناگزیر ہوتا ہے۔ جنہیں ہم ریاست دشمن کہتے ہیں‘ ان کی اصلیت کو واضح کرنے کا صحیح طریقہ یہی ہے۔
1970ء میں ہم مکالمہ نہیں کر سکے۔ شواہد یہی بتاتے ہیں کہ کہ عوامی لیگ بیک وقت سیاسی بھی تھی اور متشدد بھی۔ اُس وقت کی حکومت نہ تو تشدد کے بارے میں قوم کو حقیقت سمجھا سکی اور نہ ہی کوئی سیاسی حل تلاش کر سکی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بحران بڑھتا گیا۔ بحران کی طوالت کسی ریاست کے حق میں نہیں ہوتی۔ اس کا فائدہ ہمیشہ متشدد اور فسادی تحریکوں کو پہنچتا ہے۔ بغیر تحقیق داستانیں پھیلتی ہیں۔ جب کوئی محقق دس برس بعد ان کی حقیقت واضح کرتا ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ آج سوشل میڈیا کے دور میں ریاست کو ظالم ثابت کرنا کہیں آسان ہو گیا ہے۔
بدقسمتی سے مجھے اس مکالمے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ ریاست کا سیاسی محاذ مکمل خاموش ہے۔ حکومت کی ترجیحات میں ترقی کے منصوبے ہیں۔ معیشت کو سنوارنے کا عزم ہے۔ یہ سب مبارک مگر اس وقت ترجیح بلوچستان کو دینی چاہیے۔ اگر امن نہیں ہو گا تو معیشت بھی ترقی نہیں کر پائے گی۔ حکومت کی خاموشی سے ان قوتوں کو تقویت مل رہی ہے جو ریاست گریز ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ کام نواز شریف صاحب کی سطح کے لوگوں کو کرنا چاہیے۔ پہلے مرحلے میں نواز شریف صاحب اور آصف زرداری صاحب مل بیٹھیں۔ ایک حکمت عملی بنائیں اور سب کو اعتماد میں لیں۔ اس وقت یہی دو جہاں دیدہ سیاستدان ہیں۔ اگر محمود اچکزئی صاحب کو ساتھ ملا لیں تو اس کا مزید فائدہ ہو سکتا ہے۔
اگر آج ملک میں کوئی سیاسی قیات اور سیاسی حکومت موجود ہے تو انہیں اپنی موجودگی ثابت کرنا ہو گا۔ ملک کو درپیش مسائل کا سیاسی حل تلاش کرنا ہو گا۔ اس میں ناکامی اہلِ سیاست کی ناکامی ہے۔ سب سے پہلے انگلیاں حکومت پر اٹھیں گی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں