ابھی ردِ اسلامو فوبیا کی ایک تقریب سے واپس آیا ہوں۔
اقوامِ متحدہ نے او آئی سی کی ایک قرارداد پر 15مارچ کویہ دن منانے کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان میں قومی رحمۃ للعالمین وخاتم النبیین اتھارٹی نے گزشتہ برس کی طرح‘ امسال بھی ملک بھر میں ایسی تقریبات منعقد کیں۔ ان کا مقصد اس سوال کا جواب تلاش کرنا تھا کہ بطور مسلمان ہم اس چیلنج کا سامنا کس طرح کر سکتے ہیں؟ اس تقریب میں مَیں نے محترم احسن اقبال صاحب اور محترمہ وجیہہ قمر صاحبہ سے جو کچھ سنا‘ وہ اس موضوع کے ایک خاص پہلو کو نمایاں کر رہا ہے۔
ہم دیکھ چکے کہ ردِعمل کی نفسیات کے ساتھ‘ اس چیلنج کا سامنا نہیں کیا جا سکتا۔ ایک شریر طبقے نے جس طرح قرآن مجید اور رسالت مآبﷺ کی ذاتِ والا صفات کو اپنی شرارتوں کا ہدف بنایا‘ اس پر مسلمانوں کی جانب سے جس انداز میں اظہارِ ناراضی ہوا‘ اسے اس طبقے نے اپنے مؤقف کے حق میں استعمال کیا۔ اس کا مقدمہ ہی یہ ہے کہ اسلام انسانی تہذیب اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ یہ لوگ مذہب کے نام پر قتل وغارت گری پر ایمان رکھتے ہیں۔ جب ہر طرف سے قتل کے فتوے جاری ہوتے اور اس کا ارتکاب کرنے والے ہیرو قرار پاتے ہیں توردِعمل کی یہ نفسیات اسلام کی دعوت کے لیے رکاوٹ بن جاتی ہے۔ گزشتہ دو تین دہائیوں میں مغرب اور پاکستان جیسے مسلم اکثریتی ممالک میں جو واقعات ہوئے‘ انہیں اس طبقے نے خوب اچھالا اور سادہ ذہن کو زہر آلود کیا۔ اس لیے آج اس چیلنج کا سامنا کر نے کے لیے ہمیں ایک نئے بیانیے کی ضرورت ہے۔ ایسا بیانیہ جو مثبت ہو۔ یہ بیانیہ کیا ہو سکتا ہے‘ اس تقریب میں اس کا جواب دیا گیا۔ احسن اقبال صاحب نے مغرب کے تعلیمی اداروں میں پڑھا ہے۔ ایک روایتی مسلمان خاندان میں وہ پیدا ہوئے۔ انہوں نے عالمانہ اسلوب میں اسلامو فوبیا کا ناقدانہ جائزہ لیا اور مسلمانوں کے لیے اجتہادی بصیرت کا حامل ایک جوابی بیانیہ پیش کیا۔
اسلام سر تاپا ایک مثبت دعوت ہے۔ یہ تمام انسانیت کے لیے خیر کا پیغام ہے۔ اسلام ابراہیمی روایت کا آخری دین ہے۔ یہ اس تمام روایت کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ مسلمان ہونے کے لیے صرف سیدنا محمدﷺ پر ایمان لانا کفایت نہیں کرتا۔ سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا مسیح علیہ السلام تک‘ تمام انبیاء ورسل پر ایمان لانا لازم ہے۔ صرف قرآن مجید پر ایمان کافی نہیں‘ تمام قدیم صحائف اور الہامی کتب پر ایمان بھی ضروری ہے۔ اس لیے اسلام کے دامن میں وہ وسعت ہے کہ و ہ دنیا کو اپنے دامن میں سمیٹ سکتا ہے۔ اس پس منظر کے ساتھ‘ یہ مسلمانوں ہی کا استحقاق ہے کہ وہ عالمی امن کے پیامبر بن کر کھڑے ہوں اور دنیا راہنمائی کے لیے ان کی طرف رجوع کرے۔
اللہ نے نبیﷺ کو عالمین کے لیے رحمت بنایا تو یہ بھی ختمِ نبوت کا لازمی نتیجہ تھا۔ چونکہ اب کوئی دوسرا نبی نہیں آئے گا‘ اس لیے آپﷺ کی چادرِ رحمت‘ سب کو اپنی پناہ میں لیتی ہے۔ اللہ کے قانونِ آزمائش کے مطابق‘ ہر کسی کو یہ حق ہے کہ وہ جس مذہب کو چاہے‘ اس پر ایمان رکھے اور اس باب میں کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ بزور کسی کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرے۔ اسلام میں مذہب کی بنیاد پر کسی کی جان لینے کی اجازت نہیں۔ یہ انسانی جان کی حرمت کا اعلان ہے۔ اس کے نظامِ جزا وسزا میں مسلمان اور غیر مسلم کی جان میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھا گیا۔ لازم ہے کہ اسلام کی یہ تعلیم لوگوں کے سامنے رکھی جائے۔ اس کے بعد کوئی باشعور آدمی اس دین پر اعتراض نہیں اٹھا سکتا۔ گویا اسلام کا یہ تعارف ہر منفی پروپیگنڈے کی عمارت کو ڈھا دیتا ہے۔
دوسرا کام یہ ہے کہ مسلمان فرد اور معاشرے اپنے طرزِ عمل سے اسلام کے گواہ بنیں۔ یہی شہادتِ حق ہے جس کی ذمہ داری اس امت کو سونپی گئی ہے۔ مسلمان فرد جب نبیﷺ کے اخلاق کا پرتو ہو گا اور سورۂ حجرات میں جس معاشرت کی تعلیم دی گئی ہے‘ مسلمانوں کا معاشرہ اس کی عملی تصویر بنے گا تو کوئی ذی شعور اسلام پر انگلی نہیں اٹھا سکے گا۔ جس سماج میں پڑوسی کے حقوق کا‘ اس کی مذہبی ونسلی شناخت سے قطع نظر‘ دینی فریضے کے طور پر خیال رکھا جاتا ہو‘ اس کے خلاف اگر کوئی آواز اٹھائے گا تو کم ظرفی کا اشتہار بن جا ئے گا۔ انسان کا ضمیر اسے مسترد کر دے گا۔ ایسا سماج اسلام کی چلتی پھرتی دعوت بن جائے گا اور یہی اسلام میں مطلوب ہے۔
مسلم قیادت نے ان دونوں پہلوئوں کو نظر انداز کیا اور مسلم معاشروں میں احتجاج کی نفسیات کو فروغ دیا۔ جن معاشروں کی اخلاقی تطہیر نہ ہوئی ہو‘ وہاں احتجاج ہمیشہ پُرتشدد ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہمارا احتجاج بھی تشدد سے خالی نہیں۔ ہمارا حال تو یہ ہو چکا کہ ہم اس نفسیات میں خود شکستگی پہ بھی آمادہ رہتے ہیں۔ احسن اقبال جیسا آدمی بھی اس مسلمان معاشرے میں‘ مذہب کے نام پر گولی کا مستحق قرار پاتا ہے‘ جن کی والد مرحومہ ناموسِ رسالت کے لیے اس ملک میں سب سے پہلے آواز اٹھانے والوں میں سے تھیں۔
ہم نے نئی نسل کو اس ردِعمل اور احتجاج کی نفسیات سے نکال کر علم اور تعمیرِ سیرت کے راستے پر ڈالنا ہے۔ اس میں یہ اعتماد پیدا کرنا ہے کہ وہ اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے اس دنیا میں خیر کے فروغ کا باعث بنے۔ وہ علم کی علمبردار ہو۔ حسنِ اخلاق کا نمونہ ہو۔ اس کا وجود اسلام کی چلتی پھرتی دعوت ہو۔ اس کے لیے ہمیں ساری توجہ اپنی تعلیم پر دینا ہو گی۔ نئی نسل کو اس کے لیے تیار کرنا ہو گا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ وفاقی وزارتِ تعلیم نے کردارکی تعمیر کو اب نظامِ تعلیم کا حصہ بنا دیا ہے جس کا مقصد سیرت النبیﷺ کی روشنی میں نئی نسل کی کردار سازی ہے۔ اس سے جہاں وہ سماج کے لیے بہتر انسان بنیں گے وہاں اپنی آخرت کو سنوارنے کا اہتمام بھی کریں گے۔
واقعہ یہ ہے کہ تعلیم ہی سے شعور پیدا ہوتا ہے۔ یہ لازم نہیں کہ تعلیم رسمی ہو لیکن اگر رسمی تعلیم میں بھی اس کا اہتمام ہو تو منزل آسان ہو جاتی ہے۔ اسلامو فوبیا جیسے مسائل کا حل یہی ہے۔ قومی رحمۃ للعالمین وخاتم النبیین اتھارٹی اس ضمن میں عالمِ اسلام کی سطح پر یکساں نظامِ تعلیم کے لیے بھی کام کر رہی ہے۔ اس ضمن میں ICESCO کے ساتھ مل کر اپریل میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ چونکہ اقوامِ متحدہ نے او آئی سی کی سطح پر اسلامو فوبیا کا مسئلہ اٹھایا ہے‘ اس لیے لازم ہے کہ ان موضوعات پر عالمِ اسلام کی سطح پر ایک حکمتِ عملی اپنائی جائے۔ اس مجوزہ کانفرنس میں خطے کے مسلم ممالک اپنے تعلیمی تجربات پیش کریں گے اور یوں ایک متفقہ لائحہ عمل اپنایا جائے گا تاکہ امتِ مسلمہ کے اس کردار کا احیا ہو جس کی اساس سیرتِ پیغمبرﷺ ہے۔
اس عمل کا آغاز نظری تبدیلی سے ہو گا۔ ہمیں زندگی کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بدلنا ہوگا۔ ردِعمل کی نفسیات سے نکلنا ہوگا۔ ہمیں نئی نسل میں اعتماد پیدا کرنا ہوگا۔ ردِعمل کی نفسیات معذرت خواہانہ رویے اور احساسِ کم تری کا اظہار ہے۔ جو امت خدا کے آخری پیغام کی امانت دار ہو‘ اس کوعالمِ انسانیت کے لیے باعثِ خیر ہونا چاہیے۔ امت کے اس کردار کا احیا ہی اسلامو فوبیا کا علاج ہے۔