کسی سیاسی جماعت کی قومی دھارے سے علیحدگی ایک تشویش ناک رجحان ہے۔ پی ٹی آئی کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی اس حکمتِ عملی سے رجوع کرے۔
ملک دہشت گردی کی گرفت میں ہے۔ سب خطرے میں ہیں۔ دہشت گرد کی کامیابی یہی ہے کہ وہ تمام سماج کو خوف میں مبتلا کر دے۔ قومی سلامتی کے ادارے‘ ایسی صورتحال میں ڈھال ہوتے ہیں۔ اس ڈھال کو ہدف بنایا گیا ہے کہ ان کا بھرم ختم ہو جائے اور عوام خود کو بے امان محسوس کریں۔ یہ ایک ہنگامی صورتحال ہے۔ ایسے مواقع ذاتی دکھ بیان کر نے کے نہیں ہوتے۔ جب گھر پہ افتاد آ پڑے تو سب اہلِ خانہ مل کر‘ اس کا سامنا کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کو معاملے کی حساسیت کا ادراک کرنا ہو گا۔
جمعیت علمائے اسلام کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو ریاست سے گلہ ہے اور حکومت سے بھی۔ اس کے باوصف وہ قومی دھارے سے الگ نہیں ہوئے۔ انہیں پوری طرح ادراک ہے کہ کب شکوہ کرنا ہے اور کب شکایت کو پسِ پشت ڈالنا ہے۔ ہر وقت 'اینگری ینگ مین‘ بنے رہنا غیر سنجیدگی کا اظہار ہے‘ جو کسی سیاستدان کو زیبا نہیں۔ افغانستان کی طالبان قیادت سے مولانا کے دیرینہ مراسم ہیں۔ مسلکی رشتہ بھی ہے۔ انہیں مگر اندازہ ہو گیا ہے کہ پانی سر سے گزرتا جا رہا ہے۔ وہ علما بھی جو ہمیشہ طالبان کے ہم نوا رہے‘ آج دہشت گردی میں ڈھلتی مذہبی انتہا پسندی کا ہدف بن رہے ہیں۔ اس نازک مرحلے پر انہوں نے اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے‘ ریاست کے ساتھ کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا۔ حالات اور حب الوطنی‘ دونوں کا تقاضا یہی تھا۔
ہماری سیاست اپنی تمام تر کوتاہیوں کے باجود ایسی مثالوں سے خالی نہیں جب اجتماعی مفاد نے مطالبہ کیا تو لوگ اپنے گروہی خول سے نکلے اور ایک دوسرے سے ہم قدم ہو گئے۔ 1965ء میں بھارت کے ساتھ معرکہ برپا ہوا تو ایوب خان کی آمریت اور ریاستی جبرکا شکار اہلِ سیاست ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ ایوب خان کا عہدِ جبر معمولی نہیں تھا۔ جماعت اسلامی کو خلافِ قانون قرار دیا گیا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو سزائے موت سنائی گئی۔ دیگر راہنما بھی زیرِ عتاب رہے۔ قومی مفاد مگر سب نے مقدم رکھا۔ بھٹو صاحب شملہ معاہدے کے لیے بھارت روانہ ہوئے تو حزبِ اختلاف کے راہنماؤں نے انہیں رخصت کیا۔
آج ہمیں اپنی تاریخ کے سب سے بڑے خطرے کا سامنا ہے۔ قومی وحدت کی بھی آج سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ سیاسی‘ مسلکی اور صوبائی عصبیتوں سے بلند ہو کر ہمیں ریاست کا ساتھ دینا ہے۔ ریاست کے ساتھ ہمارے اختلافات‘ وقت کا تقاضا ہے کہ اس وقت تک بالائے طاق رکھ دیے جائیں جب تک ہم اس خطرے سے نمٹ نہیں لیتے۔ بالائے طاق رکھنے کا مطلب بھلا دینا نہیں ہے۔ یہ تو وہ گٹھڑی ہے جسے آپ جب چاہیں کھول سکتے ہیں۔
اس بات کو بھی اب بطور اصول مان لینا چاہیے کہ تشدد کوئی حکمتِ عملی نہیں ہے۔ یہ مذہبی مطالبہ ہو یا سیاسی‘ ہماری جدوجہد آئینی اور اخلاقی حدود کی پابند ہو گی۔ ہمارے مذہبی و سیاسی راہنما جو تشدد کے قائل نہیں‘ وہ بھی بعض اوقات ایسے الفاظ سے ابلاغ کرتے ہیں جو بالواسطہ تشدد کے فروغ کا باعث بن سکتے ہیں۔ جیسے حکومت یہ کام ہماری لاشوں سے گزر کر کرے گی‘ یا فلاں مقصد کے لیے ہم خون کا آخری قطرہ بہا دیں گے۔ مذہبی مطالبات منوانے کے لیے بھی قتل کا لفظ ہماری لغت کا مستقل حصہ بن چکا۔ اس طرح ہم نادانستگی میں بھی تشدد کو فروغ دے رہے ہوتے ہیں۔ سیاسی و مذہبی لغت کو ایسے الفاظ سے پاک ہونا چاہیے جو سماج کو انتہا پسندانہ بناتے ہوں۔ ہمارے لکھاری بھی ایسے الفاظ بلاتکلف استعمال کرتے ہیں اور ساتھ ہی عدم تشدد کے پیامبر بھی کہلواتے ہیں۔
ریاست اور اہلِ سیاست‘ دونوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ ماضی میں ہم قومی مفاد کے نام پر جہاد جیسی اصطلاحوں کے سوئے استعمال کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس کے پس منظر میں گہرے دینی شعور کے بجائے محض جذبات کا حصہ تھا‘ اس لیے آج علما کے قتل جیسا قبیح فعل بھی جہاد بن گیا۔ جہاد کا حاصل امن ہوتا ہے‘ فساد نہیں۔ جہاد تو فساد کے خاتمے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ نتیجہ ہے جو فیصلہ کرتا ہے کہ ہم نے جہاد کیا یا فساد۔ چار دہائیوں میں جو کچھ ہوا‘ وہ فساد تھا۔ اس کے لیے‘ اس سے بڑی دلیل کیا ہو سکتی ہے کہ مسلم معاشروں کو خوف نے گھیر لیا۔ آج قاتل و مقتول دونوں مسلمان ہیں۔ اسی لیے آج یکسوئی کی ضرورت ہے کہ اگر ہم نے سماج کو تشدد سے پاک کرنا ہے تو اپنے فہمِ دین پر دوبارہ غور کرنا ہو گا جس نے جہاد اور فساد کا فرق مٹا دیا۔ پی ٹی آئی کو اس عمل کا حصہ ہونا چاہیے۔
اسی طرح حقوق اور قومی مفاد کے نام پر اٹھنے والا کوئی مطالبہ اس وقت بے معنی ہو جاتا ہے جب اسے منوانے کے لیے تشدد کا راستہ استعمال کیا جاتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ آج ہمارا لبرل طبقہ اس تشدد کے حق میں دلائل تراش رہا ہے۔ وہ گروہ جو اس تشدد کی وجہ سے مذہبی طبقات کو غلط کہتا تھا‘ آج قومیت کی پُرتشدد تحریکوں کے حق میں جواز تلاش کر رہا ہے۔ در اصل ہمارے لبرل طبقے کا خمیر بیسویں صدی کی اشتراکی نظریات سے اٹھا ہے‘ الا ماشاء اللہ۔ تشدد اشتراکیت سمیت تمام انقلابی تحریکوں کے فکر اور حکمتِ عملی کا ناگزیر حصہ ہے۔ بظاہر لبرل ازم کو ہر طرح کے تشدد کی مذمت کرنی چاہیے لیکن ہمارے لبرل طبقے کی ترکیب خاص ہے۔ آج جو سیاسی تحریکیں تشدد کی مذمت نہیں کرتیں‘ تاریخ ان کو بھی دہشت گردوں کا ہم نوا ہی قرار دے گی۔ تحریک انصاف کو بھی آج اس باب میں قومی دھارے کا حصہ ہونا ہے۔ اگر اسے اصرار ہے کہ وہ ایک سیاسی جماعت ہے تو لازم ہے کہ وہ مذہب اور قومیت کے عنوان سے اٹھنے والی تحریکوں کی مذمت کرے اور خود کو قومی سیاسی دھارے سے الگ نہ کرے۔ ریاستی اداروں سے شکایات اسے ایسے موڑ تک نہ لے جائیں جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔ اس کے سامنے عوامی لیگ کی مثال ہے اور دوسری سیاسی جماعتوں کی بھی۔ سب کو ریاست اور اس کے اداروں سے شکایت رہی ہے۔ عوامی لیگ کی قیادت مگر واپس لوٹ نہ سکی۔ اگر اس روایت کو درست مان لیا جائے کہ شیخ مجیب الرحمان علیحدگی نہیں چاہتے تھے‘ تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ انتہا پسندی کی سیاست نے انہیں بھی بے بس کر دیا تھا۔ تحریک انصاف میں مشاورت کا ایک نظام وجود میں آنا چاہیے جو عمران خان صاحب کی غیر موجودگی میں فیصلے کا مجاز ہو۔
ریاست کو بھی سوچنا ہے کہ جب ملک اس طرح کے خطرات میں گھر جائے تو پھر اسے عوام کو جمع کرنے کے لیے پہل کرنا پڑتی ہے۔ یہ کام سیاسی حکومت کرتی ہے۔ وزرا اور حکومت میں شریک سیاسی جماعتیں جو ریاست کا سیاسی بازو ہیں‘ انہیں اپنے لب و لہجے میں نرمی پیدا کرنی چاہیے اور ناراض سیاسی لوگوں کو قریب لانا چاہیے۔ ان کے سامنے نواز شریف صاحب کی مثال موجود ہے جو عمران خان صاحب کو بھی اے پی سی میں شرکت کے لیے وزیراعظم ہاؤس لے آئے تھے۔ آج ہمیں اسی سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے۔ قوم کو جمع کرنے کی اولین ذمہ داری ریاست اور حکومت کی ہے۔ سیاست کے لیے بہت وقت پڑا ہے۔ ریاست کو بچانے کے لیے البتہ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں۔ ہمیں فوراً اس خطرے کا تدارک کرنا ہے جو امن کے درپے ہے۔