امریکی ایوانِ صدارت میں صدر ٹرمپ کے قدم رکھنے سے‘ عالمی سیاست ایک دلچسپ عہد میں داخل ہو گئی ہے۔
ہم نے بچپن میں ایسی کہانیاں پڑھ رکھی ہیں جو بتاتی ہیں کہ رموزِ حکمرانی سے بے خبرکوئی شخص جب اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جائے تو پھر ریاست پر کیا گزرتی ہے۔ مجھے خیال ہوتا ہے کہ یہ روایتی کہانی آج کی دنیا کا واقعہ بننے والی ہے‘ اگر امریکی سیاسی نظام نے ٹرمپ کو مزید چار برس ایوانِ صدارت میں گزارنے کی مہلت دی۔ ان کہانیوں میں ایک اور اہم کردار ہوتا ہے جسے 'وزیر‘ کہتے ہیں۔ وہ اپنی بصیرت سے ریاست کو مکمل تباہی سے بچا لیتا ہے۔ کیا امریکہ کا سیاسی نظام 'وزیر‘ کا کردار ادا کر پائے گا؟ یہ سوال اس سچی کہانی کی دلچسپی میں اضافہ کر دیتا ہے۔ چند متوقع مناظر کے ذکر سے بات مزید واضح ہو جائے گی۔
صدر ٹرمپ کی نگاہ میں غزہ کا نیا نقشہ کیسا ہے؟ ان کے سوشل میڈیا فورم پر مستقبل کے غزہ کی منظر نگاری‘ مصنوعی ذہانت کی مدد سے کی گئی ہے۔ اس کے مطابق وہاں صدر ٹرمپ کا مجسمہ نصب ہے۔ ان کے دستِ راست ایلون مسک‘ ساحل پر مفرّحات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم اور وہ‘ بیٹھے دھوپ سینک رہے ہیں۔ گویا صدر ٹرمپ نے بتا دیا کہ ان کی نظر میں مستقبل کا غزہ‘ ان کا ایک تعمیراتی منصوبہ ہے جس پر اقتدار اسرائیل کا ہو گا۔ تادمِ تحریر دنیا میں کسی نے اس منصوبے کو قبول نہیں کیا۔ کیا وہ دنیا کو اپنی تائید میں کھڑا کر پائیں گے؟
عرب ممالک نے غزہ کی تعمیرِ نو کا ایک متبادل منصوبہ پیش کر دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا بنیادی خاکہ‘ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے بعد امریکہ کے سب سے بڑے اتحادی مصر کی طرف سے سامنے آیا ہے۔ اسے اب او آئی سی کی حمایت بھی حاصل ہو گئی ہے۔ صدر ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبے کے برخلاف‘ یہاں کے بیس لاکھ مکین کہیں نہیں جائیں گے۔ پہلے مرحلے میں ان کے لیے عارضی قیام گاہیں تعمیر ہوں گی۔ دوسرے مرحلے میں چار لاکھ گھر بنیں گے۔ ہسپتال‘ سکول اور دوسری اجتماعی ضرویات کو بھی اس منصوبے میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کا عبوری سیاسی نظم بھی فلسطینیوں کے ہاتھ میں ہوگا جو فلسطینی اتھارٹی کے تحت کام کرے گا۔ اس منصوبے کو یورپ اور چین کی تائید حاصل ہے اور یہ اس منصوبے کا سب سے اہم پہلو ہے۔
ماضی میں امریکہ اور یورپ‘ بالخصوص برطانیہ گہرے اتحادی رہے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جو دنیا نمودار ہوئی‘ وہ ان کی باہمی مشاورت کا نتیجہ تھی۔ اسرائیل کی ریاست کا خاکہ برطانیہ نے پیش کیا اور اس میں رنگ امریکی وسائل نے بھرا۔ مستقبل میں اسرائیل کی قوت کا بڑا انحصار اس اتحاد پر ہے۔ اسرائیل کی خواہش ہو گی کہ یہ اتحاد برقرار رہے۔ صدر ٹرمپ کا اسلوبِ سیاست مگر اس میں مانع ہو گا۔ اس میں شبہ نہیں کہ اسرائیل کے باب میں دونوں میں اس وقت بھی مکمل اتفاقِ رائے ہے۔ خواہش دونوں کی یہی ہے کہ فلسطینی اتنے غیر اہم ہو جائیں کہ ان کے وجود وعدم میں فرق باقی نہ رہے۔
ماضی میں دونوں نے اس منصوبے کو سیاست کے مروجہ اصولوں کے مطابق صبر اور انتظار کے ساتھ آگے بڑھایا ہے اور پی ایل او اورحماس جیسی تنظیموں کی غلطیوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ یہ پالیسی جاری رہتی‘ اگر صدر ٹرمپ درمیان میں نہ ٹپک پڑتے۔ وہ اس خطے میں موجود امکانات کو امریکہ کے بجائے ذاتی مالی مفادکے پہلو سے دیکھ رہے ہیں۔ فرد اور قوم کا عرصۂ حیات ایک نہیں ہوتا۔ صدر ٹرمپ عمر کے جس مرحلے میں ہیں‘ اس میں چار برس بہت اہم ہیں۔ انہیں اس دورانیے میں نتائج حاصل کرنے ہیں۔ یہ وہ خواہش ہے جس کے راستے میں یورپ اور داخلی سطح پر ریاستی ڈھانچہ ان کی مزاحمت کرے گا۔ یوکرین کے حوالے سے یورپ پہلے ہی ان کے بارے میں شبہات کا شکار ہے۔
میرا تاثر ہے کہ اگر صدر ٹرمپ اپنے منصوبے پر اصرار کرتے ہیں تو اس سے اسرائیلی مفادات کو غیر معمولی طور پر نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یورپ اور امریکی انتظامیہ اس پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ عربوں کو بھی موقع ملے گا کہ وہ نئے سیاسی اتحادوں کی طرف بڑھیں‘ اگر امریکہ ان کو ساتھ لے کر چلنے پر آمادہ نہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ کوئی عرب ملک ان کی تائید نہیں کر رہا۔ اس سے بعید نہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست ایک نئے دور میں داخل ہو جائے۔ اس کے اثرات عرب سماج پر پڑیں گے اور جغرافیے پر بھی۔
ایک دوسرا متوقع منظر دیکھیے: صدر پوتن اور روس کے لیے صدر ٹرمپ کا نرم گوشہ بھی عالمی سیاست میں ایک نئے زاویۂ نظر کا اضافہ ہے۔ ان کے سامنے چین ہے۔ وہ اصلاً ایک تاجر ہیں اور سیاست کو بھی تجارت کی طرح کا ایک عمل سمجھتے ہیں۔ چین کی قیادت کہیں زیادہ بالغ النظر ہے۔ وہ سیاست کو ایک ہمہ جہتی عمل قرار دیتے ہوئے منصوبہ بندی کرتی ہے۔ صدر ٹرمپ جیسا یک رخا امریکی صدر اس باب میں ان کی ہمسری نہیں کر سکتا۔ اس سے یقینا چین کو فائدہ ہو گا مگر معاملہ یہ ہے کہ امریکہ کی سیاسی وعسکری اسٹیبلشمنٹ تو یک رخی نہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ وہ اگر چین کے خلاف کوئی ہمہ جہتی پالیسی بنائے گی تو کیا صدر ٹرمپ اس کی مکمل تائید کریں گے؟ کیا وہ روس کے بارے میں ان کے خیالات سے اتفاق کرے گی؟ ان سوالوں کے جواب میں وہ امکانات چھپے ہوئے ہیں جو عالمی سیاست کی تشکیلِ نو کر سکتے ہیں۔
ان مناظر پر قیاس کرتے ہوئے‘ اگر جنوبی ایشیا کو دیکھا جائے تو اس کے خدوخال بھی بدل سکتے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے وہ ان توقعات پر ابھی تک پورا نہیں اترے جو ایک طبقے نے ان سے باندھ رکھی تھیں۔ کانگرس سے پہلے خطاب میں پاکستانی حکومت کے لیے تحسین کے کلمات‘ شاید حکومت کے لیے بھی غیر متوقع تھے‘ اگرچہ شریف اللہ کے معاملے میں دونوں ممالک کے مابین قریبی رابطہ پہلے سے تھا۔ اسی طرح افغانستان کے حوالے سے بھی اس وقت یہ پیشگوئی نہیں کی جا سکتی کہ وہ سابقہ پالیسی کو برقرار رکھیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ افغانستان کا موجودہ سیاسی نظم امریکہ کی معاشی تائید سے قائم ہے۔ صدر ٹرمپ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ امریکہ کویہ رقم صرف کر نے کا کیا فائدہ ہے؟
ان متوقع مناظر کے پیشِ نظر‘ مجھے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ صدر ٹرمپ کی دوبارہ آمد عالمی سیاست پر کچھ ایسے اثرات مرتب کرے گی جو اس کے خدوخال کو بدل سکتے ہیں۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ ان جیسا آدمی اتنے اہم منصب تک آئے اور اس کے بعد دنیا ویسے کی ویسی رہے۔ اس کی صرف ایک صورت ہے کہ وہ اس نظام کے سامنے سر جھکا دیں۔ کیا یہ ہو سکے گا؟ اس سوال کے حتمی جواب کے لیے ہمیں شاید چار برس انتظار نہ کرنا پڑے اور وقت اپنا فیصلہ اس سے پہلے ہی سنا دے۔
حتمی فیصلہ جو بھی ہو‘ صدر ٹرمپ جب تک ایوانِ اقتدار میں متمکن ہیں‘ دنیا متذبذب رہے گی کہ آنے والا کل کیسا ہے۔ اگر وہ آج کسی پر مہربان ہیں تو کیا لازم ہے کہ کل بھی اسی طرح پیکرِ مہر ووفا ہوں گے؟ ان کی تلون مزاجی دنیا کو بے یقینی سے دوچار کیے رکھے گی۔ بڑا مسئلہ پاکستان جیسے ممالک کے لیے ہے۔ آج اگر شریف اللہ دینے پر وہ خوش ہیں تو یہ اس بات کی ضمانت نہیں کہ وہ کل بھی ہم سے شرافت کا معاملہ کریں گے۔ ٹرمپ جیسے لوگ جب اقتدار میں آتے ہیں تو تاریخ کے دو ادوار میں حدِ فیصل کھینچ دیتے ہیں۔