"KNC" (space) message & send to 7575

الہامی ادب اور فلسفہ

انسانی ذہن نے جب کسی وجود کے اثبات کے لیے حسی علم کو معیار مانا تو ہر وہ خیال اور وجود گمانِ محض سمجھا گیا جو حواس کی گرفت میں نہ آ سکا۔ اس کے نتیجے میں مابعد الطبیعیات کالعدم قرار پائے۔ اس کا سب سے بڑا مظہر مذہب ہے۔ یوں سب سے پہلے اس کو مسترد کر دیا گیا۔ اس باب میں اہلِ کلیسا کا کردار اپنی جگہ‘ مگر مذہب کے انکار کا سبب یہی عقل پرستی تھی۔ عقل بھی وہ جس کے ذرائع علم حواس تک محدود تھے۔
اب مذہب کے بارے میں یہ تصور عام ہوا کہ یہ علم بالحواس کے مقابلے میں ایمان بالغیب کا نمائندہ ہے اور غیب سے مراد وہ امور ہیں جن کا طبیعی دنیا سے کوئی تعلق ہے نہ حواس کی مدد سے ان کا ادراک ہی ممکن ہے۔ اس نظامِ فکر کا ایک زاویہ 'تشکیک‘ کا بھی تھا جس نے مذہبی مقدمات کا مطلق انکار تو نہیں کیا لیکن انہیں مشتبہ ضرور بنا دیا۔ اس کا حاصل یہ ہوا کہ مذہب توہمات کا مجموعہ قرار پایا۔ اس سے مذہبی ادب کے بارے میں بے اعتنائی پیدا ہوئی اور عقل پرستوں نے اسے کبھی اُس ذوق و شوق کے ساتھ نہیں پڑھا جس کے ساتھ ارسطو اور کانٹ و ہیگل جیسے فلسفیوں کو پڑھا۔ رہا مذہبی کتب کا ادبی پہلو تو شیکسپیئر و ٹالسٹائی اور غالب و منٹو کے نظم و نثر کو ادب کی معراج سمجھنے والوں نے الہامی کتب کو اس قابل بھی نہیں جانا کہ ادبی زاویے سے ہی ان کا مطالعہ کریں۔ ادب میں تنقید کے نام پر قلم اٹھانے والے منٹو کے افسانوں میں ڈوب کر علم و حکمت اور فکر و فلسفے کے ایسے ایسے موتی تلاش کر لائے جو کبھی خود افسانہ نگار کے وہم و گمان میں بھی نہ تھے۔ مذہب کے بارے میں قائم شدہ تصورات مانع رہے کہ وہ کبھی زبور و انجیل اور قرآن مجید کے اسالیب پر توجہ دے سکتے۔ اگر کسی نے ان کتب کو پڑھا بھی تو مذہب کے رد میں‘ بزعمِ خویش‘ دلیل تلاش کرنے کے لیے جو ضروری نہیں کہ متن میں پائی جائے۔
میں جب قرآن مجید یا قدیم الہامی کتب کو پڑھتا ہوں تو مجھے اس طبقے کی محرومی پر افسوس ہوتا ہے۔ ان سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے کہ ان کے خیالات کیسے ان اخلاقی اور ادبی محاسن کے ادراک میں حجاب بن گئے جو انہیں فکر ہی نہیں‘ ادب کے بھی اعلیٰ تر مظاہر سے متعارف کرا سکتے تھے۔ انہیں یہ معلوم ہوتا کہ ایک پیغمبر کی دنیا‘ اخلاقی اور فکری اعتبار سے ایک فلسفی و شاعر کی دنیا سے کتنی مختلف بلکہ ارفع ہے۔ جس دل پر خدا کا کلام نازل ہوتا ہے‘ اس کی شفافیت کا عالم کیا ہے۔ جو دوسروں کے اخلاق کو پاکیزہ بنانے کے لیے بھیجا جاتا ہے‘ اس کا اپنا اخلاق کیسا ہے۔
چند دن پہلے سورۂ بقرہ کے مطالعے کی توفیق ہوئی تو ایک بار پھر اس خیال نے نہاں خانۂ دل میں انگڑائی لی۔ سورۂ بقرہ اور سورۂ آلِ عمران انسانی تاریخ میں آنے والی ایک فیصلہ کن تبدیلی کا بیان ہیں۔ ان میں بتایا گیا کہ پروردگارِ عالم نے انسانیت کی امامت اگر نسلِ ابراہیم کی ایک شاخ‘ بنی اسرائیل سے دوسری شاخ بنی اسماعیل کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے اسباب کیا تھے۔ بنی اسرائیل کے طرزِ عمل میں کن خرابیوں نے جنم لیا جو اس اعلیٰ مقام سے ان کی معزولی کا سبب بنے۔ ان سورتوں کا مخاطب دونوں ہیں۔ بنی اسرائیل اپنی تاریخ سے چونکہ اچھی طرح واقف تھے‘ اس لیے قرآن مجید نے ان تاریخی واقعات کو ایسے اسلوب میں بیان کیا کہ یہود و نصاریٰ کے لیے انکار ممکن نہ ہو سکا۔ قرآن جب کہتا ہے کہ 'یاد کرو و قت...‘ اور پھر کسی جانے پہچانے واقعے کو بیان کرتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ خدا کسی قوم پر جب اتمامِ حجت کرتا ہے تو قیل و قال کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
یہود سے اللہ تعالیٰ کا مطالبہ کیا تھا؟ سورہ بقرہ میں خود اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیا: ''اور یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے اور والدین کے ساتھ اور قرابت مندوں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسنِ سلوک کروگے۔ اور عہد لیا کہ لوگوں سے اچھی بات کہواور نماز کا اہتمام کرو اور زکوٰۃ ادا کرو‘‘۔ (83)۔
یہ مذہب کا بنیادی مقدمہ ہے۔ باقی سب تفصیلات ہیں۔ جو اس درجے کا شفاف اور اعلیٰ اخلاق پر مبنی مقدمہ پیش کر رہے تھے وہ کس شان کے لوگ تھے‘ اسی سورہ میں اس سوال کا جواب بھی ملتا ہے جب سیدنا ابراہیمؑ اور ان کے بچوں کا ذکر ہے جو سب پیغمبر ہیں۔ یہ پیغمبر کی شخصیت کا بالواسطہ تعارف ہے۔ سورہ بقرہ میں سیدنا ابراہیمؑ اور سیدنا اسماعیلؑ کے بارے میں بتایا گیا کہ انہوں نے بیت الحرام کو آباد کیا۔ اس سے پہلے سیدنا ابراہیمؑ کی عالمگیر امامت کا اعلان ہوا اور اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ کیسے انہوں نے خود کو اس کا مستحق ثابت کیا۔ پھر انہیں حکم دیا کہ وہ اس عباد ت گاہ کو طواف‘ اعتکاف اور رکوع سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھیں۔ اس موقع پر باپ بیٹے نے پہلی دعا شہرِ مکہ اور اس کے مکینوں کے لیے کی: ''اے پروردگار‘ اس شہر کو امن کا شہر بنا دے اور اس کے لوگوں میں سے جو اللہ اور قیامت کو ماننے والے ہوں‘ انہیں پیداوارکی روزی عطا فرما‘‘۔ دوسری دعا اپنے لیے‘ اپنے بچوں کے لیے اور آنے والی انسانیت کے لیے کی: '' پروردگار‘ اور ہم دونوں کو تو اپنا فرماں بردار بنا اور ہماری اولاد سے بھی اپنی ایک فرماں بردار امت اٹھا اور ہم کو ہماری عبادت کے طریقے بتا اور ہم پر عنایت کی نظرفرما۔ اس میں شبہ نہیں کہ تو ہی بڑا عنایت کرنے والا (اور اپنے بندوں پر) رحم فرمانے والا ہے۔ پروردگار‘ اور اُنہی میں سے تو ان کے اندر ایک رسول اٹھا جو تیری آیتیں اُنہیں سنائے اور اُنہیں قانون اور حکمت سکھائے اور اس طرح اُنہیں پاکیزہ بنائے۔ اس میں شبہ نہیں کہ تُو ہی بڑا زبردست ہے‘ بڑی حکمت والاہے‘‘(128 تا 129)۔
یہ پیغمبر کا وژن اور اس کی اخلاقی شان ہے۔ ایک طرف وہ چاہتا ہے کہ وہ اور اس کے بچے خدا کی بندگی میں زندگی گزاریں۔ دوسری طرف وہ انسانوں کے بارے میں اس فکر میں مبتلا ہے کہ ان کی دنیا اور آخرت سنور جائے۔ پیغمبر ایک طرف انسانی بستیوں کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف عالمِ انسایت کو زندگی کے وسیع تر مفہوم میں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے پیشِ نظر ساٹھ ستر برس کی زندگی کی بھلائی نہیں‘ ایک نہ ختم ہونے والی فلاح ہے۔ یہ دیکھیے کہ پیغمبر جب خدا سے ہم کلام ہوتے ہیں تو فروتنی کا عالم کیا ہے۔ خدا نے انہیں جو دعائیں سکھائیں‘ ان میں جذبات کیسے لفظوں میں ڈھلتے ہیں۔ اگرکوئی زبور‘ بائبل اور قرآن مجید کو اہتمام سے پڑھے تو اس کو اندازہ ہو گا کہ الہامی کتب حکمت ہی نہیں‘ ادب کا بھی بے مثل شاہکار ہیں۔ دیگر کتب تو ترجمہ ہیں جس میں الہامی کلام کی تاثیر پوری طرح باقی نہیں۔ اس کے باوجود وہ وجد طاری کر دیتی ہیں۔ قرآن مجید تو اسی زبان میں محفوظ ہے جس میں نازل ہوا۔ اس کے حسنِ بیان کا کہا کہنا۔ میں عربی زبان کے اسالیب کا گہرا علم نہیں رکھتا۔ اس کے ترجمے ہی سے استفادہ کرتا ہوں۔ اس کے باوصف کلام کی عظمت کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
واقعہ یہ ہے کہ الہامی ادب اور پیغمبروں کی دنیا انسانی ادب اور فلسفی و شاعر کی دنیا سے بہت مختلف ہے۔ انسانی ادب نے بھی جب الہامی کلام سے استفادہ کیا تو وہ بھی ممتاز ہو گیا۔ ملٹن اور رومی و اقبال کا کلام اس کا گواہ ہے۔ دل چاہتا ہے کہ عقل پرست مذہب کے باب میں اپنے فرسودہ خیالات کے خول سے نکلیں اور پیغمبروں کی بارگاہ میں کچھ وقت گزاریں اور اس دنیا کے ذوق آشنا بنیں۔ اس کارِ خیر کے آغاز کے لیے رمضان کے آخری عشرے سے بہتر وقت شاید کوئی اور نہ ہو۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں