"KNC" (space) message & send to 7575

کیا صدر ٹرمپ اپنی مدت پوری کریں گے؟

کیا صدر ٹرمپ ایوانِ صدر میں چار سال گزار پائیں گے؟
کسی امریکی صدر کے بارے میں اس سوال کا اٹھنا ہی ایک واقعہ ہے۔ یہ ایک سیاسی نظام کی کمزوری کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کے آسمان پر بے یقینی کے بادل منڈلا رہے ہوں۔ یہ سوال صدر ریگن کے بارے میں نہیں اٹھا جو پس منظر کے اعتبار سے ایک اداکار تھے اور اہم سرکاری اجلاسوں میں سوئے رہتے تھے۔ وہ ایک ایسے دور میں صدر تھے جب امریکہ تاریخ کی سب سے اہم جنگ لڑ رہا تھا۔ نہ صرف یہ کہ امریکہ نے وہ جنگ جیتی بلکہ صدر ریگن نے اطمینان کے ساتھ اپنا دور مکمل کیا اور وہ کسی غیر معمولی تنقید کا ہدف بھی نہیں بنے۔ صدر ٹرمپ کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ ان کے اسلوبِ حکمرانی کے جو مظاہر محض دو ماہ میں سامنے آئے ہیں‘ انہوں نے صدر ٹرمپ کے سیاسی مستقبل کے سامنے سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔
ٹرمپ اسی سسٹم میں رہتے ہوئے دو بار صدر بنے ہیں‘ وہ جس کے لیے خطرہ سمجھے جا رہے ہیں۔ ان کی کامیابی نے سسٹم کے بارے میں بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ یہ وہ سسٹم ہے جس نے سرمایہ داری کی کوکھ سے جنم لیا اور جمہوریت جس کا سب سے بڑا سیاسی مظہر ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اسی جمہوریت نے انہیں ایوانِ صدارت تک پہنچایا۔ آج اسی جمہوریت کی ٹانگیں ان کے بوجھ سے کانپ رہی ہیں۔ اس کے نتائج و عواقب‘ جو نوشتۂ دیوار ہیں‘ جمہوریت ان کی ذمہ داری اٹھانے سے گریزاں دکھائی دیتی ہے۔ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ انقلاب کی طرح جمہوریت بھی اپنے بچے کھا جائے گی؟
صدر ٹرمپ نے مسئلہ فلسطین سے لے کر یوکرین کی جنگ تک مسائل کو جس اسلوب میں حل کرنا چاہا‘ یہ عالمی سیاست کے لیے اجنبی ہے۔ وہ اس پچاسی سالہ مسئلہ کو شتابی کے ساتھ دنوں میں حل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ دھمکی کو سیاسی حکمتِ عملی کے طور پر اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ دھمکی انہوں نے حماس کی قیادت کو دی اور یوکرین کے صدر کو بھی۔ اگر یہ مسائل ایسے تھے کہ ایک دھمکی سے حل ہو جاتے تو نوبت یہاں تک پہنچتی کیوں؟ پھر یہ کہ اگر وہ ان مسائل کو انصاف کی بنیاد پر حل کرنے کے خواہاں ہوتے توکم ازکم اسے اخلاقی تائید تو حاصل ہوتی۔ مسئلہ فلسطین کا ایک آسان اور سادہ حل یہ ہے کہ یہ سرزمین چونکہ فلسطینیوں کی ہے‘ لہٰذا ان کے حوالے کر دی جائے۔ یہ حل کتنا ہی ناقابلِ عمل کیوں نہ ہو‘ اخلاقی جواز تو رکھتا ہے۔ صدر ٹرمپ جو حل تجویز کر رہے ہیں وہ اخلاقی اور عقلی‘ کسی طرح کا جواز نہیں رکھتا۔
پھر داخلی طور پر بھی وہ امریکی سماج اور معیشت کے مسائل اسی طرز پر حل کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار یہ دیکھا ہے کہ امریکہ کے مکین اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں۔ اس سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ ان کی ایک نوکری ختم ہوتی تو انہیں یقین ہوتا تھا کہ وہ دو دن بھی بے روز گار نہیں رہیں گے۔ ان کا یہ یقین اب متزلزل ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ پہلو بھی اہم ہے کہ امریکی سرزمین صدر ٹرمپ سے اختلاف رکھنے والوں کے لیے تنگ ہوتی جائے گی۔ پاپولسٹ اپنے مزاج میں جمہوری نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ صدر ٹرمپ اور بے یقینی کے یہ منڈلاتے سائے امریکی نظام کے لیے کب تک اور کس حد تک قابلِ قبول ہوں گے؟ کیا یہ نظام کسی ردِ عمل کا اظہار کرے گا؟ اگر نہیں کرے گا تو کیا یہ صدر ٹرمپ کو مزید چار سال یہ موقع دے گا کہ وہ اس کی جڑیں ہلا دیں؟
انسان کی بنائی ہوئے ہر شے نامکمل ہے۔ اس کے نقائص وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آتے رہتے ہیں۔ ایک عمارت‘ جسے دنیا کے بہترین معمار ہی نے کیوں نہ تعمیر کیا ہو‘ ناقص ہوتی ہے۔ یہی معاملہ نظام کا بھی ہے۔ جمہوریت کی کمزوریاں بھی اسی طرح سامنے آتی رہی ہیں۔ ان میں سے ایک پاپولزم کا اُبھرنا بھی ہے۔ یہ عجیب معاملہ ہے کہ پاپولزم جمہورت کی پیداوار ہے لیکن اس کے بنیادی تصورات ہی سے متصادم ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ پاپولسٹ اپنی سرشت میں بدترین آمر ہوتا ہے۔ نرگسیت کا مریض جو اپنی ذات کے حصار میں رہتا ہے۔ کیا جمہوریت اس نقص کو دور کر پائے گی؟
سرمایہ داری کی بقا کا ایک راز یہ ہے کہ اس نے جامد ہونے کا ثبوت نہیں دیا۔ اس نے نئے خیالات اور نئے حالات کا ادراک کرتے ہوئے انہیں اپنے نظام کا حصہ بنایا ہے۔ جمہوریت نے سرمایہ داری کی اولاد ہونے کی وجہ سے اسی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس نے اپنی کمزوریوں کا حل عمرانی معاہدے میں تلاش کیا۔ جیسے اکثریت کو فیصلہ سازی کا حق دینے کے باوجود اپوزیشن کے وجود کو تسلیم کیا گیا ہے اور اس کے پھلنے پھولنے کے اسباب باقی رکھے گئے ہیں۔ اس سے جمہوریت اقلیت کے لیے بھی ایک نعمت ثابت ہوئی۔ اس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ پاپولزم کا سدِ باب بھی کر پائے گی۔ کیا یہ صدر ٹرمپ کے معاملے میں بھی ہو پائے گا؟
دو صورتیں ہی ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ صدر ٹرمپ کے اقدامات نمائشی ثابت ہوں اور نظام انہیں بانجھ بنا دے۔ اس کی قوت کا ظہور ہو اور وہ انہیں مجبور کر دے کہ وہ اس کی متعین حدود کو قبول کرتے ہوئے ایوانِ صدارت میں چار برس گزاریں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اگر وہ اس پر آمادہ نہ ہوں تو یہ نظام انہیں اُگل دے۔ یہ کیسے ہو گا‘ اس کا فیصلہ نظام ہی کر ے گا۔ میرا تاثر یہ ہے کہ یہ نظام صدر ٹرمپ کو ایک حد تک من مانی کا موقع دے گا۔ اگر انہوں نے اس حد کو پامال کرنا چاہا تو نظام کا ردِ عمل سامنے آئے گا۔
امریکی نظام اسرائیل کا بھرپور پشتی بان ہونے کے باوجود یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ عرب دنیا کو ناراض کرے۔ اسی طرح وہ یوکرین کے معاملے میں بھی یورپ کے ساتھ بگاڑ کو بڑھنے نہیں دے گا۔ وہ اپنی عالمی حیثیت سے دست بردار ہونے کے لیے بھی فوری طور پر آمادہ نہیں ہو گا۔ اس کی وجہ واضح ہے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو چین اس کی جگہ لے لے گا۔ طاقت کے اس کھیل میں کوئی بھی رضاکارانہ طور پر دست بردار نہیں ہوتا۔ امریکہ بھی نہیں ہو گا۔ اس لیے 'سب سے پہلے امریکہ‘ کا یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ امریکہ اپنی سرحدوں میں سمٹ جائے۔ اگر آج صدر ٹرمپ غزہ میں اپنی مرضی کا نظام چاہتے ہیں یا کہ یوکرین کے صدر کو گھر بلا کر ڈانٹ سکتے ہیں تو اپنی عالمی حیثیت کی وجہ سے۔ اگر امریکہ یوکرین کے کسی کام کا نہ ہو تو اس کا صدر یہ ڈانٹ کیوں برداشت کرے گا؟ صدر ٹرمپ اگر دنیا سے اپنی بات منوانا چاہیں گے تو انہیں امریکہ کے عالمی کردار کو باقی رکھنا ہو گا۔
یہ داخلی اور خارجی عوامل مل کر یہ فیصلہ کریں گے کہ صدر ٹرمپ ایوانِ صدر میں کتنا قیام کرتے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ آد می اپنی افتادِ طبع کا اسیر ہے۔ اس میں بھی مگر کوئی شک نہیں 'دوانہ بکارِ خویش ہوشیار است‘۔ صدر ٹرمپ کو اگر اقتدار کے ایوانوں سے نکلنے اور نظام سے مفاہمت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو ان کا انتخاب دوسرا ہو گا۔ یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ اگر رائے عامہ ٹرمپ جیسے آدمی کو انتخاب کرتی ہے تو کیا اجتماعی مفاد کے لیے اسے قابلِ بھروسہ قرار دیا جا سکتا ہے؟ اس پر ان شاء اللہ کبھی بات ہو گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں