بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے؟ یہ اضطراب حقیقی ہے یا مصنوعی؟ کسی سازش کا نتیجہ ہے یا انتظامی نااہلی کا حاصل؟
یہ کوئی منفرد تنازع نہیں ہے جس کا صرف ہم ہی کو سامنا ہے۔ زمین ایسے تنازعات سے بھری ہوئی ہے۔ تین طرح کے خطے ان کا شکار ہیں۔ ایک وہ جہاں قبائلی معاشرت جدید ریاست کے نظام سے ہم آہنگ نہ ہو سکی؛ جیسے افریقہ۔ دوسرا وہ جہاں ریاست اورعوام کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہو گئے؛ جیسے بشار الاسد کا شام۔ تیسرا وہ جہاں جدید دنیا کے معماروں نے‘ اس دنیا کا نقشہ بناتے وقت‘ اپنے مفادات کے تحت تنازعات کو دانستہ باقی رکھا یا اپنے مفادات کے لیے مداخلت کی؛ جیسے مشرقِ وسطیٰ۔ آج زمین پر جہاں بھی فساد برپا ہے‘ ان تین میں سے کم ازکم کوئی ایک سبب اس کی بنیاد ہے۔
بلوچستان کے فساد میں یہ تینوں عوامل کارفرما ہیں۔ بلوچستان پاکستان کا وہ خطہ ہے جہاں قبائلی روایت سب سے زیادہ مضبوط ہے۔ دوسرے صوبوں کے شہری اور دیہی علاقوں میں بھی تفاوت ہے مگر وہ ثقافتی ہے۔ بلوچستان میں اس کی نوعیت مختلف ہے۔ قبائلی سردار آج بھی طاقتور ہے۔ آج بھی اس کا خیال ہے کہ وہ برہمن ہے اوردوسرے شودر۔ وہ آج بھی وسائل پر قابض ہے اوران میں صوبے کے عوام کو شریک نہیں کرنا چاہتا۔ اس کا مزاج آج بھی وہی ہے جو صدیوں پہلے تھا۔ چند دن پہلے کراچی میں ایک بلوچ سردار کے محافظوں کی گاڑی ایک شہری کی گاڑی سے جا ٹکرائی۔ شہری نے احتجاج کیا تو سردار نے اسے وہیں سزا دے ڈلی۔ قانون اس پر قادر نہیں تھا کہ اس کو گرفت میں لے۔
یہ سردار اور اُس کے علاقے میں بسنے والے عام بلوچ‘ آج بھی سمجھتے ہیں کہ ان کے مابین آقا اور غلام کا تعلق ہے۔ ریاست ان کی اس حیثیت کو چیلنج نہیں کرتی اور اپنے اختیارات سے رضا کارانہ طور پر دستبردار ہو جاتی ہے۔ اکبر بگتی صاحب کے عہد میں‘ ان کے علاقے میں‘ ان کی اجازت کے بغیر سکول نہیں بن سکتا تھا۔ سکولوں کے اساتذہ کی تنخواہیں ان کے حوالے کی جاتی تھیں۔ بغیر سکول کے‘ وہ کن اساتذہ میں اسے تقسیم کرتے تھے‘ یہ خدا جانتا ہے یا ریاست۔ دوسرے سرداروں کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ان کے گھر ہر بڑے شہر میں ہیں اور لندن میں بھی۔ چند برس پہلے قبائلی روایت کے تحت وہاں لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا گیا اور ثنا اللہ زہری جیسے سرداروں نے پارلیمان میں اس کا دفاع کیا۔
جو سردار ریاست کے وجود کو چیلنج نہیں کرتے‘ ریاست ایک خاص خطے میں انہیں من مانی کی اجازت دیتی ہے۔ وہ لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیں تو بھی قانون حرکت میں نہیں آتا۔ انہیں صوبے اور مرکز میں مناصب بھی دیے جاتے ہیں۔ بعض سرداروں کو ریاست سے گلہ ہے۔ وہ ریاست کے وجود کو چیلنج کرتے ہیں۔ دنیا کی کوئی ریاست اس کو گوارا نہیں کرتی۔ یوں ریاست اور ان کے مابین تصادم کی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ ایک ریاست کی بصیرت اور دانش کا امتحان ہوتا ہے۔ ہماری ریاست اس امتحان میں ہمیشہ ناکام رہی۔ وہ ان کی طاقت کے خاتمے کے لیے صوبے سے مصنوعی قیادت پیدا کرتی ہے جو عصبیت سے محروم ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ ریاست کو زعم ہے کہ اس کے پاس طاقت ہے جو ہر مسئلے کا حل ہے۔ مصنوعی قیادت کی ایجاد اور طاقت کے استعمال سے پیدا ہونے والا یہ امتزاج کبھی کامیاب نہیں ہوا۔ ریاست کا اصرار ہے کہ وہ اس کو جاری رکھے گی۔ یوں صورتِ حال خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔
بلوچستان کا جغرافیہ بھی ایسا ہے کہ بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں کے مفادات اس سے وابستہ ہیں۔ چین سی پیک اور گوادر کی بندرگاہ کے باعث ایک بڑے معاشی انقلاب سے گزرے گا۔ خطے میں اس کا اثر ورسوخ کئی گنا بڑھ جائے گا۔ یہ امریکہ کو گوارا نہیں۔ گوادر بحیرہ عرب کے کئی بندرگاہوں پر ہونے والی کاروباری سرگرمیوں میں بڑا حصہ دار ہو گا۔ یہ بات ہمارے ہمسائیوں اور علاقائی قوتوں کو پسند نہیں۔ بلوچستان کو خدا نے جن معدنی وقدرتی وسائل سے نوازا ہے‘ اس پر بھی دوسری طاقتوں کی نظر ہے۔ ریاست سے ناراض طبقات کے ذریعے‘ یہ قوتیں چاہتی ہیں کہ یہاں مسلسل شورش برپا رہے۔ ریاست کی نااہلی یہ رہی کہ وہ عوام کی آسودگی کے لیے کوئی بڑا منصوبہ نہیں بنا سکی جس سے ریاست کے ساتھ عوام کا تعلق گہرا ہوتا۔ ریاست نے عوام کو سرداروں اور نااہل و بدعنوان اہلکاروں کے حوالے کر دیا۔ اس نے جس سماجی اضطراب کو جنم دیا‘ وہ آج مقامی اور عالمی قوتوں کے مفادات کا ایندھن بن گیا ہے۔
اس نااہلی کا ایک مظاہرہ ہم نے چند دن پہلے دیکھا۔ جو لوگ ریل گاڑی کے اغوا میں ملوث تھے‘ بہتر ہوتا کہ عوام کو ان کے بارے میں بتایا جا تا۔ ان کی شناخت کرائی جاتی اور ریاست اس بنیاد پر دہشت گردوں کے خلاف اپنا مقدمہ مضبوط کرتی۔ ایسا نہیں ہوا۔ اس سے ریاست کو ہدف بنانے والوں کو ایک ہتھیار مل گیا‘ جسے وہ ریاست کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر جاری مہم کا بھی کوئی مؤثر جواب نہیں دیا جا سکا۔ ماہ رنگ بلوچ کو ہیرو سمجھنے والے ملک بھر میں ہیں۔ ریاست یہ مقدمہ مؤثر طور پر پیش نہیں کر پائی کہ ان کی حقیقت کیا ہے؟ وہ پاکستان کے خلاف تو بولتی ہیں‘ سرداروں کے خلاف کیوں آواز نہیں اٹھاتیں؟ آج دہشت گردوں کا سیاسی بازو پوری طرح متحرک ہے مگر ریاست کا کوئی سیاسی بیانیہ موجود نہیں۔ دہشت گردوں کی لاشوں کے وارث ہیں مگر پنجابی مقتولوں کا وارث کوئی نہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ دہشت گردی کا علاج طاقت ہی ہے مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس دہشت گردی کی بنیاد ایک بیانیے پر ہے جس کا مؤثر ابلاغ جاری ہے۔ ریاست نے مذہبی دہشت گردی کے خلاف جو حکمتِ عملی اپنائی‘ اس کے مؤثر اور نتیجہ خیز ہونے کے بارے میں دو آرا ہو سکتی ہیں مگر واقعہ یہ ہے کہ ریاست نے 'پیغامِ پاکستان‘ کے عنوان سے مذہبی دہشت گردی کے بیانیے کا جواب دیا اور ردالفساد جیسے آپریشنز سے طاقت کا استعمال بھی کیا۔ بلوچستان کے معاملے میں ایسا دکھائی نہیں دیتا۔
یہ سیاسی حکومت کا کام ہے کہ وہ سیاسی محاذ پر سرگرم ہو۔ اہلِ صحافت اور اہلِ دانش کو اعتماد میں لے۔ اہلِ سیاست کو شریکِ مشاورت کرے۔ اس تفاوت کو دور کرے جو قبائلی معاشرت اور جدید ریاست کے تصورات میں آج بھی موجود ہے۔ جب تک طاقت کا مرکز ایک نہیں ہو گا جس کو عوامی تائید حاصل ہو‘ وہ انتشارِ فکر باقی رہے گا جو ایسے تنازعات کو جنم دیتا ہے۔ سب سے اہم قومی سطح پر وحدت کا حصول ہے جو ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ایران بیشمارخارجی چیلنجوں کا شکار ہونے کے باوجود‘ داخلی سطح پر متحد ہے۔ اس وجہ سے بڑی طاقتیں اس کی جغرافیائی وحدت کے لیے چیلنج پیدا نہیں کر سکیں۔ ہمارا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ تصادم بلوچستان کی سرزمین پر ہے مگر انتشار پورے ملک میں پھیل رہا ہے۔ کل ہی بلوچستان سے چار لاشیں پنجاب آئی ہیں۔ اب پنجاب کی یونیورسٹیوں میں بلوچ طالب علم پڑھتے ہیں۔ پتھر اور قالینوں کا کاروبار بلوچوں کے پاس ہے جس کی بڑی مارکیٹ پنجاب اور اسلام آباد میں ہے۔ پنجاب کا دل بہت بڑا ہے۔ یہاں دوسری قومیتوں کے لوگوں کو بھائی سمجھا جاتا ہے۔ لاش مگر ایسی شے ہے کہ بہت سرعت کے ساتھ فضا بدل سکتی ہے۔
بلوچستان آج تنازعات کے تین بڑے اسباب کا شکار ہے۔ قبائلی معاشرت وجدید ریاست کا تصادم‘ ریاست وحکومت کی نااہلی اور عالمی طاقتوں کے مفادات۔ جواب میں سہ جہتی حکمتِ عملی ناگزیر ہے۔ یہ ریاست کی سیاسی وعسکری قیادت کا بڑا امتحان ہے۔