علما کی طرف سے جہاد کا فتویٰ جاری ہونے کے بعد یہ سوال بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ ریاست علما کے فتوے کی پابند ہے یا جہاد کا فیصلہ اس کی صوابدید ہے؟
مسلم علمی روایت میں علما اور 'اولو الامر‘ کے اختیارات پر بہت کچھ لکھا گیا۔ ہمارے فقہا اور علما نے اس باب میں امت کی راہنمائی کی ہے۔ یہ راہنمائی‘ ظاہر ہے کہ قرآن وسنت اور آثار‘ بالخصوص خلافتِ راشدہ کے فیصلوں کی روشنی میں دی گئی۔ اس کو سامنے رکھیں تو شعلہ بیان مقررین کے خطبات سے قطع نظر‘ صورتِ حال بالکل واضح ہے۔ میں نے قومی فلسطین کانفرنس کے اعلامیے پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ دورِ حاضر کے علما کو بھی معلوم ہے کہ ان کا دائرہ اور ریاست کا دائرہ کیا ہے۔ اس لیے انہوں نے کانفرنس کے اعلامیے میں قتال جیسے الفاظ کے استعمال سے‘ میری دانست میں‘ دانستہ گریز کیا ہے۔
علما کا کام انذار ہے۔ اس کا مطلب سماج کے مختلف طبقات اور افراد کو ان کی دینی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنا اور اور لوگوں کو آخرت کے حوالے سے خبردار کرنا ہے۔ اگر وہ اس سے بڑھ کر کوئی اقدام کریں گے تو یہ حدود سے تجاوز ہو گا۔ فتویٰ بھی دراصل ایک رائے ہے۔ کوئی فرد اور ریاست کسی فتوے کے پابند نہیں ہوتے۔ فتویٰ کا مطلب یہ ہے کہ کسی زیرِ بحث معاملے میں ایک عالم یا علما کی کسی مجلس نے اپنی رائے دے دی اور یہ ان کے فہمِ دین کا بیان ہے۔ اب یہ افراد اور اداروں کی صوابدید ہے کہ وہ اس کو قبول کرتے ہیں یا رد کرتے ہیں۔
لہٰذا فلسطین کے معاملے میں ہماری ریاست یا اولو الامر‘ علما کے کسی فتوے کے پابند نہیں۔ حکومت علما سے مشاورت کرے گی۔ یہ ممکن ہے کہ کسی معاملے میں ایک سے زیادہ آرا سامنے آئیں۔ اس صورت میں وہ ان میں سے کسی ایک رائے کو اختیار کر سکتی ہے یا تمام آرا کو مسترد کر سکتی ہے۔ پاکستانی آئین میں اس مشاورت کو ایک آئینی صورت دے دی گئی ہے جسے علما نے قبول کیا ہے۔ اس کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل ہی کی یہ حیثیت ہے کہ وہ اس باب میں ریاست کو مشورہ دے۔ تاہم قانون ساز ادارہ اس رائے کا بھی پابند نہیں ہے۔ پارلیمان دیگر علما سے بھی مشورہ کر سکتی اور کوئی فیصلہ دے سکتی ہے۔
یہ بات پوری اسلامی روایت سے ثابت ہے۔ سیدنا عمرؓ جیسا حکمران بھی‘ جو خود فقیہ تھے‘ اہلِ دانش سے مشورہ کرتے تھے۔ فیصلہ لیکن خود کرتے تھے اور اولو الامرکی حیثیت سے۔ آج کے دور میں 'اولو الامر‘ پارلیمان ہے۔ اگر علما کا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں مسلم حکمرانوں پر جہاد فرض ہو گیا ہے تو یہ محض ایک رائے ہے۔ جہاد کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ تو حکومت نے کرنا ہے۔ اسلام نے یہ حق اسی کو دیا ہے۔ اس کی حکمت سمجھنے کے لیے عقلِ عام کفایت کرتی ہے۔ جہاد اسباب کا کھیل ہے۔ موجود اسباب کی نوعیت کیا ہے‘ کیا ریاست جہاد کا بوجھ اُٹھا سکتی ہے‘ کیا افرادی اور مالی قوت جہاد کی متحمل ہو سکتی ہے‘ ان سب سوالات کے جواب صرف ریاست دے سکتی ہے۔ جہاد اندھیرے میں چھلانگ لگانا نہیں ہے۔ یہ اہداف کے حصول کے لیے ہوتا ہے۔ چونکہ ان سوالات کے جواب ریاست کے پاس ہیں‘ اس لیے صرف وہی یہ حق رکھتی ہے کہ جہاد کا اعلان کرے یا نہ کرے۔
اس مقدمے سے اتفاق رکھنے والے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ اقدامی جہاد کے بارے میں ہے۔ جب کوئی جنگ آپ پر مسلط ہو جائے تو پھر دفاعی جہاد کا معاملہ مختلف ہو جاتا ہے۔ یہ بات درست ہے لیکن اس سے بھی معاملہ ریاست ہی کے ہاتھ میں رہتا ہے۔ دفاعی جہاد کیسے ہو گا‘ صلح کے امکانات کو تلاش کیا جائے گا یا میدان میں اُترا جائے گا‘ دفاعی جہاد کے لیے بھی ان سوالوں کے جواب ضروری ہیں۔ یہ جواب بھی ریاست ہی کے پاس ہیں۔ لہٰذا جہاد اقدامی ہو یا دفاعی‘ فیصلہ ریاست ہی کو کرنا ہے۔ اس سے صرف یہ فرق واقع ہوتا ہے کہ ریاست کے پاس فیصلے کے لیے جواز کی حدود پھیل جاتی ہیں۔
ایک دوسرا پہلو جو اس حوالے سے اہم ہے وہ ریاستوں کی عصری تشکیل ہے۔ اس وقت متعدد مسلم ریاستیں ہیں۔ ان کا ایک سیاسی نظم نہیں۔ مسلم عوام اپنے اپنے خطے میں ایک ریاست کے نظم کا حصہ ہیں۔ اس وقت اگر ایک ریاست جہاد کا اعلان کرتی ہے تو دوسری ریاستیں اور ان کے شہری اس اعلان کے پابند نہیں۔ علما نے اپنے اعلامیے میں 'اقرب فالاقرب‘ کی قید لگا کر گویا اس ریاستی نظم کی تائید کی ہے۔ یہ شرط بتاتی ہے کہ پہلے مرحلے میں اس فتوے کی مخاطب وہ ریاستیں ہیں جو فلسطین کے قریب ہیں۔ اسی سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب ریاستوں کی اس تقسیم کو تسلیم کر لیا گیا ہے تو کیا سعودی عرب یا کسی دوسری مسلم ریاست کے حکمران یا عوام‘ پاکستانی علما کے فتوے کے پابند ہیں؟ اس سوال کا جواب بھی مشکل نہیں۔ جب علما کے اپنے ملک کی حکومت اور عوام ان کے فتوے کے پابند نہیں تو دوسرے کیسے ہو سکتے ہیں؟ تاہم اس سے غور وفکر کا ایک دوسرا پہلو سامنے آتا ہے۔
نئی جغرافیائی تقسیم میں کسی ایک خطے کے بارے میں کیا مسلمانوں کی کوئی اجتماعی ذمہ داری ہے جبکہ ان کا کوئی اجتماعی سیاسی نظم موجود نہیں؟ مثال کے طور پر فلسطین کے بارے میں اصلاً ذمہ داری کس مسلم ملک کی ہے؟ کیاکشمیر کے بارے میں بھی اس فتوے کا اطلاق ہو گا جو فلسطین کے بارے میں دیا گیا؟ فلسطین کا معاملہ مسلم دنیا میں مذہبی حوالے سے منفرد ہے۔ مسلم علما اسے اپنا قبلہ اوّل سمجھتے ہیں اور اس پر مسلمانوں کا حق فائق قرار دیتے ہیں۔ اس مسئلے کی یہ مذہبی جہت ہے جس کا اطلاق جزیرہ نمائے عرب پر بھی کیا جاتا ہے۔ کشمیر پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس لیے اسے پاکستان اور بھارت کا باہمی تنازع قرار دیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اس سے اتفاق نہیں رکھتے اور قرآنی آیات کا اس پر بھی اطلاق کر تے ہیں۔ تاہم میرے علم کی حد تک کشمیر پر علما نے جہاد کی فرضیت کا کوئی فتویٰ نہیں دیا۔ ایک رائے یہ ہے کہ خدائی فیصلے کے مطابق‘ جزیرہ نمائے عرب بنی اسماعیل اور اس سے پہلے فلسطین اور کنعان کا علاقہ بنی اسرائیل کے سپرد کیا گیا تھا تاکہ وہ اسے ہدایت اور توحید کا مرکز بنائیں۔ بنی اسرائیل نے‘ قرآن مجید کی تصریح ہے کہ اپنا عہد نہیں نبھایا اور اسے منصبِ امامت سے معزول کر دیا گیا۔ اس کے بعد بھی کیا بنی اسرائیل کی یہ ذمہ داری باقی ہے؟
کچھ لوگ اس حق کا تعین جدید سیاسی حقائق کی روشنی میں کرتے ہیں۔ جو قوم جس علاقے میں آباد ہے‘ وہ اسی کا حق ہے۔ فلسطین فطری طور پر فلسطینوں کا ہے۔ اس لیے کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ باہر سے اجنبی لوگوں کو یہاں آباد کرے اور اہلِ فلسطین کو ان کے گھروں سے نکالے۔ یہ مذہبی مقدمہ نہیں ہے۔ اسی لیے بہت سے غیر مسلم بھی اس مؤقف کو درست سمجھتے اور اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قرار دیتے ہیں۔ مسلمانوں کے سوادِ اعظم کا مقدمہ یہ ہے کہ مذہبی اور جدید سیاسی حقائق‘ دونوں کی روشنی میں یہ فلسطینی مسلمانوں کا ملک ہے۔ مذہبی حوالے سے اس لیے کہ یہود خدا کے دین سے پھر چکے‘ اس لیے قبلہ اوّل کی تولیت کے حقدار نہیں ہیں۔ جدید سیاسی حقائق تو ہیں ہی ان کے حق میں۔ اب اس معاملے کی نوعیت جو بھی ہو‘ معاملہ مذہبی یا سیاسی‘ اگر اس کے لیے جہاد کرنا ہے تو اس میں دوسری رائے نہیں کہ یہ فیصلہ مسلمانوں کی حکومتوں ہی کو کرنا ہے۔ علما یا دوسرے طبقات حکومت کو مشورہ ہی دے سکتے ہیں۔