رانی پور کی فاطمہ کا نوحہ توآپ نے پڑھا ہوگا۔ بہاول پور کی فضہ کا مرثیہ بھی سن لیں۔
رمضان کے آخری عشرے کی ایک طاق رات تھی جب مغرب کے بعد‘ ماں نے اسے قریب کی مسجد سے پانی لانے کے لیے بھیجا۔ ہماری دیہی بستیوں میں‘ جیسے بہاولپور کا یہ گاؤں ہے‘ گھر گھر کنویں اور نلکے نہیں ہوتے۔ محلے کی سطح پر ایک آدھ کنواں یا نلکا ہوتا ہے جہاں سے سب پانی لاتے ہیں۔ عام طور پر یہ مسجد سے متصل ہوتا ہے۔ ایسا ہی ایک نلکا تھا جہاں سے فضا پانی لینے گئی۔ تیسری جماعت کی طالبہ‘ یہ معصوم بچی جانتی تھی نہ اس کی ماں کہ اس نے کبھی زندہ واپس نہیں آنا۔
فضہ کافی دیر تک واپس نہ آئی تو ماں کو تشویش ہوئی۔ تلاش میں نکلی تو سورج مکھی کے کھیتوں سے اس کے رونے کی آواز آئی۔ ماں اس آواز کی طرف لپکی۔ اس نے فضہ کو اس حال میں دیکھا کہ اس کی گردن سے لہو بہہ رہا ہے۔ موٹر سائیکل پر اسے قریب کے سول ہسپتال تک پہنچانے کی کوشش کی گئی مگر زندگی نے راستے میں ساتھ چھوڑ دیا۔ ڈاکٹرز نے اس کے تنِ مردہ کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ موت سے پہلے اس کلی کو بہت نوچا گیا تھا۔ پولیس نے تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ معصوم فضہ موت سے پہلے چار درندوں کی چیر پھاڑ کا نشانہ بنی جن میں اس کے دو سگے ماموں بھی تھے۔
تفصیلات دل ہلا دینے والی ہیں۔ مجھے بیان کا یارا نہیں۔ آپ چاہیں تو بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر یہ واقعہ پڑھ سکتے ہیں۔ قصہ کوتاہ‘ پولیس مجرموں تک پہنچ گئی۔ اعترافی بیان‘ میڈیکل رپورٹس اور دیگر شواہد کی مدد سے پولیس کو یقین ہو گیا کہ یہی اصل مجرم ہیں۔ ایک ہفتے کے بعد خبر آئی کہ ملزمان پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ ایسے واقعات میں عام طور پر پولیس ایک فرضی کہانی سناتی ہے۔ ملزموں کے ساتھیوں نے انہیں رہا کرا نے کی کوشش کی جب انہیں عدالت؍ مال مقدمہ کی برآمدگی کیلئے لے جایا جا رہا تھا۔ اس دوران میں وہ اپنے ساتھیوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ یہاں بھی یہی ہوا۔ سوال یہ ہے کہ پولیس کا یہ اقدام کیا اخلاقی جواز رکھتا ہے۔ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں رانی پور کی فاطمہ کو ایک بار پھر یاد کرنا ہو گا۔
کم سن فاطمہ کو ایک پیر نے اپنی درندگی کا نشانہ بنایا۔ پہلے اس کے معصوم جسم سے جنسی ہوس پوری کی گئی اور پھر قتل کر دیا گیا۔ اس کی وڈیو وائرل ہو گئی۔ لوگوں نے احتجاج کیا تو مجرم کو پکڑا گیا۔ مقدمہ عدالت میں پیش ہوا۔ شواہد ناقابلِ تردید تھے۔ ایک دن خبر ملی کہ فاطمہ کی ماں نے پیر سے صلح کر لی۔ آثار یہی ہیں کہ پیر رہا ہو جائے گا اور معلوم نہیں‘ کتنی بیٹیاں مزید اس کی ہوس کی بھینٹ چڑھ جائیں گی۔ ہماری عدالتوں میں آئے دن طاقتور مجرم کمزور مدعی سے صلح کرتا ہے اور قتل جیسے جرائم معاف ہو جاتے ہیں۔ نور مقدم کے قاتل کو اس عدالتی نظام نے سزا سے بچا رکھا ہے کہ اپیل کا فیصلہ ابھی ہونا ہے۔ شاہ رخ جتوئی‘ اسی عدالتی نظام کی مدد سے جیل کی سلاخیں توڑ کر‘ کب کا اڑ چکا۔ یہ اتنے واقعات ہیں کہ انہیں شمار کرنا مشکل ہے۔ اب ہم لوٹتے ہیں اصل سوال کی طرف۔ بہاولپور کی پولیس نے کیا درست کیا؟
قانون اس کی تائید نہیں کرتا۔ اس کا کہنا ہے کہ ہر ملزم کو صفائی کا پورا موقع ملنا چاہیے۔ ایک بے گناہ کو سزا ملنا‘ اس سے زیادہ قابلِ مذمت ہے کہ بہت سے گناہ گار چھوٹ جائیں۔ قانون کا یہ مقدمہ اخلاقی تقاضوں پر پورا اترتا ہے اور اسے تسلیم کرنا چاہیے۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ جب عدالتی نظام بالعموم رانی پور کے پیر اور شاہ رخ جتوئی کے ساتھ کھڑا ہو‘ فاطمہ اور فضہ کو انصاف نہ ملے۔ مقدمات لٹکتے رہیں اور بالآخر مجرموں کو شک کا فائدہ دے کر بے گناہ قرار دے دیا جائے‘ تو پھر کیا کیا جائے؟ کراچی میں مصطفی کے قتل کا کوئی فیصلہ نہیں ہو رہا‘ درآں حالیکہ شواہد قاتل کی واضح نشاندہی کر چکے۔ اگر یہ عدالتی نظام اسی طرح باقی رہتا ہے تو عوام مضطرب رہیں گے اور کسی فاطمہ اور مصطفی کو انصاف نہیں ملے گا۔ اس لیے ناگزیر ہے کہ ایسے مقدمات میں فوری فیصلے کو یقینی بنایا جائے۔
قانون دان اس قضیے کو بہتر حل کر سکتے ہیں مگر ایک عامی کے طور پر میری تجویز یہ ہو گی کہ آبرو ریزی اور قتل کے مقدمات میں عدالتوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ایک طے شدہ وقت میں فیصلہ سنائیں۔ یہ وقت برسوں پر محیط نہ ہو۔ یہ دنوں میں ہو یا گنتی کے چند ماہ تک۔ دیہات وغیرہ میں عام طور پر سب کو معلوم ہوتا ہے کہ مجرم کون ہے۔ اگر پولیس اپنی تفتیش درست طریقے پر کرے تو مجرم تک پہنچنا مشکل نہیں ہوتا۔ فضہ کے مقدمے میں پولیس نے سادہ کپڑوں میں اپنے آدمی پھیلا دیے۔ پندرہ بندے مشکوک قرار پائے اور پھر ان میں سے چار مجرموں کو تلاش کر لیا گیا۔ میری تجویز یہ بھی ہوگی کہ عدالت وہیں لگے جہاں واقعہ پیش آیا ہو۔
جلد انصاف اگر چہ ہر مقدمے کا مطالبہ ہے مگر زیادتی اور قتل میں تو کسی طرح کی ڈھیل نہیں دی جا سکتی۔ اس سے سماج کا نظم باقی نہیں رہتا۔ چند ماہ پہلے بھی اسی نوعیت کا ایک واقعہ پیش آیا تھا جب ایک کم عمر بچی پڑوسی کی ہوس کا نشانہ بنی جس کے تنِ مردہ کو قتل کے بعد صحن میں دفن کر دیا گیا تھا۔ پولیس مجرم تک پہنچی اور پھر اسی طرح وہ بھی پولیس مقابلے میں مار دیا گیا۔ گاؤں کے لوگوں کو اس کے مجرم ہونے کا اتنا یقین تھا کہ انہوں نے گاؤں کے قبرستان میں اس کی قبر نہیں بننے دی۔ پولیس ہی نے بستی سے دور ایک جگہ اسے دفن کر دیا۔ گاؤں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ انصاف ہوا‘ یہ الگ بات کہ عدالتی اخلاقیات اس کی تائید نہیں کرتے۔
اس مخمصے کا حل یہی ہے کہ عدالتی نظام کی تطہیر ہو۔ ایسے مقدمات کا فوری فیصلہ ہو۔ ہمارے ہاں آئے دن آئین اور قوانین میں تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ کوئی تبدیلی فوری انصاف کے لیے بھی ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ موجودہ عدالتی نظام عوام کو انصاف کی فراہمی میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ ہمارے پاس مگر عدالتی نظام کا کوئی متبادل بھی نہیں۔ جو متبادل ہیں‘ ان کو اگر اختیارکر لیا جائے تو اس سے بڑے فتنوں کا دروازہ کھل جائے گا۔ ایک متبادل تو وہی ہے جو پولیس نے اپنایا۔ ایک 'سٹریٹ جسٹس‘ ہے جس کے مظاہر ہم فلموں میں دیکھتے ہیں۔ اگر ان کو اختیار کر لیا جائے تو پھر ملک میں کوئی نظام باقی نہیں رہے گا۔ اس کا مطلب انارکی اور افراتفری ہے۔
ایک عام آدمی کی حیثیت سے‘ میں نے جب بہاولپور کی فضہ کا واقعہ پڑھا تو مجھے لگا کہ پولیس نے صحیح کیا۔ یہ میرے جذبات تھے۔ میں نے جب اس کے مضمرات پر غور کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ قانون سے انحراف نئے مسائل کو جنم دیتا ہے۔ دل ودماغ کی اس کشمکش کا علاج یہی ہے کہ عدالتی نظام پر ہمارا اعتماد بحال ہو۔ یہ کام حکومت اور عدالت کا ہے کہ وہ نظامِ عدل کے بارے میں بے اعتمادی کو ختم کرے۔ حکومت فوری انصاف کے لیے قانون بنائے اور فیصلے کے لیے وقت کا تعین کرے۔ منصف اپنی نازک ذمہ داری کے بارے میں حساس ہوں کہ اگر انہوں نے یہاں مظلوم کی داد رسی نہ کی تو کل خدا کی عدالت میں انہیں جوابدہ ہونا پڑے گا جہاں کوئی ان کا سفارشی نہیں ہو گا۔