2018ء میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے امریکہ کی یکطرفہ علیحدگی کی نہ صرف ایران بلکہ بین الاقوامی برادری اور امریکہ کے اپنے اتحادیوں نے بھی مذمت کی تھی۔ ایران کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ اقدام اس لیے بھی زیادہ نقصان دہ تھا کہ 2015ء کے معاہدے کے تحت صدر اوباما کی حکومت نے ایران کے منجمد اثاثوں پر سے پابندی اٹھانے اور اقتصادی پابندیوں کو ختم کرنے کے جس سلسلے کا آغاز کیا تھا اسے نہ صرف روک دیا گیا بلکہ ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں عائد کر دی گئیں‘ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے اس یکطرفہ فیصلے سے ایران کو یہ فائدہ ہوا کہ اب وہ اپنی جوہری تنصیبات میں یورینیم کی افزودگی پر عائد پابندیوں سے آزاد ہو گیا تھا۔ اس کے باوجود ایران نے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ساتھ طے کردہ حدود کی خلاف ورزی سے اجتناب کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ 2020ء کے صدارتی انتخابات میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار جوبائیڈن کی کامیابی سے ایران کو امید تھی کہ امریکہ کی نئی انتظامیہ 2015ء کے معاہدے کو بحال کرتے ہوئے ایران پر سے پابندیوں کو اٹھانے کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دے گی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اس کا سبب اسرائیل کی طرف سے بائیڈن انتظامیہ پر سخت دباؤ تھا۔ صدر بائیڈن نے ایران کو جوہری تنازع پر بات چیت کی دعوت دی مگر 2015ء کے معاہدے کو بحال کرنے سے انکار کر دیا بلکہ ایران کے میزائل پروگرام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس پر پابندی کو ایران کے ساتھ بات چیت کا حصہ بنا دیا۔ ایران کی طرف سے میزائل پروگرام کو ختم کرنے سے انکار کے بعد ایران امریکہ تعلقات کافی تناؤ کا شکار رہے مگر اکتوبر 2023ء میں غزہ پر اسرائیل کے حملے اور لبنان اور شام میں اسرائیل کے ہاتھوں ایران کے حامیوں کے علاوہ اس کے سفارتی اور فوجی اہلکاروں کی ہلاکت نے ایرانی حکومت کو اپنا دفاع مضبوط کرنے پر مجبور کر دیا۔ 31جولائی 2024ء کو تہران میں قیام پذیر حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی اسرائیلی حملے میں شہادت نے ایرانی قیادت کو یہ باور کرایا کہ وہ روایتی ہتھیاروں سے اسرائیل کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اگرچہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری پر ایران ابھی تک اپنے سابقہ مؤقف پر قائم ہے تاہم مغربی خصوصاً اسرائیلی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ ایران نہ صرف اپنے ایٹمی پروگرام کو وسیع کر رہا ہے بلکہ ایٹم بم بنانے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔ گزشتہ برس نومبر میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل ایم گروسی نے ایران کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے اختتام پر انہوں نے جو رپورٹ دی اس کے مطابق ایران اپنے یورینیم کے ذخائر کو 60 فیصد تک افزودہ کر چکا ہے جبکہ ایٹم بم کی تیاری میں استعمال کرنے کیلئے درکار حد 90فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایران اس حد تک پہنچنے والا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو بارہا اعلان کر چکے ہیں کہ وہ ایران کو کسی قیمت پر ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل نہیں کرنے دیں گے اور اس کیلئے ضرورت پڑی تو طاقت بھی استعمال کی جائے گی۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے نام ڈونلڈ ٹرمپ کے خط کا متن بھی اس دھمکی پر مشتمل ہے جس کے جواب میں ایران کی قیادت نے کہا ہے کہ ایران جوہری ایشو پر مذاکرات کیلئے تیار ہے مگر یہ مذاکرات دھمکی کے تحت نہیں ہو سکتے۔ ایک طرف صدر ٹرمپ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں میں اضافہ کر رہے ہیں اور دوسری طرف وہ ایران سے مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مذاکرات کیلئے ضروری ہے کہ پہلے ایک سازگار ماحول پیدا کیا جائے مگر امریکی صدر اس کیلئے تیار نہیں‘ اُلٹا ایران کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور ڈیڈ لائن مقرر کی جا رہی ہے کہ اگر اس نے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کو امریکی اور اسرائیلی خواہش کے مطابق حل نہ کیا تو امریکہ کے پاس دیگر ذرائع بھی ہیں۔ کیا امریکہ اور اسرائیل کا ایران کے خلاف یہ رویہ صرف ایران کے جوہری پروگرام کی وجہ سے ہے؟ اگر یہ بات درست ہوتی تو 2015ء میں دونوں ملکوں کے مابین اختلافات اور کشیدگی ختم ہو جاتی کیونکہ صدر اوباما کے دور میں طے پانے والے معاہدے کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر بہت سی پابندیوں کو قبول کر لیا تھا اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن کے سالانہ معائنے پر مبنی ہر رپورٹ میں بیان کیا جاتا تھا کہ ایران آئی اے ای اے کی جانب سے مقرر کردہ فریم ورک کی پابندی کر رہا ہے۔ 2018ء میں ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اس معاہدے سے اچانک اور یکطرفہ علیحدگی کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ اور نیتن یاہو اور ان کے انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسند ساتھی ایران کے جوہری پروگرام سے نہیں بلکہ کسی اور وجہ سے خائف ہیں‘ جسے جاننے کیلئے امریکہ کے سابق سیکرٹری آف سٹیٹ اور سٹرٹیجک تھنکر ہنری کسنجر کے ایران پر مضامین اور گفتگو کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔
ہنری کسنجر کے مطابق خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ کے علاوہ وسطی ایشیا‘ بحر ہند اور ترکی سے شام‘ لبنان‘ فلسطین‘ مصر سے گزرتی ہوئی بحیرۂ روم کی مشرقی ساحلی پٹی پر واقع ممالک پر مشتمل ایک وسیع خطے میں امریکہ اور اسرائیل کو جو چیلنج ایران کی طرف سے درپیش ہے وہ اپنی نوعیت کا الگ اور اس خطے کی پوری تاریخ میں آنے والی دیگر ایمپائرز کو درپیش چیلنجز سے مختلف ہے۔ یہ چیلنج صرف عسکری یا سیاسی ہی نہیں بلکہ ثقافتی بھی ہے کیونکہ قدیم پرشین ایمپائر (330-500 قبل از مسیح) کی سرحدیں ایک طرف چین اور دوسری طرف شمال مغربی افریقہ سے ملتی تھیں اور یہ پورا خطہ اس میں شامل تھا اور اس خطے کی زبان‘ ثقافت‘ سیاست‘ آرٹ اور طرزِ زندگی پر اس کے گہرے اثرات ہیں۔ ہنری کسنجر کے مطابق ایران انسانی تاریخ کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی سپر پاور تھا اور جدید ایران بھی مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس کے خطے میں نہ صرف معاشی بلکہ عسکری لحاظ سے بھی سب سے طاقتور ملک ہے۔ ایک زمانے میں ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں مصر کے بغیر جنگ نہیں ہو سکتی اور شام کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ امریکہ نے اسرائیل کی خاطر ایک عرصہ ہوا مصر کی طاقت کو ختم کر کے اسے جنگ کرنے کے قابل نہیں چھوڑا اور اب بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹ کر شام کی طرف سے اسرائیل کی توسیع پسندی کے خلاف ایک بڑی رکاوٹ کو دور کر دیا ہے۔ اب صرف ایران ہے جو تاریخی‘ جغرافیائی محل وقوع اور وسائل کے اعتبار سے اسرائیل کے خلاف خطے کے سبھی ممالک سے زیادہ مؤثر اور فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس لیے ایران کا جوہری پروگرام نہیں بلکہ ایک متحد اور طاقتور ایران خطے میں اسرائیل کی توسیع پسندی کے خلاف سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ ایران‘ چین اور روس پر مشتمل سہ فریقی اتحاد کو ایک طاقتور ملک کی حیثیت سے ابھرنے سے روکنا چاہتے ہیں۔ اس کیلئے روسی شرائط پر امریکی صدر ٹرمپ یوکرین میں جنگ بند کروانا چاہتے ہیں تاکہ روس اور چین کے تعلقات میں رخنہ ڈالا جا سکے۔ امریکی اور یورپی حلقوں کی رائے میں چین کی طرف سے روس کو مہیا کی جانے والی مدد نے یوکرین جنگ میں روس کو کامیابی دلائی ہے۔ اگلا قدم ایران اور چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور مشرقِ وسطیٰ میں چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹوکے راستے میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔امریکہ نے ایران اور باقی مسلم دنیا کے درمیان تفرقہ بازی اور تصادم کی کیفیت پیدا کرنے میں ناکامی کے بعد ایران کو براہِ راست جنگ میں جھونکنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ غالب امکان ہے کہ ایران پر حملہ کرنے کے بجائے امریکہ اسرائیل کو ایران کے جوہری اثاثوں کو نشانہ بنانے پر اکسائے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ایران کا کیا ردعمل ہوگا اور اس کے علاقائی اور عالمی اثرات کیا ہوں گے‘ اس پر اگلی قسطوں میں بات کی جائے گی۔ (جاری)