"DRA" (space) message & send to 7575

امریکہ ایران پر حملہ کر سکتا ہے؟ …(1)

عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ اور سوویت یونین کے مابین سرد جنگ کا آغاز فروری 1948ء میں ہوا تھا‘ جب اُس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین نے ایک اعلان (ٹرومین ڈاکٹرائن) کے تحت سوویت یونین کو یونان کی خانہ جنگی میں مداخلت اور بحیرہ ٔاسود سے مشرقی بحیرۂ روم میں بلا روک ٹوک داخل ہونے کیلئے ترکی پر دباؤ ڈالنے پر خبردار کیا تھا‘ اور باز نہ آنے کی صورت میں طاقت کے استعمال کی دھمکی دی تھی۔ یہ بھی درست ہے کہ ترکی اور یونان کو سوویت یونین کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کے قابل بنانے کیلئے 200 ملین ڈالر کی امداد مہیا کرنے کے علاوہ امریکی بحریہ کا ایک تباہ کن جہاز ترکی کی ''میسوری‘‘ بندرگاہ پر لنگر انداز کر دیا گیا تھا۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ امریکہ اور سوویت یونین کے مابین سرد جنگ کا آغاز اس سے دو سال قبل‘ 1946ء میں ہی ہو چکا تھا جب سوویت یونین نے اتحادی قوتوں کے برعکس ایران کے شمالی حصے (ایرانی آذر بائیجان) سے اپنی فوجیں نکالنے سے انکار کر دیا تھا اور امریکہ نے سوویت یونین پر ایٹم بم گرانے کی دھمکی دی تھی۔ یاد رہے کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران ایک معاہدے کے تحت اتحادی قوتوں اور سوویت یونین نے بالترتیب ایران کے جنوبی اور شمالی حصوں میں اپنی فوجیں داخل کر دی تھیں تاکہ جرمنی اُس وقت کے ایرانی حکمران رضا شاہ پہلوی سے قریبی تعلقات اور دوستی کی آڑ میں ایران کے تیل کے ذخائر پر قبضہ نہ کر لے۔ جنگ کے بعد برلن کے بحران کے باعث اگرچہ سرد جنگ کا فوکس کافی عرصے تک یورپ پر رہا مگر اسی دوران مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک مثلاً عراق اور سعودی عرب میں تیل کی پیداوار اور اُس کی امریکہ اور اُس کے اتحادی ممالک یعنی مغرب میں یورپ اور مشرق میں جاپان کو برآمد شروع ہو چکی تھی۔ اس کے علاوہ اسرائیل کے قیام (1948ء)کے بعد مشرق وسطیٰ کا دفاع اور سلامتی امریکہ کیلئے نمایاں اہمیت اختیار کر چکی تھی‘ اسے یقینی بنانے کیلئے امریکہ نے شمال مغرب میں ترکی اور مشرق میں ایران کو ایک دفاعی معاہدے ''معاہدۂ بغداد‘‘ (سینٹو) میں شامل کیا۔ ایران اور ترکی کے علاوہ پاکستان‘ عراق‘ برطانیہ اور فرانس بھی باقاعدہ رکن کی حیثیت سے معاہدۂ بغداد میں شامل تھے۔ امریکہ نے اگرچہ اس کی پوری رکنیت اختیار نہیں کی تھی مگر اس کی ملٹری کمیٹی کا رکن ہونے کی وجہ سے وہی معاہدے کا اصل روحِ رواں تھا۔ شاہ آف ایران کے دور میں ایران نہ صرف مشرق وسطیٰ کی دفاعی حکمت عملی میں امریکہ کا قریبی اتحادی تھا بلکہ اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے ایشیا میں امریکی سی آئی اے کی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز بھی تھا مگر فروری 1979ء کے ایرانی انقلاب نے صورتحال یکسر بدل دی۔ ایران کی نئی انقلابی حکومت نے نہ صرف معاہدۂ بغداد سے علیحدگی اختیار کرلی بلکہ امریکہ کو سب سے بڑا ''شیطان‘‘ قرار دے کر اس سے خلیج فارس اور جزیرہ نما عرب سے اپنی فوجیں اور بحری‘ فضائی اڈے ختم کرنے کا مطالبہ بھی کر دیا۔
امریکہ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد خلیج فارسی اور مشرق وسطیٰ کے دفاع کیلئے جو حکمت عملی تیار کی تھی اس کا تمام تر فوکس بیرونی (سوویت) جارحیت کی روک تھام تھا۔ اگرچہ خطے میں یورپی نوآبادیاتی نظام اور امریکی سامراج کی مخالف قوت‘ عرب قوم پرستی بھی موجود تھی اور عراق‘ مصر‘ شام اور سوڈان میں سوویت یونین کی حامی کمیونسٹ پارٹیاں بھی موجود تھیں‘ تاہم یہ قوتیں ایک سیاسی اور نظریاتی چیلنج کی حیثیت سے اہم ضرور تھیں مگر ان سے خطے میں امریکہ اور اس کے اتحادی اسرائیل کو کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔ 1967ء کی جنگ میں اسرائیل عرب قوم پرستی کو ایک فیصلہ کن شکست دے چکا تھا۔ امریکہ کو خطرہ صرف سوویت یونین سے تھا جو 1960ء کی دہائی کے آخری برسوں میں بحر اوقیانوس کے پار امریکہ کو بین البراعظمی میزائل سے نشانہ بنانے کی استعداد حاصل کر کے امریکہ کے برابر سٹرٹیجک درجہ حاصل کر چکا تھا اور اس کے ساتھ ہی بین الاقوامی سمندروں میں اپنی بحریہ کی تعداد میں اضافہ کر کے باقی سمندروں کے علاوہ بحر ہند اور خلیج فارس میں امریکہ کے مفادات کیلئے خطرہ بن کر اُبھر رہا تھا۔ امریکہ نے اس خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے علاقائی اتحادیوں کے ساتھ دفاعی تعلقات کو مضبوط کرنا شروع کر دیا۔ شاہ آف ایران کی قیادت میں ایران امریکہ کے اہم علاقائی اتحادیوں میں سے ایک تھا مگر فروری 1979ء میں ایران میں امام خمینی کی قیادت میں انقلاب کی کامیابی اس خطے میں امریکہ کی دفاعی حکمت عملی کیلئے ایک بہت بڑا دھچکا تھی۔ اس کے خلاف ردعمل کے طور پر امریکہ نے ایران کے ساتھ سفارتی‘ معاشی اور تجارتی تعلقات منقطع کر دیے۔ ایران کے انقلاب کو اس کے ابتدائی برسوں میں ہی ختم کرنے کیلئے امریکہ نے عراق کی ایران کے خلاف یکطرفہ جنگ کی حمایت کی۔ خلیج فارس کی عرب ریاستوں نے گلف تعاون تنظیم (GCC)قائم کی اور ایرانی انقلاب کی مخالف اندرونی قوتوں کے ساتھ مل کر ایران میں رجیم چینج کی کوشش کی۔ ایران کے اثاثہ جات منجمد کرنے کے علاوہ ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کیں۔ ان اقدامات کے نتیجے میں ایران کو یقینا مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے مگر ایران کی قیادت نے اندرونی استحکام حاصل کرنے کے علاوہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ پُرامن تعلقات قائم رکھنے کی پالیسی اپنا کر فرقہ وارانہ بنیادوں پر ایران اور عرب ممالک کو آپس میں لڑانے کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔ تاہم ایران کے خلاف امریکہ کی معاندانہ پالیسی جاری رہی اور ہمسایہ عرب ممالک کو اشتعال دلا کر ایران میں رجیم چینج کے مقصد میں ناکامی کے بعد ایران پر براہِ راست حملے کا بہانہ ڈھونڈنے لگا۔ اس کیلئے امریکہ نے ایران پر جوہری ہتھیار تیار کرنے کا الزام عائد کیا حالانکہ ایران بارہا یقین دلا چکا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام خالصتاً پُرامن مقاصد کیلئے ہے اور وہ کبھی بھی ایٹمی ہتھیار تیار نہیں کرے گا۔ مگر امریکہ نے یہ کہہ کر کہ ایران کا ایٹمی پروگرام اسرائیل کی سلامتی کیلئے خطرہ ہے‘ ایران کو ایٹم بم تیار کرنے کی صلاحیت سے ہر قیمت پر محروم رکھنے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ سابق امریکی صدر براک اوباما کے دور میں اسی پالیسی کے تحت امریکہ اور سلامتی کونسل کے باقی چار مستقل اراکین (چین‘ روس‘ برطانیہ اور فرانس) یورپی یونین اور ایران کے مابین ایک معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس کے تحت امریکہ اور یورپ کے خدشات کو دور کرنے کیلئے ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر پابندیوں کو قبول کرلیا مگر 2018ء میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر امریکہ کی علیحدگی کا اعلان کر دیا اور اس کے ساتھ ہی ایران پر مزید پابندیاں عائد کر دیں۔ موجودہ صدارتی مدت سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ ایران پر نہ صرف مزید اقتصادی پابندیاں عائد کریں گے بلکہ ایران کو ہر قیمت پر ایٹمی قوت بننے سے روکیں گے اور اس مقصد کیلئے طاقت بھی استعمال کرنا پڑی تو اس سے دریغ نہیں کریں گے۔ چنانچہ 20 جنوری کو صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے خلاف چار مراحل میں اس کے تیل کی برآمدات کو ختم کرنے کیلئے پابندیاں لگا چکے ہیں بلکہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو خط بھی لکھا ہے جس میں ایران سے ایک نئے معاہدے کیلئے امریکہ سے بات چیت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ایران کو اس معاملے پر حتمی موقف اختیار کرنے کیلئے دو ماہ کا الٹی میٹم دیا گیا ہے۔
کیا ایران امریکہ کی اس دھمکی میں آ کر بات چیت پر آمادہ ہو جائے گا؟ امریکہ نے ایران کی موجودہ حکومت کے خلاف معاندانہ رویہ کیوں اختیار کر رکھا ہے؟ امریکہ اور اسرائیل‘ ایران کو خطے کیلئے کیوں خطرناک سمجھتے ہیں؟ کیا امریکہ براہِ راست یا اسرائیل کے ذریعے ایران پر حملہ کر سکتا ہے؟ اگر ایسے کسی حملے کی نوبت آتی ہے تو اس کے عالمی اور علاقائی سطح پر کیا اثرات ہوں گے؟ ان سب سوالات کے جوابات پر آئندہ کالم میں بحث کی جائے گی۔ (جاری)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں