28 فروری کو واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے یوکرینی ہم منصب ولودیمیر زیلنسکی کے درمیان ہونے والی ملاقات کا پوری دنیا میں چرچا ہو رہا ہے۔ یہ ملاقات چونکہ وائٹ ہاؤس کے اوول روم سے براہِ راست ٹیلی کاسٹ ہو رہی تھی اس لیے اسے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے میں ذرا دیر نہ لگی اور ہر جگہ اس پر بحث اور تبصروں کا سلسلہ چل پڑا۔ تاہم یورپی ممالک میں اس پر ردِعمل انتہائی شدید تھا کیونکہ صدر ٹرمپ نے یوکرین میں جاری جنگ پر صدر زیلنسکی کے مؤقف سے اختلاف کرکے انہیں بُری طرح جھاڑ دیا اور مشترکہ پریس کانفرنس سے پہلے ہی انہیں وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونا پڑا۔ اس ناخوشگوار واقعہ پر ہونے والے تبصروں کے مطابق دنیا کی سفارتی تاریخ میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ یوکرین ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ زیلنسکی اس کے جمہوری طور پر منتخب صدر ہیں‘ اس لیے اس ملاقات نے بڑے اہم اور نازک سوالات کو جنم دیا ہے‘ جن کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مثلاً کیا یہ ملاقات اچانک اور غیرمتوقع طور پر تلخ کلامی میں تبدیل ہو گئی یا پہلے سے تیار شدہ پلان کے تحت صدر زیلنسکی کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا گیا؟ یورپی یونین کے علاوہ برطانیہ اور کینیڈا نے بھی ایک ہنگامی کانفرنس کا انعقاد کرکے صدر زیلنسکی کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا اور چار نکات پر مشتمل ایک پیکیج بھی تیار کیا‘ جسے امریکی صدر کی حمایت سے یوکرین میں جنگ بندی اور پائیدار امن کے حصول کیلئے جلد پیش کیا جائے گا۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے ساتھ زیلنسکی کی ملاقات میں موخر الذکر کے ساتھ تلخ کلامی کا کوئی پیشگی منصوبہ نہیں تھا۔ گفتگو کے تلخ کلامی میں تبدیل ہونے کی اصل وجہ یہ نکتہ تھا کہ صدر ٹرمپ یوکرین میں امن چاہتے ہیں مگر صدر زیلنسکی امریکی امداد کے ساتھ جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں تاہم امریکیوں کا یہ دعویٰ حقیقت کے برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگ میں ملوث تمام فریق‘ جن میں روس‘ یوکرین‘ یورپی یونین اور امریکہ شامل ہیں‘ امن چاہتے ہیں مگر اپنی اپنی شرائط پر۔ ملاقات میں امریکی صدر ٹرمپ اور نائب صدر جے ڈی وینس نے یوکرین کی جنگ کی ذمہ داری زیلنسکی پر ڈالتے ہوئے الزام عائد کیا کہ وہ یوکرین میں جنگ بندی میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ ان کا یہ بیان بھی حقیقت کے برعکس ہے۔ یوکرین میں جنگ کی ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے جس نے 1989ء میں مشرقی اور مغربی جرمنی کے اشتراک کے موقع پر سابق سوویت لیڈر میخائل گوربا چوف کو کرائی گئی یقین دہانی کے برعکس یوکرین کو 'نیٹو‘ میں شمولیت کی پیشکش کی۔ اب صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ یوکرین کیلئے ''نیٹو‘‘ کی رکنیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کیساتھ ہی ٹرمپ نے یوکرین کیلئے ہر قسم کی فوجی امداد پر بھی پابندی عائد کر دی ہے‘جس کے بعد یوکرین کیلئے روس کے ساتھ جنگ جاری رکھنا تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔
صدر ٹرمپ کے اس اقدام پر یورپی ممالک سخت تشویش میں مبتلا ہیں کیونکہ انہوں نے امریکی فوجی امداد کے سہارے نہ صرف روس کیساتھ توانائی کے تمام معاہدے ختم کر دیے تھے جبکہ یوکرین کو محدود پیمانے پر ہتھیار بھی سپلائی کرنا شروع کر دیے تھے۔ ٹرمپ نے اپنے پیشرو جوبائیڈن کی پالیسی پر مکمل یوٹرن لیتے ہوئے نہ صرف یوکرین کی امداد سے ہاتھ کھینچ لیا ہے بلکہ روس سے براہِ راست امن مذاکرات کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ جنگ اور امن سے متعلقہ ایک اہم مسئلے یعنی یوکرین میں جنگ پر امریکہ نے یورپ کو آن بورڈ لیے بغیر براہِ راست اقدام کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لیے صدر ٹرمپ کے ان اقدامات نے امریکہ اور یورپ کے باہمی تعلقات بلکہ نیٹو کے مستقبل پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
کچھ مسائل ایسے ہیں جو فوری جوابات کے متقاضی ہیں۔ مثلاً یورپی یونین‘ برطانیہ اور کینیڈا کی سربراہی کانفرنس میں پیش کیے گئے چار نکات پر مشتمل امن منصوبے کا مستقبل کیا ہے؟ کیا صدر ٹرمپ اسے قبول کر لیں گے؟ کیا روس کیلئے یہ منصوبہ قابلِ قبول ہوگا؟ کیا صدر زیلنسکی امریکی امداد کے بغیر جنگ جاری رکھ سکتے ہیں؟ اور کیا صدر ٹرمپ نیٹو کو تحلیل کرنے کی دھمکی پر عمل کریں گے؟ ان سوالات کے ممکنہ جوابات سے قبل بہتر ہوگا کہ یوکرین میں جنگ کی ابتدا اور وجوہات کو تاریخی اور جیو پولیٹکل تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ یوکرین کرۂ ارض کے ایک ایسے جغرافیائی خطے کا حصہ ہے جس کے بارے میں برطانیہ کے ایک مشہور جغرافیہ دان ہالفورڈ جان میکنڈر نے 1904ء میں اپنے ایک مضمون میں کہا تھا کہ مشرقی یورپ اور بحیرہ قزوین(Caspian Sea) کے اردگرد واقع علاقوں پر مشتمل اس خطے پر جس ملک کا قبضہ ہو گا اس کیلئے پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی۔ جس وقت میکنڈر نے یہ نظریہ پیش کیا‘ اس وقت نہ صرف اٹھارہویں صدی کی آخری دہائیوں میں شروع ہونے والا صنعتی انقلاب اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکا تھا بلکہ برطانیہ‘ فرانس اور یورپ کے دیگر صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں جرمنی بھی پوری توانائی اور تیز رفتار ترقی کے ساتھ کھڑا ہو چکا تھا۔ سب جانتے ہیں کہ صنعتی انقلاب اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والے انفراسٹرکچر کا تمام تر دارو مدار قدرتی اور معدنی دولت پر ہے۔ جس خطے کو میکنڈر نے ہنٹر لینڈ یا Pivot of Historyکہا ‘ اس میں یوکرین بھی شامل ہے۔ 1904ء میں یہ روس کی زار شاہی سلطنت کا حصہ تھا مگر 1917ء سے یہ سوویت یونین میں شامل ہو گیا۔ اپنے جغرافیائی محل وقوع اور صنعتوں میں استعمال ہونے والے خام مال اور توانائی کے ذخائر کی وجہ سے یہ خطہ یورپ کے صنعتی ممالک کیلئے خاص اہمیت کا حامل تھا۔ دوسری عالمی جنگ میں سوویت یونین پر نازی جرمنی کے حملے کے پیچھے یہی محرکات کارفرما تھے۔ جنگ کے بعد مشرقی یورپی ممالک میں کمیونسٹ حکومتوں کے قیام اور جرمنی کے مشرقی حصے پر قبضے کے بعد سوویت یونین کا حلقۂ اثر جرمنی تک پھیل چکا تھا۔ مغربی یورپ اور امریکہ کو شدید خدشہ لاحق تھا کہ روس کی اس پیشرفت سے دیگر یورپی ممالک میں بھی مقامی کمیونسٹ پارٹیاں برسراقتدار آ سکتی ہیں اور یوں پورا یورپ سوویت یونین کے ملبے تلے آ جائے گا۔ یہ صورتحال نہ صرف مغربی یورپی ممالک بلکہ امریکہ کیلئے بھی ناقابلِ قبول تھی کیونکہ یورپ شمالی بحر اوقیانوس کے مشرقی ساحل پر واقع ہونے کی وجہ سے امریکی قومی سلامتی کیلئے ایک ڈھال کی حیثیت رکھتا ہے۔ اپنی پوری تاریخ میں امریکہ نے کسی یورپی ملک کو‘ خواہ وہ جرمنی ہو یا سوویت یونین‘ شمالی بحر اوقیانوس کے مشرقی ساحل یعنی یورپ پر مکمل طور پر غالب ہونے کی اجازت نہیں دی۔ اس پالیسی کے تحت امریکہ نے دو عالمی جنگوں میں جرمنی کے خلاف اتحادیوں کی حمایت کی تھی اور سوویت یونین کو سارے یورپ کو اپنے زیر نگیں لانے سے روکنے کیلئے 1949ء میں معاہدہ شمالی بحر اوقیانوس کے تحت 'نیٹو‘ کو قائم کیا گیا۔ اس معاہدے کی سب سے اہم خصوصیت اس کا آرٹیکل پانچ ہے جس کے تحت کسی ایک رکن ملک پر حملے کو تمام ممالک پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ سوویت یونین اس معاہدے کو اپنے خلاف امریکہ اور مغربی ممالک کے جارحانہ عزائم کی علامت سمجھتا تھا مگر نیٹو ممالک کا مؤقف ہے کہ اس معاہدے سے مغربی یورپ میں کمیونسٹ پیش قدمی کی کامیاب روک تھام کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ 1989ء میں دیوارِ برلن کے مسمار ہونے سے جرمنی کے دونوں حصوں کے دوبارہ متحد ہونے کے بعد امریکہ نے جرمنی کی 'نیٹو‘ میں شمولیت کے موقع پر میخائل گوربا چوف سے وعدہ کیا تھاکہ جرمنی کی شمولیت کے بعد نیٹو کو مشرق کی طرف مزید توسیع نہیں دی جائے گی مگر 1991ء میں جب سوویت یونین کے حصے بخرے ہونا شروع ہوئے اور اس میں شامل ریاستیں‘ جن میں یوکرین بھی شامل تھا‘ ماسکو سے الگ ہونا شروع ہوئیں تو امریکہ نے نیٹو کو توسیع دینے کی پالیسی تبدیل کر لی اور مشرقی یورپی ممالک کے علاوہ کئی سابقہ سوویت ریاستوں کو بھی نیٹو میں شامل کر لیا۔ (جاری)