پاکستان اور افغانستان کی ڈھائی ہزار کلومیٹر کے قریب طویل سرحد کے آر پار انسانوں اور سامان کی نقل وحرکت کیلئے تقریباً ڈیڑھ درجن گزرگاہیں ہیں مگر باقاعدہ اور سرکاری طور پر منظور شدہ مقامات‘ جہاں سے افغانستان اور پاکستان کے باشندے اور تجارتی سامان سے لدے ٹرک اور کنٹینرز طے شدہ طریقہ کار کے مطابق آ جا سکتے ہیں‘ ان کی تعداد آٹھ ہے ۔ان میں طورخم‘ چمن‘ غلام خاں کولاچی اور انگور اڈہ نمایاں ہیں۔ پشاور سے جلال آباد اور اس سے آگے کابل تک جانے والی سڑک پر واقع طورخم سب سے بڑا اور خصوصی اہمیت کی حامل بارڈر کراسنگ ہے۔ افغانستان سے پاکستان میں روزانہ داخل ہونے والے ہزاروں افغان باشندوں میں سب سے زیادہ تعداد طورخم سے ہی پاکستان داخل ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاک افغان دوطرفہ تجارت کے علاوہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت تقریباً 1500 کارگو ٹرک اور کنٹینرز روزانہ طورخم کا راستہ استعمال کرتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کسی وجہ سے طورخم بارڈر کے راستے تجارت اور لوگوں کی آمد ورفت بند ہو جائے تو پاکستان اور افغانستان کو معاشی طور پر اور سرحد کے آر پار رہنے والے دونوں ملکوں کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد کو کتنا نقصان اور کتنی مشکلات اٹھانا پڑتی ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے نہ صرف طورخم بلکہ چمن بارڈر بھی متعدد بار کئی کئی دنوں بلکہ ہفتوں کیلئے بند کیا جاتا رہا ہے۔
گزشتہ ماہ بھی طورخم کا راستہ ہر قسم کی آمد ورفت اور تجارت کیلئے بند کر دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ پاکستان اور افغانستان کی سرحدی افواج کے مابین ایک چوکی کی تعمیر پر جھگڑا تھا۔ اس جھگڑے میں فریقین کے مابین فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور تنازع کو حل کرنے کی کوششوں کی ناکامی کے نتیجے میں طورخم کا راستہ تقریباً ایک ماہ تک بند رہا۔ ہزاروں ٹرک اور بارڈر پار کرنے کے منتظر افراد پھنس کر رہ گئے۔ آخر کار دونوں طرف سے قبائلی عمائدین پر مشتمل جرگے کے ارکان کی کوششوں سے طورخم کے راستے کو تجارت اور لوگوں کی پیدل آمد ورفت کیلئے کھول دیا گیا لیکن یہ فیصلہ محدود مدت کیلئے تھا۔ اسے کھلا رکھنے کے فیصلے کو سرحدی چوکی کے تنازع کے حل کے ساتھ منسلک کیا گیا۔ اس فیصلے پر بھی دونوں طرف کی تجارتی برادری اور مختلف ضروریات کے تحت ہزاروں کی تعداد میں سرحد پار کرنے والوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ طورخم بارڈر کی طویل بندش سے نہ صرف تاجر‘ ٹرانسپورٹر اور مریض متاثر ہوتے ہیں بلکہ اس سے دونوں اطراف کو بھاری مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔ مثلاً طورخم کے راستے ایک ماہ تک تجارت کی بندش سے پاکستان کو ریونیو کی مد میں پہنچنے والے نقصان کا اندازہ چار کروڑ ڈالر سے زائد بتایا جاتا ہے۔ افغانستان سے پاکستان میں درآمدات رک جانے کے باعث تقریباً چھ کروڑ روپے کا روزانہ نقصان اس کے علاوہ ہے۔ مالی نقصان اور انسانی مشکلات کے علاوہ پاک افغان سرحد کو تجارت اور آمد ورفت کے لیے بند کرنے سے مُضر سیاسی نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔
افغانستان چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا (Landlocked) ملک ہے اور نہ صرف یہ کہ ڈھائی ہزار کلو میٹر سے زیادہ طویل مشترکہ سرحد کے ساتھ پاکستان اس کا سب سے بڑا ہمسایہ ملک ہے بلکہ اس کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے۔ افغانستان پاکستان کی اہم برآمدی منڈی ہے۔ مالی سال 2024ء کے دوران پاکستان کی افغانستان کو برآمدات کی مالیت ایک ارب چھ کروڑ 40 لاکھ ڈالر سے زائد تھی جبکہ افغانستان سے پاکستان درآمد کی جانے والی اشیا کی مالیت 538 ملین ڈالر تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تجارت میں 536 ملین ڈالر سے زائد کا سرپلس حاصل ہوا۔ بین الاقوامی تجارت میں افغانستان غالباً واحد ملک ہے جس کے ساتھ دوطرفہ تجارت میں پاکستان کو سرپلس حاصل ہے۔ افغانستان کے اپنے دیگر ہمسایہ ممالک مثلاً ایران‘ ازبکستان‘ تاجکستان‘ ترکمانستان اور چین کے ساتھ بھی دوطرفہ بنیادوں پر اور ٹرانزٹ کی صورت میں تجارتی تعلقات قائم ہیں۔ مگر انفراسٹرکچر اور کنیکٹیوٹی کے مسائل کی وجہ سے یہ تعلقات محدود ہیں۔ کئی برسوں سے پاکستان کی برآمدات کیلئے افغانستان ایک محفوظ منڈی رہا ہے مگر آئے دن سرحد کی بندش سے اس تجارت میں کمی واقع ہو رہی ہے کیونکہ طورخم اور چمن کے راستے تجارت کی بندش سے افغانستان نے سمندر پار ملکوں سے اپنی تجارت کا رُخ خلیج فارس کے ساحل پر واقع ایرانی چابہار بندرگاہ کی طرف موڑ دیا ہے۔ اس کے باوجود افغانستان کیلئے دوطرفہ اور ٹرانزٹ ٹریڈ کیلئے پاکستان کی اہمیت کم نہیں ہوئی کیونکہ جنوبی ایشیا اور بحر ہند کے پار دیگر ملکوں کے ساتھ تجارت کیلئے پاکستان سب سے کم فاصلے والا راستہ مہیا کر سکتا ہے۔ اب بھی افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے (2010ء) کے تحت افغانستان پاکستان کی بندرگاہوں‘ پورٹ قاسم اور گوادر کے راستے سمندر پار ملکوں کے ساتھ درآمدی اور برآمدی تجارت کرتا ہے۔ اسی طرح افغانستان کو واہگہ کے راستے نہ صرف بھارت بلکہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک مثلاً نیپال اور بنگلہ دیش کے علاوہ چین کے ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت بھی حاصل ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین 2010ء کے معاہدے کے تحت افغانستان کو پاکستان کے راستے اپنے ٹرکوں کو پاک بھارت سرحد پر واقع واہگہ‘ اٹاری کے تجارتی مرکز تک لے جانے کی اجازت ہے مگر بھارت کو افغانستان کیلئے تجارتی سامان پاکستان کے راستے لے جانے کی اجازت نہیں۔ پاکستان کے راستے افغانستان اور اس سے آگے وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ تجارت راہداری بھارت کا ایک دیرینہ خواب ہے۔ 1977ء میں بھارتی وزیراعظم مرار جی ڈیسائی کی کابینہ میں بطور وزیر خارجہ شامل ہونے والے اٹل بہاری واجپائی نے اس درخواست کے ساتھ پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا مگر مسئلہ کشمیر کے حتمی حل تک بھارت کو اس قسم کی رعایت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ اب یہ مطالبہ بھارت سے زیادہ شدت کے ساتھ افغانستان کی طالبان حکومت کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف ان کا مطالبہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی مشترکہ سرحد سے متعلقہ کسی بھی تنازع کی وجہ سے دونوں ملکوں کی تجارت خصوصاً طورخم کا راستہ بند نہیں ہونا چاہیے۔ دوسری طرف گزشتہ افغان حکومتوں کی طرح عبوری طالبان حکومت پاکستان کے راستے بھارت سے تجارت میں اسی طرح کی سہولتوں کا مطالبہ کرتی ہے جو پاکستان کو 2010ء کے معاہدے کے تحت افغانستان کے راستے وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ تجارت میں حاصل ہیں۔ واضح رہے کہ نواز شریف کے تیسرے دورِ حکومت میں اُس وقت کی افغان حکومت کی یہ تجویز مان لی گئی تھی کہ سرحد پر کسی کشیدگی کی صورت میں تجارتی راستے بند نہیں کیے جائیں گے۔
پاکستان کو طالبان حکومت سے بہت سی شکایات ہیں اور ان کے پیش نظر سرحد پر افراد کی نقل وحرکت کوکنٹرول کرنا نہ صرف ضروری ہے بلکہ یہ پاکستان کا حق ہے مگر تجارت اور ضرورتمند اور قانونی دستاویز کے ساتھ سرحد پار کرنے والوں کو روکنے سے گریز کیا جانا چاہیے۔ طالبان حکومت کے رویے سے قطع نظر یہ حقیقت پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ دہائیوں بعد افغانستان میں امن قائم ہوا ہے۔ طویل جنگ سے تباہ شدہ ملک کو ایک دفعہ پھر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کیلئے معاشی ترقی کی ضرورت ہے جس میں بیرونی تجارت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ خشکی سے گھرا ہونے کی وجہ سے اور جغرافیائی محل وقوع کی بدولت پاکستان پر انحصار کرتے ہوئے افغانستان کو اس سلسلے میں ہمسایہ ممالک سے مدد کی ضرورت ہے۔ پاکستان اس سلسلے میں سب سے زیادہ کردار ادا کر سکتا ہے۔ (ن)لیگ کی گزشتہ حکومت میں طے پانے والے اصول کے مطابق سرحدی کشیدگی کے باوجود پاک افغان تجارت کو بند نہیں کرنا چاہیے۔