"DRA" (space) message & send to 7575

افغان مہاجرین کا چیلنج

حکومت کی طرف سے اُن افغان باشندوں کے لیے‘ جو غیر قانونی طور پر پاکستان میں رہ رہے ہیں‘ رضاکارانہ طور پر افغانستان واپسی کی تاریخ 31مارچ مقرر کی گئی تھی مگر بہت کم افغان مہاجرین نے اس مدت میں اپنے وطن کی راہ اختیار کی۔ اب بھی افغان مہاجرین کی ایک بہت بڑی تعداد ملک کے مختلف حصوں خصوصاً خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں مقیم ہے۔ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت‘ اقوام متحدہ اور مہاجرین سے متعلقہ دیگر بین الاقوامی اداروں‘ پاکستان کی ایک صوبائی حکومت‘ علاقائی سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی طرف سے 31مارچ کی ڈیڈ لائن میں توسیع کی اپیل مسترد کرنے کے بعد وفاقی حکومت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے ان غیر قانونی افغان باشندوں کو ان کے وطن واپس بھیجنے میں مصروف ہے۔ ان افغان باشندوں کو ‘ جو ملک کے مختلف شہروں میں بکھرے ہوئے ہیں‘ کو عارضی طور پر ہولڈنگ کیمپوں میں جمع کیا جا رہا ہے جہاں سے انہیں پولیس کی نگرانی میں طورخم اور چمن کے راستے افغانستان واپس بھیجا جائے گا۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق ان افغان باشندوں کی بڑی تعداد افغانستان واپس نہیں جانا چاہتی۔ اس کی کیا وجوہات ہیں اور پاکستان کن وجوہات کی بنا پر ان افغان باشندوں کو واپس افغانستان بھیجنا چاہتا ہے‘ اس پر بعد میں بات کی جائے گی مگر اس وقت جس طرح ان افغان باشندوں کی تلاش کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں اور انہیں ہولڈنگ کیمپوں میں منتقل کیا جا رہا ہے اور جس طرح افغان مہاجرین پولیس سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ اس سے مجھے راج کپور کی فلم 'میرا نام جوکر‘ کا مشہور گانا 'جانے کہاں گئے وہ دن‘ کہتے تھے تیری راہ میں نظروں کو ہم بچھائیں گے‘ یاد آ گیا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب پاکستان میںبازو پھیلا کر ان مہاجرین کا استقبال کیا جاتا تھا اور افغانستان کے کونے کونے‘ خصوصاً اس کے مشرقی اور پختون آبادی والے پاکستان سے ملحقہ صوبوں سے لاکھوں کی تعداد میں افغان باشندے افغانستان میں روسی افواج اور مجاہدین کے درمیان جنگ کے خطرات سے بچنے کے لیے پاکستان میں داخل ہو رہے تھے۔ اس وقت کی پاکستانی حکومت کی پالیسی کے تحت ان افغان مہاجرین کو نہ صرف کسی بھی قسم کی شناختی دستاویزات کے بغیر سرحد پار کرنے کی مکمل آزادی تھی بلکہ انہیں یہاں رہائش‘ خوراک اوردیگر سہولتیں اتنی فراوانی سے فراہم کی جا رہی تھیں کہ تب دنیا میں افغان مہاجرین کو دیگر مہاجرین کے مقابلے میں سب سے زیادہ آسودہ اور مراعات یافتہ مہاجرین قرار دیا جاتا تھا۔ اس کی وجہ بین الاقوامی برادری خصوصاً امریکہ‘ یورپی ممالک اور خلیج فارس کی عرب ریاستوں خصوصاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے وسیع پیمانے پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فراخدلانہ امداد کی بہم رسائی تھی۔ یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سوویت یونین کے خلاف حکمت عملی کے ایک اہم جزو کے طور پر کیا جا رہا تھا۔ اس کا مقصد پاکستان میں بہتر حالات اور بہتر مواقع پیدا کر کے افغانستان سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ملک چھوڑنے پر راغب کرنا تھا تاکہ حملہ آور سوویت یونین کو زیادہ سے زیادہ ڈی کریڈٹ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے اُن علاقوں سے بھی‘ جو جنگ سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے تھے‘ افغان باشندے پاکستان میں داخل ہونے لگے۔ اور 1988ء میں جب جنیوا مذاکرات کے تحت افغانستان سے روس نے اپنی فوجیں واپس بلانے کا مطالبہ تسلیم کرلیا‘ ان مہاجرین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی تھی۔ جنیوا معاہدات کے تحت جن چار امور پر اتفاق ہوا تھا ان میں افغان مہاجرین کی واپسی بھی شامل تھی‘لیکن افغانستان سے روسی افواج کے انخلا کے باوجود وہاں امن قائم نہ ہوا بلکہ اس کے بعد افغان مجاہدین گروپوں کی آپس میں لڑائی شروع ہو گئی۔ چند ہی سال بعد 2001ء میں افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے داخلے کے بعد افغان طالبان کی گوریلا جنگ نے وہ پُرامن اور محفوظ ماحول پیدا نہ ہونے دیا جس میں ا ن مہاجرین کو واپس بھیجا جا سکتا۔ اس دوران اقوام متحدہ کے ادارے UNHCR کے توسط سے افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی کوشش کی گئی مگر اس میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔
اب موجودہ حکومت نے دو سال سے افغان مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھیجنے کی جو مہم شروع کر رکھی ہے‘ اس کے حق میں کئی دلائل پیش کیے جا سکتے ہیں۔ اول یہ کہ افغان مہاجرین کی واپسی 1988ء کے جنیوا معاہدات کا ایک حصہ تھی۔ دوم‘ افغانستان سے روسیوں کے نکل جانے کے بعد بین الاقوامی برادری نے افغان مہاجرین کی امداد سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور ان کا سارا بوجھ اقوام متحدہ اور پاکستان کو برداشت کرنا پڑا۔ سوم‘ 1988ء کے بعد پاکستان میں افغان باشندوں کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔ UNHCR کے ایک اندازے کے مطابق اگست 2021ء (کابل پر افغان طالبان کی حکومت کے بعد) پاکستان میں افغان مہاجرین کی تعداد 37 لاکھ تک پہنچ چکی تھی‘ غیر رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کا بوجھ برداشت کرنا پاکستان کے بس کی بات نہیں۔ چہارم‘ نومبر 2022ء کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی کی طرف سے جنگ بندی کے خاتمے کے اعلان کے بعد سے یہ مہاجرین پاکستان کے لیے سکیورٹی رِسک بن چکے ہیں۔ مگر حکومت مہاجرین کی واپسی کے لیے جس حکمت عملی اور ٹائم فریم پر عمل کر رہی ہے‘ اس پر کچھ قومی اور بین لااقوامی حلقوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس حقیقت کے پیشِ نظر کہ افغان مہاجرین کی تین نسلیں پاکستان میں جوان ہو چکیں اور ان میں سے کئی ایک پاکستان میں کاروبار اور معیشت کے دیگر شعبوں سے وابستہ ہیں‘ان کی واپسی کیلئے کوئی بھی لائحہ عمل تیار کرتے وقت مہاجرین اور کابل میں برسراقتدار حکومت سے مشاورت ضروری ہے۔ اس لیے حکومت کی افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی موجودہ حکمت عملی کی کامیابی کا انحصار بہت حد تک اسلام آباد کابل تعلقات پر ہے۔ اس وقت جبکہ پاکستان اور کابل حکام کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے روابط کا آغاز ہوا ہے‘ کابل انتظامیہ کو اس معاملے میں تعاون پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔
یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ مہاجرین کو واپس بھیجنے کے مسئلے پر خیبرپختونخوا حکومت کی الگ رائے ہے۔ اس کے علاوہ وہ سیاسی جماعتیں‘ خصوصاً عوامی نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی‘ جنہوں نے افغان مہاجرین اور ان کے ذریعے سابقہ حکومتوں کی سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی پالیسی کی سخت مخالفت کی ہے‘ اب مہاجرین کو ملک سے نکالنے کی مخالفت کررہی ہیں‘ اور ان کی فوری بے دخلی کے بجائے مرحلہ وار پروگرام کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ افغان مہاجرین کے ساتھ ملک کی مذہبی سیاسی جماعتوں کے بھی قریبی اور وسیع رابطے ہیں۔ اس لیے یہ مسئلہ اتنا سادہ اور آسان نہیں۔ بین الاقوامی ادارے بھی پاکستان پر افغان مہاجرین کی مرحلہ وار واپسی پر زور دے رہے ہیں۔ افغانستان میں طالبان انتظامیہ کے تحت پیدا کردہ حالات‘ خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم اور ملازمت پر پابندی کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ایک لمبے عرصہ تک قیام کے دوران افغان مہاجرین کے بچے تعلیم حاصل کر کے جوان ہوئے ہیں اور ان میں سے متعدد نے طبی‘ تدریسی اور دیگر شعبوں میں یہاں کیریئر اپنا رکھے ہیں۔ ان کے مطابق ایسے افغان مہاجرین کیلئے موجودہ افغانستان میں کوئی جگہ نہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس معاملے میں کسی عجلت سے کام لینے کے بجائے اتفاقِ رائے کی فضا بنائی جائے تاکہ افغان مہاجرین کی پاکستان سے بے دخلی کسی نئے انسانی المیے کو جنم نہ دے جو کل کو دوبارہ ریاستی پالیسی کو موردِ الزام ٹھہرا رہا ہو۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں