مشرقِ وسطیٰ کی حالیہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ خطے میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تصادم کی وجہ سے جب بھی حالات خطرناک موڑ لیتے ہیں امریکہ کی طرف سے بحیرۂ روم اور خلیج فارس کے آس پاس کے پانیوں میں پہلے سے موجود فوجی طاقت میں اضافے کیلئے جنوبی بحر اوقیانوس اور جنوب مشرقی ایشیا سے امریکی بحریہ کے جنگی جہاز مشرقِ وسطیٰ کی طرف روانہ کر دیے جاتے ہیں۔ اس وقت بھی جبکہ اسرائیل نے غزہ اور جنوبی لبنان پر دوبارہ حملے شروع کر دیے ہیں اور امریکہ یمن میں حوثیوں کے ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے‘ امریکی محکمہ دفاع نے نہ صرف امریکی جنگی جہازوں کو مشرقِ وسطیٰ کی طرف روانہ کر دیا ہے بلکہ اپنے جدید ترین اور بھاری بمبار B-2اور C-17کارگو طیاروں کو بحر ہند کے عین وسط میں واقع ڈیاگو گارسیا کے اڈے پر پہنچا دیا ہے۔ امریکی میڈیا اور تھنک ٹینکس سے تعلق رکھنے والے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ یہ ایران پر حملے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ یہ حملہ اسرائیل کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے اور امریکہ اور اسرائیل مشترکہ کارروائی بھی کر سکتے ہیں۔ اس حملے کا ہدف ایران کی جوہری تنصیبات ہو سکتی ہیں جو زیر زمین بہت گہرائی میںتعمیر کی گئی ہیں مگر امریکہ کے B-2بمبار طیارے اتنے بھاری بم اٹھانے کی اہلیت رکھتے ہیں جو گہرائی تک اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ امریکی ماہرین کی رائے میں مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں صدر ٹرمپ کی حکمت عملی میں مرکزی ہدف ایران کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنا ہے‘ کیونکہ اس سے اسرائیل کی بقا کو خطرہ ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے نام اپنے خط میں کہا تھا کہ ان کی اولین ترجیح سفارتی ذرائع اور بات چیت کے ذریعے ایران کے ساتھ ایک '' ڈیل‘‘ ہو گی‘ ورنہ فوجی کارروائی کیلئے تیار ہو جائیں۔ مبصرین کے مطابق امریکہ کی طرف سے 15مارچ سے یمن پر حملوں کا مقصد ایران کو خبردار کرنا ہے کہ جوہری پروگرام سے دستبرداری اختیار نہ کی تو امریکہ یا اسرائیل کے ساتھ مشترکہ حملوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ امریکی ماہرین کے مطابق لبنان پر حملہ کر کے حزب اللہ کی طاقت کو ختم کرنا اور شام میں بشار الاسد کی حکومت کو تختہ اُلٹنا اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اس طرح ایران کے ان دو بڑے اتحادیوں کی جانب سے اسرائیل یا مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اثاثوں پر حملوں کا خطرہ اگر مکمل طور پر ختم نہیں ہوا تو بڑی حد تک کم ضرور ہو گیا ہے۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت ختم ہونے اور لبنان میں حزب اللہ کے اہم رہنماؤں کے شہید ہونے سے ایران کی مشرقِ وسطیٰ میں پوزیشن خاصی کمزور ہوئی ہے۔ اب یمن کے حوثی قبائل ہی ہیں جن سے امریکہ اور اسرائیل کوردِعمل کا خدشہ ہے۔ حوثیوں نے اعلان کر رکھا ہے کہ اگر غزہ میں فلسطینیوں پر اسرائیل کے حملے جاری رہے تو وہ بحیرہ احمر میں اسرائیلی جہازوں پر حملے جاری رکھیں گے۔ صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر یمن کے حوثیوں کی طرف سے بحیرہ احمر میں سے گزرنے والے جہازوں پر حملے جاری رہے تو اس کیلئے ایران کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ یمن میں حوثی قبائل کی قوت کو ختم کرنے کے ساتھ امریکہ ایران پر اپنے حملے کا آپشن ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ سے قریبی تعلق اور اسرائیل کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران پر امریکہ کے اکیلے یا اسرائیل کے ساتھ مل کر حملے کا امکان بہت زیادہ ہے بلکہ یہ حملہ کسی وقت بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی جو وجوہات بیان کی جاتی ہیں اُن میں سے ایک یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل دونوں کے نزدیک ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کیلئے فوجی کارروائی کا یہی موقع ہے کیونکہ غزہ میں حماس پر اسرائیلی دباؤ ‘ لبنان میں حزب اللہ کی قیادت کے خاتمے اور شام میں بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے سے ایران خطے میں اپنے اہم پراکسیز (Proxies) سے محروم ہو چکا ہے۔ گزشتہ برس اکتوبر میں اسرائیل نے فضائی حملوں میں ایران کے اینٹی ائیر کرافٹ ڈیفنس سسٹم کو تباہ کر دیا تھا اس لیے امریکہ اور اسرائیل کو یقین ہے کہ ان کے حملہ آور طیاروں کو ایران کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ تیسرا یہ کہ اسرائیل نے گزشتہ برس اپریل اور اکتوبر میں ایران پر فضائی حملوں سے ثابت کر دیا تھا کہ اُس کے پاس طیاروں‘ میزائلوں اور ڈرون حملوں کے ذریعے ایران کی جوہری تنصیبات کے بہت گہرائی تک ہونے کے باوجود تباہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اگرچہ مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس کے خطے میں امریکہ کے بحری اور فضائی اڈے موجود ہیں‘ بحرین میں اس کا اڈا اس کے پانچویں بحری بیڑے کا ہیڈ کوارٹر ہے اور قطر میں اس کا ایک بہت بڑا ہوائی اڈا ہے لیکن ممکنہ طور پرایران پر حملے کیلئے امریکہ ان اڈوں کو استعمال نہیں کرے گا کیونکہ اس صورت میں ان ملکوں کے ملوث ہونے کا سوال پیدا ہو گا۔ اس بات کا امکان کم ہے کہ قطر اور بحرین اپنے ہاں سے امریکہ کو ایران پر حملے کی اجازت دیں گے کیونکہ اس صورت میں انہیں سخت عوامی ردِعمل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب سے امریکی فورسز اور سہولیات کو استعمال کرنے کا امکان بھی کم ہے کیونکہ اس وقت جبکہ غزہ میں نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی حملے جاری ہیں اور اسرائیل کے ان حملوں کا دائرہ لبنان اور شام تک پھیل چکا ہے‘ ایران کا کوئی ہمسایہ عرب ملک امریکہ کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کے باوجود اپنی سرزمین کو ایران پر حملے کیلئے استعمال کی اجازت نہیں دے گا۔ ڈیاگو گارسیا کے اڈے سے امریکہ کو اس قسم کے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ یہ جزیرہ امریکہ اور برطانیہ کی مشترکہ ملکیت ہے۔ امریکہ نے برطانیہ کی اجازت سے اس پر 1970ء کی دہائی میں بحری‘ ہوائی اور مواصلاتی اڈا تعمیر کیا تھا۔ یہ اڈا بحر ہند کے تقریباً عین وسط میں متعدد جزائر پر مشتمل ہے اور یہاں سے بحر ہند میں سے گزرنے والے غیر ملکی جنگی اور تجارتی بحری جہازوں کی آمد و رفت پر نظر رکھی جا سکتی ہے ۔ اس اڈے کی تعمیر اور اس پر امریکہ کے جدید ترین لڑاکا اور بمبار طیاروں کو تعینات کا مقصد اردگرد کے علاقوں میں ضرورت کے وقت فوجی کارروائیوں کیلئے سہولیات مہیا کرنا تھا۔ 1991ء میں ''ڈیزرٹ سٹارم‘‘ کے نام سے خلیج فارس کی پہلی جنگ میں عراق پر بمباری کرنے والے امریکی طیارے ڈیاگو گارسیا کے اڈے کو استعمال کرتے تھے۔ اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر حملہ کرنے والے امریکی طیارے اگرچہ بلوچستان کے ساحل کے ساتھ بحر ہند میں کھڑے امریکی طیارہ بردار جہازوں سے پرواز کرتے تھے مگر اسی مہم میں اور پھر افغانستان کی دس سال طویل جنگ کے دوران افغانستان پر امریکہ کے فضائی آپریشن میں ڈیاگو گارسیا کے اڈے نے نہایت فعال کردار ادا کیا۔ اس اڈے کو ایران پر حملوں کیلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔اگر امریکہ نے (اکیلے یا اسرائیل کے ساتھ مل کر) ایران پر حملہ کیا تو یہ اس خطے میں گزشتہ تقریباً 35برس میں امریکہ کی چوتھی بڑی فوجی کارروائی ہوگی۔ پہلی1991 ء کی خلیجی جنگ‘ دوسری2001-21ء افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ‘ تیسری2003ء میں عراق جنگ ۔ ان کارروائیوں نے خطے میں سیاسی عدم استحکام‘ معاشی نقصانات‘ دہشت گردی اور خانہ جنگی کی صورت میں جو منفی اثرات مرتب کیے وہ ابھی تک باقی ہیں۔ قدیم تہذیب اور تمدن کی وارث قوم اور آج تک اپنے تمام ہمسایہ ملکوں کے ساتھ پُرامن تعلقات قائم رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے والا ملک‘ امریکہ اور اسرائیل کی جارحیت کا شکار ہے لیکن امریکہ اور اسرائیل کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ایران نہ تو غزہ ہے اور نہ شام‘ اس کے پاس اپنے دفاع کیلئے وسائل موجود ہیں۔ (جاری)