"DRA" (space) message & send to 7575

پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی اور پی ٹی آئی

خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی بڑھتی کارروائیوں کے پیش نظر 18 مارچ کو قومی اسمبلی میں پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا ایک خصوصی اجلاس ہوا‘ جس میں پاکستان تحریک انصاف اور اس کی اتحادی پارٹیوں سمیت پارلیمانی نمائندگی رکھنے والی تمام پارٹیوں کو شریک ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔ مگر پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں نے اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اس میں شرکت سے انکار کر دیا۔ اجلاس کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اس میں دہشت گردی کی مکمل بیخ کنی کرتے ہوئے 2014ء کے نیشنل ایکشن پلان اور گزشتہ برس جون میں شروع کیے گئے آپریشن عزم استحکام پر فوری عمل درآمد کرتے ہوئے قومی اتفاق رائے پر زور دیا گیا ہے۔ قومی اتفاقِ رائے کے احاطے کو بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس کی پشت پر پاکستانی عوام کی سیاسی اور سٹرٹیجک کمٹمنٹ اور ریاست کی پوری طاقت کے استعمال کی اجازت ہونی چاہیے لیکن پی ٹی آئی کی طرف سے پارلیمانی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بائیکاٹ کے بعد مشترکہ اعلامیے‘ جس میں قومی اتفاق رائے کا ذکر کیا گیا ہے‘ کا حصول مشکل نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاست سے اختلاف رکھنے کے باوجود یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ ملک کی بڑی قومی جماعتوں میں سے ایک ہے۔ دہشت گردی سے شدید متاثرہ صوبے یعنی خیبر پختونخوا میں اس کی حکومت ہے۔ لیکن پی ٹی آئی کو بھی یہ یاد رکھنا چاہیے کہ نہ صرف اس کے منتخب نمائندے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بیٹھتے ہیں بلکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں ایوانوں میں لیڈر آف دی اپوزیشن کے عہدے اس کے پاس ہیں۔ اس کے نمائندے دونوں ایوانوں کی کمیٹیوں میں بطور رکن شامل ہیں اور ان کمیٹیوں کی کارروائیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اس کے رکن قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے صدر جنید اکبر قومی اسمبلی کی اہم‘ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی دیگر کئی کمیٹیوں کی چیئرمین شپ پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے اراکین کے پاس ہے۔
موجودہ حکومتی ڈھانچے کو فارم47 کی پیداوار‘ جعلی اور غیر آئینی قرار دینے کے باوجود پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی پارٹیوں کے اراکین اس ڈھانچے کا پوری طرح حصہ ہیں۔ اس اسمبلی کے رکن ہونے کی حیثیت سے وہ تمام مراعات اور سہولتیں حاصل کرتے ہیں جو باقی سیاسی پارٹیوں کے اراکین وصول کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی پارٹیوں کا پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے حالیہ اہم اجلاس میں حصہ نہ لینے کا کوئی جواز نہیں۔ ابتدا میں پی ٹی آئی نے اس اجلاس میں شرکت کے واضح اشارے دیے تھے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب اور پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم کے بیانات اس بات کا ثبوت ہیں اور سپیکر قومی اسمبلی کو اجلاس میں شریک ہونے والے اراکین کی فہرست بھی جمع کر دی گئی تھی مگر بعد میں پارٹی قیادت نے اس شرکت کو بانی پارٹی سے ملاقات سے مشروط کر دیالیکن حکومت نے پی ٹی آئی رہنماؤں کا یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا۔ اجلاس میں عدم شرکت کی ذمہ داری حکومت پر ڈالتے ہوئے سلمان اکرم راجہ‘ عمر ایوب اور اپوزیشن اتحاد کے دیگر رہنماؤں نے موقف اختیار کیا ہے کہ وہ بانی چیئرمین سے مشاورت کے بغیر سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کر سکتے تھے۔ مگر پارٹی کے پلیٹ فارم اور ذمہ دار رہنماؤں کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی‘ افغان مہاجرین کی واپسی اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے جو بیانات دیے جا رہے ہیں وہ پارلیمانی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں بیان کی گئی گائیڈ لائن کی نفی کرتے ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے بعد تحریک تحفظ آئین پاکستان کے رہنماؤں سلمان اکرم راجہ‘ سینیٹر راجہ ناصر عباس‘ صاحبزادہ حامد رضا اور محمود خان اچکزئی نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں حکومت کو خبردار کیا کہ ملک میں نئے محاذ کھولنے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ اختلافات کو ختم کرنے کیلئے طاقت کے استعمال سے صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے اپنے بیان میں صاف کہا کہ اپوزیشن اتحاد دہشت گردوں کے خلاف کسی فوجی آپریشن کے حق میں نہیں۔ اپوزیشن اتحاد کے مطابق اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔ اجلاس میں شرکت کرنے والے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ چند روز قبل کہہ چکے ہیں کہ افغان مہاجرین سے متعلق وفاق کی پالیسی غلط ہے‘ انہیں افغانستان واپس بھیجنے کے بجائے پاکستان کی شہریت دینی چاہیے۔ اس سے قبل وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ صوبے میں کسی فوجی آپریشن کی حمایت نہیں کریں گے۔
قومی سلامتی پر پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں پی ٹی آئی کی عدم شرکت اور اس کے اعلامیہ میں بیان کی گئی انسدادِ دہشت گردی کی حکمت عملی سے اختلاف سے قومی اتفاقِ رائے کے حصول میں مشکلات پیش آنے کا اندیشہ ہے‘ جس سے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت بھی اس سے شہ پائے گی۔ یاد رہے کہ پی ٹی آئی کا یہ مؤقف نیا نہیں ہے‘ بانی پی ٹی آئی مشرف دور سے طالبان کے حامی رہے ہیں اور ان کے خلاف کسی قسم کی فوجی کارروائی کے خلاف تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ ہمسایہ ملک افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی موجودگی ہے۔ جب یہ غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی تو پاکستان میں بھی دہشت گردی ختم ہو جائے گی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے اس بیانیے کو مقتدر حلقوں کی حمایت حاصل ہو گئی۔ 2013ء کے عام انتخابات میں خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے الیکشن میں حصہ لینا لگ بھگ ناممکن ہو چکا تھا۔ ناقدین کا ماننا ہے کہ یہ سب افغانستان کے ساتھ ملحقہ سرحد رکھنے والے اس صوبہ میں پی ٹی آئی کی حکومت کی تشکیل کے لیے ہوا۔ اس بیانیے کے عوض 2014ء میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور 126دن کے دھرنے کا عمل شروع ہوا جس کا مقصد نواز شریف کی حکومت کو گرا کر بانی پارٹی کے لیے وزیراعظم ہاؤس کا راستہ صاف کرنا تھا۔
اگر پی ٹی آئی پارلیمانی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرتی بھی تو اس نے اپنے اس بیانیے کی بنیاد پر ہی اپنا مؤقف پیش کرنا تھا کیونکہ بانی پی ٹی آئی ابھی تک اپنے اسی بیانیے پر قائم ہیں۔ انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے دہشت گردوں سے زیادہ بھاری اور خطرناک چیلنج وہ بیانیہ ہے جو گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردوں کے ساتھ مصلحت کوشی کی پالیسی پر مبنی ہے ۔ دہشت گردوں کو توگولی کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے مگر بیانیے کا توڑ کرنے کے لیے اس سے بہتر بیانیہ لانا پڑے گا‘ جو عوام کو اپنی طرف متوجہ کر سکے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کیOwnership پر تیار ہو جائیں۔ اسی لیے اب چند حلقوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر گزشتہ دو دہائیوں کی انسدادِ دہشت گردی کی ناکام کوششوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے نئی سوچ اور نئی اپروچ اختیار کی جائے‘ تبھی ملک میں جمہوریت اور عوام کی بالا دستی کے مخالف بیانیے کو شکست دے کر دہشت گردی کے خلاف وہ کامیابیاں حاصل ہوں گی‘ جنہیں سلامتی کمیٹی کے مشترکہ اعلامیہ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے لیے سٹیک ہولڈرز کو مشاورت کا دائرہ وسیع کر کے پارلیمنٹ سے باہر بھی غیر جانبدار اور آزاد عناصر سے ان پٹ لینا ہوگا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں