"DRA" (space) message & send to 7575

صدر سوبیانتوکا دورۂ پاکستان

جنوب مشرقی ایشیا کے ایک اہم برادر مسلم ملک انڈونیشیا کے صدر پرابووو سوبیانتو (Prabowo Subianto) حالیہ دنوں پاکستان کے دورے پر تھے۔ انہیں حکومت پاکستان نے دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات کی 75ویں سالگرہ کی تقریبات میں شرکت کیلئے مدعو کیا تھا۔ ان دنوں نہ صرف جنوب مشرقی ایشیا اور جنوبی ایشیا بلکہ دنیا کے دیگر خطے جیسے مشرقِ وسطیٰ‘ یورپ اور مشرق بعید جن تیز رفتار جیو پولیٹکل تبدیلیوں کے عمل سے گزر رہے ہیں‘ اس تناظر میں انڈونیشین صدر کے دورۂ پاکستان کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ مگر پیشتر اس کے کہ ہم صدر پرابووو سوبیانتو کی پاکستان آمد‘ مصروفیات اور دورے کے نتائج پر بات کریں‘ پاکستان اور انڈونیشیا کے تعلقات کی تاریخ کا بھی کچھ ذکر کر لیں کیونکہ یہ ایک دلچسپ اور اہم کہانی ہے۔
پاکستان اور انڈونیشیا کے مابین محبت اور دوستانہ تعلقات کی بنیاد قیامِ پاکستان سے پہلے ہی پڑ چکی تھی‘ وہ اس طرح کہ جب 1945ء میں جاپان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد انڈونیشیا کی سابق یورپی نو آبادیاتی طاقت ہالینڈ نے انڈونیشیا پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو برٹش انڈیا کی فوج میں شامل مسلم سپاہیوں نے اپنے انگریز حکمرانوں کی پروا کیے بغیر ولندیزیوں کے خلاف انڈونیشیائی عوام کی مسلح جدوجہد میں باقاعدہ حصہ لیا تھا اور اس جدوجہد میں متعدد سپاہیوں نے جام شہادت بھی نوش کیا تھا۔ احمد سوکارنو‘ جو اس مسلح جدوجہد آزادی کی قیادت کر رہے تھے‘ برٹش انڈیا کے ان مسلم سپاہیوں‘ جن کا تعلق پاکستان کے موجودہ اضلاع جہلم‘ راولپنڈی‘ اٹک اور چکوال سے تھا‘ کی بہت قدر کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انڈونیشین صدر سوکارنو نے کراچی اور مشرقی پاکستان کی حفاظت کیلئے اپنی دو آبدوزیں بھیجی تھیں۔ اس بات کی تصدیق میں نے ایک دوست سے بھی کی تھی جو انڈونیشیا میں سفارتکاری کے فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔
1947ء میں قیام پاکستان کے بعد حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ کے اندر اور باہر انڈونیشین عوام کے خلاف ولندیزیوں کی جارحیت کی مذمت کی اور عالمی برادری سے انڈونیشیا کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔ انڈونیشین عوام اور ہر حکومت آج بھی پاکستان کی اس گراں قدر حمایت کو یاد رکھتے ہیں‘ حالانکہ 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں پاکستان اور انڈونیشیا مختلف خارجہ خطوط پر استوار تھے۔ پاکستان جنوب مشرقی ایشیا کے دفاعی معاہدے ''سیٹو‘‘ اور مشرقی وسطیٰ میں معاہدۂ بغداد (بعد میں سینٹو) میں شمولیت اختیار کرکے امریکہ کا اتحادی بن چکا تھا اور انڈونیشیا نے غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی اختیار کر رکھی تھی۔ صدر احمد سوکارنو غیرجانبدار تحریک کے ایک اہم رہنما تھے اور اسی تحریک کے بانی سرکردہ رہنماؤں مثلاً بھارت کے پنڈت نہرو‘ مصر کے صدر جمال عبدالناصر‘ گھانا کے نکرومہ (Kwame Nkrumah) اور یوگوسلاویا کے مارشل ٹیٹو کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات تھے۔ اس کے باوجود جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے‘ صدر سوکارنو نے 1965ء کی جنگ میں پاکستان کے دونوں حصوں کی حفاظت کیلئے نہ صرف اپنی دو آبدوزوں کو عملے سمیت پاکستان بھیجا بلکہ وہ علاقائی مسائل پر بھارت کے وزیراعظم پنڈت نہرو کی پالیسی سے شدید اختلاف بھی رکھتے تھے۔ مثلاً بحر ہند پر انڈونیشیا بھارتی بالادستی کے دعوے کو تسلیم نہیں کرتا اور اس کی نفی میں انہوں نے بحرہند کا نام تبدیل کرکے 'ایفرو ایشین اوشن‘ نام تجویز کیا تھا۔
1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں پاکستان اور انڈونیشیا کے مابین تجارت‘ ثقافت اور تعلیم کے شعبوں میں گہرے اور قریبی تعلقات قائم تھے‘ مگر 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی اوردفاعی معاہدے ''سیٹو‘‘ سے نکل جانے کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی کا فوکس مشرق سے مغرب کی طرف منتقل ہو گیا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں‘ جن میں انڈونیشیا بھی شامل ہے‘ کے ساتھ تعلقات کی گرمجوشی میں کمی آئی‘ مگر میاں نواز شریف کی پہلی اور دوسری وزارتِ عظمیٰ کے دور میں پاکستان کی ''Look East‘‘ پالیسی کے تحت انڈونیشیا‘ ملائیشیا‘ تھائی لینڈ اور سنگاپور کے ساتھ معاشی اور تجارتی تعلقات میں اضافہ ہوا۔ اس کی ایک بڑی وجہ جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں اور انڈونیشیا پر مشتمل علاقائی تعاون کی تنظیم برائے تجارت اور ترقی ''آسیان‘‘ کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ تھا۔
آسیان کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیشِ نظر اور جنوبی ایشیائی ملکوں کے ساتھ اس کے بڑھتے ہوئے روابط کی روشنی میں پاکستان نے بھی اس خطے کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کی۔ آج سنگاپور‘ تھائی لینڈ اور ویتنام کے علاوہ انڈونیشیا بھی پاکستان کا ایک اہم تجارتی پارٹنر ہے۔ گزشتہ مالی سال دونوں ملکوں کا باہمی تجارتی حجم چار ارب 70کروڑ ڈالر تھا مگر اس کا 90فیصد سے زائد حصہ انڈونیشیا سے پام آئل کی درآمد پر مشتمل تھا۔ یعنی پاکستان کی انڈونیشیا کو برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں اور اس کی وجہ سے تجارت کا توازن نمایاں طور پر انڈونیشیا کے حق میں ہے۔ صدر پرابووو سوبیانتو کے دورۂ پاکستان کے دوران دونوں ملکوں کے مابین باہمی تجارت میں موجود اس عدم توازن کو دور کرنے پر خصوصی بات چیت کی گئی اور دونوں رہنماؤں نے اس مسئلے کے حل کیلئے ضروری اقدامات پر اتفاق کیا ہے۔ انڈونیشین صدر کے دورے کے اختتام پر جو مشترکہ بیان جاری کیا گیا اس کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں مثلاً صحت‘ تعلیم‘ توانائی اور سیاحت وغیرہ میں تعاون کو بڑھانے کیلئے متعدد ایم او یوز پر دستخط کیے گئے ہیں۔
انڈونیشین صدر کے دورۂ پاکستان کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ انڈونیشیا اور پاکستان‘ دونوں نے غزہ میں جنگ بندی کی نگرانی اور امن و امان قائم کرنے کیلئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے پیش کردہ امن منصوبے کے تحت انٹرنیشنل سکیورٹی فورس (آئی ایس ایف) میں شمولیت پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ اور غزہ کے بارے میں دونوں ممالک کی پالیسیوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اپنے دورے میں صدر پرابووو سوبیانتو نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور انڈونیشیا خارجہ پالیسی کے شعبے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے غزہ اور فلسطین کا ذکر کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور انڈونیشیا صرف تجارت‘ سرمایہ کاری اور معاشی شعبوں میں ہی تعاون کیلئے کوششیں نہیں کر رہے بلکہ علاقائی مسائل پر بھی یکساں مؤقف اختیار کرنے پر متفق ہیں۔ غزہ اور فلسطین کے مسئلے پر یکساں مؤقف اختیارکرنے سے نہ صرف خطے میں امن اور استحکام کو فروغ دینے میں مدد ملے گی بلکہ غزہ اور فلسطینیوں کے باسیوں کیلئے بھی اپنے حقوق کے حصول میں کامیابی کے امکانات روشن ہوں گے‘ کیونکہ پاکستان اور مصر نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اس یقین دہانی کے ساتھ ہی آئی ایس ایف میں شامل ہوں گے کہ اسے غزہ کے شہریوں کے خلاف یا حماس کو غیر مسلح کرنے کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کا مقصد غزہ کی سرحدوں کی حفاظت‘ جنگ بندی پر عمل کروانا اور غزہ سے اسرائیلی فوجوں کی واپسی کو یقینی بنانا ہے۔ پاکستان اور انڈونیشیا کی مشترکہ کوششوں سے اگر ٹرمپ پلان پر پوری سنجیدگی کیساتھ عمل درآمد ہو جائے تو یہ مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن کے قیام کیلئے بہت بڑا اقدام ہو گا۔ اسی طرح جنوب مشرقی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں کشیدگی کم کرنے کیلئے پاکستان اور انڈونیشیا میں تعاون بہت اہم کردار اداکر سکتا ہے۔ پاکستان آسیان کے ایک اہم ادارے ''آسیان ریجنل فورم‘‘ کا پہلے ہی ایک رکن ہے۔ انڈونیشیا کے ساتھ تعلقات میں وسعت کے نتیجے میں پاکستان اور آسیان کے درمیان روابط میں مزید اضافہ ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں